علماء عموماً بڑے ہی پاک نفس اور باقار لوگ ہوتے ہیں، ایک مرتبہ پہلے بھی یہ بات عرض کی تھی کہ بعض دفعہ تو مدرسے کے ماحول سے وابستہ افراد تمام نفسانی خواہشات کو مارتے مارتے شاید زندگی کے جائز لذتوں کی ‘ اہلیت’ سے بھی دستبردار ہوجاتے ہوں گے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ کبھی کبھار اسی ماحول میں کوئی شخص بشری کمزوریوں سے مغلوب ہوجائے یا پھر کسی کے اوپر درندگی ہی غالب آجائے، جس کا مشاہدہ ہم خبروں میں کرتے ہیں۔
لیکن برائی کی تشہیر سے روکنے کیلئے درکار شرم و حیا ان مستثنیات سے بھی رخصت نہیں ہوتا، یہ واقعہ صرف مفتی عبدالقوی کی شکل میں ہی سامنے آیاہے کہ وہ ایک لوفر مخلوق کی بیہودگی کو نہ صرف انجواے کرتے ہیں بلکہ اس کی ریکارڈنگ اور وائرل ہونے سے بھی انہیں کوئی عار نہیں ہوتا۔ بھٹو کے زمانے میں مولانا کوثر نیازی کی شراب نوشی کی خبریں عام ہوئی تھیں اور کچھ لوگوں نے تو ان کا نام ہی مولانا وہسکی رکھ لیا تھا لیکن مولانا کوثر نیازی نے عوامی سطح پر کبھی بھی ایک دینی عالم کی شان سے گری ہوئی ایسی حرکت نہیں کی جس قسم کی حرکتوں کا فخریہ اظہار مفتی قوی نے اب روز کا معمول بنایا ہے۔ ویسے بھی عمومی خیال یہی تھا کہ مولانا کوثر نیازی پر یہ الزام سیاسی نوعیت کا ہے، اس میں حقیقت کوئی نہیں۔
غالباً مفتی قوی کے والد صاحب کسی زمانے میں ملتان کے مدرسہ قاسم العلوم کی مجلس شوری کے رکن تھے، لیکن ان کی رکنیت بعد میں اخلاقی بے راہروی کی وجہ سے ختم کر دی گئی تھی۔ مفتی عبدالقوی نے مفتاح النجاح کے نام سے وفاق کے سوالات کو حل کرنے کی ایک کتاب بھی لکھی ہے ( گو کہ یہ نام دراصل عائض القرنی کی مشہور کتاب کی ہے) نیز وہ کبیر آباد ملتان میں خیر سے مدرسے کا مہتمم بھی ہے –
جب کسی یونیورسٹی سے متعلق اس قسم کی کوئی سکینڈل سامنے آجائے تو ایڈمنسٹریشن بڑی خوبصورتی سے اس کی تفصیلات پبلک نہیں ہونے دیتی، اور یہاں تو ” مفتی صاحب” خود بار بار اپنے ہی ہاتھوں سرِ بازار اپنے لباس کو تار تار کرنے پر تلا بیٹھاہے – فراڈیوں اور دونمبر لوگوں سے ہوشیار رہنے کے اشتہارات تو مچھر مار دوا بنانے والے اتائی بھی کرتے ہیں، کیا مدارس کا وفاق مفتی اور مہتمم کی ٹایٹل کے بارے میں اتنا بھی حساس نہیں ہے؟