آرٹس کونسل کراچی میں ہونے والی تیرھویں اردو کانفرنس کی کامیابی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں ایک نئے لکھنے والے کی دریافت ہوئی اور وہ نئی دریافت تھے مابدولت. قصہ کچھ یوں ہےکہ ہمارے ہاتھ نجیبہ عارف کی کتاب “راگنی کی کھوج میں” لگی، جو ہم کو بہت پسند آئی اور ہم نے اس پر تبصرہ لکھ دیا. مبین مرزا صاحب نے، کہ جنہیں ہم آگے چل کر مبین بھائی کہیں گے، یہ تبصرہ پڑھا تو برملا فرمایا کہ بھئی میں تو سمجھتا تھا کہ تم بس ” یونہی شعر ” وغیرہ پڑھ لیتے ہو لیکن یہ کتاب پر تبصرہ تو تم نے بہت اچھا لکھا ہے۔
مبین بھائی کہ اس تبصرے کے اگلے موڑ پر چلنے سے پہلے ہم مبین بھائی کا تعارف کرادیں۔ کراچی کی کسی بھی ادبی محفل میں ایک آدمی جو بہت صاف ستھرا، دھلا دھلایا، سجا سجایا ، مانگ پٹی سے آراستہ، نک سک سے درست، سادہ مگر نفیس لباس میں جمے جمائے لہجے میں مضبوط انداز سے گفتگو کرتا نظر آئےتو سمجھ جائیں کہ وہ مبین مرزا ہیں۔ دور کیا قریب سے دیکھنے پر بھی کسی بینک کے Glorified officer لگتے ہیں جو اپنے کسی potential client کو کوئی قرضہ دینے آیا ہو۔ ادیب شاعر جیسے لاابالی الجھے الجھے بکھرے بکھرے تو کہیں سے نہیں معلوم پڑتے۔ آپس کی بات ہے اس مانگ پٹی،نفاست اور سجاوٹ میں ہمیں تو بھابھی کی محنت اور محبت زیادہ لگتی ہے۔
اس تعارف کے بعد ہم آتے ہیں مبین بھائی کے اس تبصرے کی طرف جس کو پہلے ہم مذاق سمجھے اور جب یقین آیا کہ یہ مذاق نہیں ہے تو بولائے بولائے پھرے۔ ہم نے کہا “مبین بھائی یہ آپ نے کہا ہے کہ اچھا لکھتے ہو تو اب آپ ہی بھگتیں ہم تو اب، اپنا ہاتھ آپ کی کتاب پر صاف کریں گے بلکہ مکینک کی زبان میں آپ کی کتاب پر اپنا ہاتھ “رواں” کریں گے۔
سو صاحبو! ہم نے مبین مرزا صاحب کی کتاب “زمینیں اور زمانے” پڑھی اور دوبارہ پڑھی. دس کی دس کہانیاں زمین سے جڑی ہوئی ہیں، کسی بھی کہانی میں مصنف اپنی زمین سے دور نہی ہوتا یعنی وہ اس کے حصار سے نہیں نکل پاتا۔ برصغیر کے روایتی متوسط طبقہ کی یہ کہانیاں جن میں وہ روایتی رکھ رکھاؤ ہے جو ان گھرانوں کا امتیاز تھا۔ شہروں کے ہر جانب پھیلاؤ کا تو ذکر ہے لیکن تنگ گلیاں گلیارے،کچے راستے، ٹھیلے، دکاندار، درخت اور شجر ان کہانیوں میں جگہ جگہ اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ ایک کہانی “واٹس ایپ” کچھ جدید دکھائی دیتی ہے لیکن آنکھ اور جسم کا ٹکراؤ اس میں بھی وہی روایت والا ہے۔ محبوبہ کا رکھ رکھاؤ اور مرد کی بزدلی اور بےحسی جس طرح پہلی کہانی “بھولی بسری عورت” میں ہے اسی طرح یہ “واٹس ایپ” میں بھی ملتی ہے. ذرا واٹس ایپ کا ایک جملہ دیکھیں ” مرد کی کیمسٹری بھی عجیب ہوتی ہے ایک مہربان عورت اسے مکمل بدل کر رکھ دیتی ہے”.
کتاب میں ملتان مصنف کو کسی جگہ نہیں چھوڑتا یا یوں کہیں کہ کہانی کار جہاں جاتا ہے ملتان اپنے ساتھ بسا لے جاتا ہے۔ کتاب کی آخری کہانی “امانت” جو اسی سماجی رویہ کی عکاس ہے جو جدیدیت کی آمد سے قبل ہمارے ہر محلے میں معمول کی بات تھی، اس کہانی میں بھی دیکھیں کہ وہ سول سروس افسر جو برسوں سے اسلام آباد کا مکین ہے اور دنیا گھوم چکا ہے بوہڑ چوک اور نکڑ پر گنے کے رس والے کو فراموش نہی کرسکا ہے۔ وہ بیس برس بعد بھی اپنے شکستہ گھر کے دروازے پر کھڑا ہوجاتا ہے بلکہ بغیر کسی راہبر کے ایک ایسے مکان تک بھی جا پہنچتا ہے جو صرف اس کی بچپن کی یاد میں بسا ہے۔
“پرچی اور داستان” ہماری وہ کہانی ہے کہ جو کہیں بیان نہیں ہوتی لیکن ہر جگہ سنی جاتی ہے. کتاب کے آغاز میں یہ لگتا تھا کہ مبین بھائی صرف سماج اور سماجی رویوں کی بات کررہے ہیں لیکن “پرچی اور داستان” ایک نیا رنگ لے کر آتی ہے جس میں سماج تو ہے لیکن پردے کے پیچھے رہنے والی قوتوں کا عریاں کردار بھی عیاں ہورہا ہے۔مختصر سی کہانی “اجنبی موسم” کو پڑھیں کہ چار صفحات میں کیسا بھیانک سچ بیان کیا گیا ہے یا طویل کہانی “دہری سزا” میں خاندان، نسب، اور نسلوں کے آگے چلنے اور حویلی میں چچی بھتیجے کے تعلقات کا ذکر ہو، ” ٹھہرے ہوئے وقت” میں مصنف ایک نئے انداز اور ایک نئے روپ میں سامنے آتے ہیں. ایجنٹ، انڈر کور ایجنٹ اور بین الاقوامی جاسوسی کے جال اور بڑی طاقتوں کے ہتھکنڈوں کا ذکر آتا ہے اور اس سے آگے بڑھیں تو نتاشہ ایک بہادر بیٹی بن کر سامنے کھڑی ہوجاتی ہے۔ ” یہی تو ہے زندگی ” میں آغا جان کی محبت، بھائیوں کے حصار اور خاندان کی حفاظت کے باوجود نتاشہ اپنی جنگ تنہا لڑنے پر مصر ہے۔
تو صاحبانِ علم و فن یہ ہر طرح سے ایک پڑھنے کے قابل کتاب ہے. میں ادب کی کسی صنف کا ماہر نہیں ہوں لیکن کتاب پڑھنے کا شوقین ہوں اور ایک شوقین کتب آپ سب شائقین کو یہ کتاب پڑھنے کی دعوت دیتا ہے ۔