آج 20 جنوری اردو کی افسانہ نگار اور ناول نگار قرۃ العین حیدر کا یومِ ولادت ہے۔ اردو کے افسانہ نگاروں اور ناول میں قرۃ العین حیدر کا مقام بہت بلند ہے۔ قرۃ العین حیدر 20 جنوری 1926ء کو پیدا ہوئیں۔ وہ مشہور انشا پرداز سید سجاد حیدر بلدرم کی صاحبزادی ہیں۔ قرۃ العین حیدر علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں ۔بچپن کا زمانہ جزائر انڈمان میں گزارا جہاں ان کے والد ریونیو کمشنر تھے۔ اس کے بعد ڈیرہ دون کانونٹ میں تعلیم حاصل کی اور 1947ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
تقریباً اسی زمانے میں افسانہ نویسی کا آغاز کیا ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ تھا، جسے جدید افسانہ کا نقطہ ٔ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ 1947ء میں وہ پاکستان چلی آئیں جہاں وہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات و فلم سے وابستہ ہوگئیں۔ یہاں ان کے کئی ناول شائع ہوئے جن میں میرے بھی صنم خانے، سفینہ ٔ غم دل اور آگ کا دریا قابل ذکر ہیں۔ آخرالذکر ناول کی اشاعت پر پاکستانی پریس نے ان کے خلاف تناسخ کے عقیدے کے پرچار پر بڑی سخت مہم چلائی جس پر وہ واپس ہندوستان چلی گئیں۔
ہندوستان جانے کے بعد ان کے کئی افسانوی مجموعے، ناولٹ اور ناول شائع ہوئے جن میں ’’ہائوسنگ سوسائٹی، پت جھڑ کی آواز، روشنی کی رفتار، گلگشت، ستیا ہرن ،چائے کے باغ، اگلے جنم موہے بٹیانہ کیجو، جہانِ دیگر، دلربا ، گردشِ رنگ چمن اورچاندنی بیگم قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا سوانحی ناول ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ بھی اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔ 1989ء میں انہیں حکومت ہندوستان نے گیان پیٹھ ایوارڈ عطا کیا جو ہندوستان کا ایک بہت بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔ 2005ء میں حکومت ہند نے انہیں پدما بھوشن کے اعزاز سے سرفراز کیا۔
قرۃ العین حیدر نے 21 اگست 2007ء کو دہلی کے نزدیک نوئیڈا کے مقام پر وفات پائی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں۔