جناب عمران خان سے ہزار اختلاف کے باوجود نوجوان اور آبادی کا بڑا حصہ اب تک ان سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں اسی لئے رائے عامہ کے جائزوں میں اب تک ان کا سحر اور مقبولیت برقرار ہے اگرچہ بطور اپوزیشن لیڈر جس طرح وہ غصے کے اظہار کے عادی تھے اب بطور وزیراعظم ان کے لئے خاصی مشکلات ہیں اور وہ کھل کر اس کا اظہار بھی نہیں کر پاتے ہیں لیکن ابھی وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور کارکردگی کی بنیاد نہیں بن پاتا ہے۔
بلوچستان جو پشتونوں و بلوچوں کے ساتھ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کا مسکن ہے بہت سنجیدہ اور دیرینہ مسائل کا شکار رہا ہے جن کا شائد پیچھے نصف صدی سے ھمارے نیم جمہوری پارٹیوں کی حکومتوں اور خوفناک آمریتوں میں سے کسی نے ادراک نہیں کیا ہے جن میں ایک بنیادی نوعیت کا مسئلہ اور مشکل ترین مسئلہ سرحدی علاقوں اور دیہات نماء شہروں و قصبات میں بارڈر ٹریڈ کے لئے میکنزم کی تشکیل و تعمیر ہیں جس میں جناب نواز شریف سے لے کر جناب آصف علی زرداری اور بدنام زمانہ آمر پرویز مشرف کے ساتھ صوبائی حکومت و دانش و بینش رکھنے والے مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران اور دانشور بھی شامل ہیں جنھوں نے اب تک باڈر ٹریڈ پر ذرہ برابر توجہ نہیں دی ہے بلکہ گلستان سے تعلق رکھنے والے گورنر صاحب جناب محمد خان اچکزئی، اسپین بولدک اور قندھار تک نہیں گئے اور نہ ہی نوشکی وچاغی سے تعلق رکھنے والے سابق گورنر جناب امیر الملک مینگل، خاران سے تعلق رکھنے والے جناب جنرل عبدالقادر بلوچ اور تربت مکران سے تعلق رکھنے والے صوبے کے پہلے مڈل کلاس وزیر اعلیٰ جناب ڈاکٹر عبدالماک بلوچ زاھدان و ایرانی بلوچستان تک رسائی و سفارت کاری میں کبھی کامیاب ہوئے ہیں۔
اس تناظر میں جناب عمران خان نے باڈر ٹریڈ اور ایران و افغانستان کے ساتھ بے پناہ جغرافیائی اور عالمی مسائل کے باوجود بہت کلئیر ویژن کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے میں پیش رفت کررہے ہیں جن میں ایک نمایاں ورکنگ قومی اسمبلی کے اسپیکر جناب اسد قیصر کی سربراہی میں سرحدی امور اور تجارت میں آسانیاں پیدا کرنے اور قانون سازی کے لئے اقدامات تجویز کرنے کے ساتھ اعتماد و اعتبار کا ماحول دانش مندانہ سوچ کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں جو ہماری پالیسیاں تشکیل دینے والوں کے لئے بھی قابل غور وفکر ہونا چاہئے۔ تازہ ترین خبر ملاحظہ فرمائیں پھر اسی تناظر میں مختصر طور پر دونوں ممالک کے طویل سرحدات پر تجارت اور بلاشبہ لاکھوں انسانوں کی عزت و آبرو کے تحفظ و دفاع کے تقاضے پورے کرنے اور روزگار و خوراک کی ضروریات پوری کرتا ہیں
وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت پاک افغان اور پاک ایران سرحدی علاقوں میں بارڈر مارکیٹس کے قیام کے حوالے سے پیش رفت پر جائزہ اجلاس۔
اجلاس میں مشیر وزیر اعظم عبدالرزاق داؤد، معاون خصوصی ڈاکٹر معید یوسف،معاون خصوصی ڈاکٹر وقار مسعود، معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل اور سینیئر افسران شریک تھے ۔ وزیر برائے بحری امور سید علی حیدر زیدی اور متعلقہ سینیئر افسران اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شریک تھے ۔
اجلاس کو پاک افغان اور پاک ایران سرحدوں پر مقامی آبادی کو کاروبار کی بہتر سہولیات، تجارت کے فروغ اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لئے مجوزہ بارڈر مارکیٹوں کے قیام کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر لئے جانے والے اب تک کے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔
اجلاس کو 18 مجوزہ بارڈر مارکیٹس, جن میں سے 4 مارکیٹس پائلٹ منصوبے کے تحت قائم کی جائیں گی، کے ڈرافٹ پی سی ون اور ایران و افغانستان کے حکام سے مذاکرات میں اب تک کی پیش رفت کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔
وزیرِ اعظم نے بارڈر مارکیٹس کے قیام کے حوالے سے اقدامات کو فاسٹ ٹریک کرنے اور جلد ہی ایک جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی ہدایات دیں۔
ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں بسنے والی آبادی کی خوشحالی کے لئے ان مارکیٹس کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ ان مارکیٹس کے قیام سے نہ صرف مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے بلکہ سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے بھی مدد ملے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے ایڈریس کیا جائے اور ملک کے سرد و گرم حالات اور پی ڈی ایم کی برپا شدہ تحریک سمیت دوسرے اختلافی موضوعات و مسائل اس اہم ترین کام کو جاری رکھنے اور نتیجہ خیز بنانے میں روکاوٹ نہ بنیں۔