کچھ لوگ کہتے ہیں ( خاص طور پر ایسے لوگ جو پڑھتے کم اور بولتے زیادہ ہیں) کہ صحت اور تعلیم بنیادی سہولتیں ہیں جن کی فراہمی کلی طور پر حکومتوں کی ذمہ داری ہے جب راقم پوچھتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر جماعت اسلامی نے اسکول کیوں قائم کیئے جبکہ اس وقت تو متحدہ اور پیپلز پارٹی جیسی پارٹیوں نے سرکاری اداروں کو سفارشی اور سیاسی بھرتیوں سے تباہ و برباد نہیں کیا تھا۔
کیا مولانا مودودیؒ نہیں جانتے تھے کہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
کوئی معقول جواب نہیں مل پاتا۔ جماعت اسلامی نے ملک کے کئی شہروں میں اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے صحت کے ادارے بھی قائم کئے تھے۔
راقم نے اس موضوع پر جتنی تحقیق کی ہے اور جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم یقینی طور پر بنیادی سہولت ہے لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں یہ فقط حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو کاروبار نہ بنایا جائے اور ان شعبوں کے بارے میں حکومت ایسی پالیسیز تشکیل دے کہ نجی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے مالکان شتر بے مہار نہ بن جائیں اور یہ سہولتیں عام آدمی کی پہنچ میں رہیں کیونکہ ان شعبوں کے کمرشل ہونے کہ وجہ سے معیاری تعلیمی و طبی سہولتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں۔