فارن فنڈنگ کیس بطور جماعت پی ٹی آئی کے گلے میں چھچھوندر بن چکا ہے نہ نگلا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُگلا۔
جہاں تک اس کیس میں پی ٹی آئی کے بلاواسطہ اعتراف جُرم کی بات ۔۔۔ ہنوز دلی دور است ۔۔۔یہ بالواسطہ “اعتراف جُرم” اتنا بڑا اعتراف نہیں ہے بلکہ ایک حدتک اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر اگر ان کے چندہ اکٹھا کرنے والے “ایجنٹ “ نے یا غیر ملکی افراد سے چندہ اکٹھا کیا ہے تو وہ اس کی غلطی ہے بطور جماعت اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ ایک اہم قانونی نکتہ ضرور ہے لیکن اس فقیر کی محدود قانونی سمجھ کے مطابق “نمائندے یا ایجنٹ” کے کردہ کاموں کی قانونی ذمہ داری اس کے موکّل (جو موجودہ کیس میں PTI ہے) پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جماعت نے اس معاملے میں قانونی شرائط پوری نہیں کی۔ یہ تساہل و لاپرواہی ہے یا ایک مجرمانہ فعل ہے کا فیصلہ تو الیکشن کمیشن بلکہ غالباً عدالت عالیہ و عظمی کو کرنا پڑے گا۔
بظاہر یہ ایک سوچی سمجھی قانونی تدبیر ہے، ایک طرف تو فنڈنگ ایجنٹ کی غلطی کے امکانات کو کُلی طور پر رد نہیں کیا گیا دوسری طرف اگر ایسی کوئی بات ثابت ہوتئ بھی تب بھی اس سے عدالتوں میں نمٹا جائے یا کسی ہلکی پھلکی سزا اور جُرمانے پر جان چھُڑالی جائے۔ اگریہ واقعی “معصومانہ” غلطی ہے تو کیا یہ واقعتاً کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے “سزائے موت “ کا جواز بن سکتی ہے؟
بعض دوست اسے قومی اداروں کی ساکھ پر سوال کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ قومی اداروں کی ساکھ ہے ہی کیا جن کا واقعی مسئلہ پیدا ہو؟ اگر مسئلہ پیدا بھی ہوتب بھی اس معاملے کو درست کرنے کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے؟
ماضی قریب میں عدالتوں نے وزرائے اعظم (یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف ) کو مختلف معاملات میں گھر بھیجا ہے، لیکن اس وقت کسی بھی بڑےفیصلے کا اثر پوری پارلیمنٹ پر پڑے گا۔ میرا گُمان یہ ہے کہ اتنا بھاری پتھر کم از کم موجودہ سپریم کورٹ نہیں اُٹھا سکے گی۔ ممکن ہے کہ اس پارلیمان کی معیاد پورے ہونے یا تحلیل ہونے کے بعد کوئی ڈرامائی فیصلہ سامنے آئے۔
اگر مقصد پارٹی پر پابندی عاید کرنا نہیں ہے تو “اداروں” کے پاس کونسی متبادل سزا ہے؟ کیا جُرمانے کے ذریعے سزا دے کر کیس کو کسی منطقی انجام پر اس طرح لایا جاسکتا ہے؟ تاکہ آئندہ کے لئے ان حرکتوں کا سدباب ہو سکے۔
کیا الیکشن کمیشن قانون کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو اس امر کا پابند بنا سکتا ہے کہ تمام سیاسی عطیہ دہندگان کی فہرست اور ان کے دئیے ہوئے عطیات کی تفصیل پیش کی جائے؟ جیسا کہ امریکہ اور دیگر کئی ممالک میں ہوتا ہے۔ اس وقت تک کسی بھی سیاسی جماعت کے حسابات اور ذرائع پر بات کرنا فضول اور بے سود مشق ہے۔
چاہے آپ موجودہ حکومت کے حامی ہوں یا مخالف، 2018ء کے انتخابات کو کتنے بھی دھاندلی زدہ بھی سمجھیں اس حقیقت سے تو انکار نہیں کریں گے پی ٹی آئی پہلی نہیں تب بھی ووٹوں کے لحاظ دوسری پوزیشن تو حاصل کر ہی لیتی۔ کیا ملک کی پہلی یا دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی پر اس جُرم کی پاداش میں پابندی عاید کرنا کہ اسے کسی امریکہ میں مقیم غیر پاکستانی نے سو یا پچاس ڈالر کے چندہ دیا ہے، اداروں کی ساکھ میں اضافے کا سبب بنے گا؟
اس معاملے میں پی ٹی آئی کی پوزیشن اس لئے بھی کمزور ہے کہ اس کے حامیوں کی قابل ذکر تعداد بیرون ملک پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے قابل ذکر تعداد نے ان ممالک کی شہریتیں لے رکھی ہیں۔پاکستان نے 19ممالک کے ساتھ دُھری شھریت کا معاہدہ کیا گیا ہوا ہے جو:
برطانیہ،امریکہ ، کینیڈا،آسٹریلیا، بیلجیم،فرانس ،آئس لینڈ ،اٹلی ،آئرلینڈ،نیوزی لینڈ، سوئیڈن، سوئیزرلینڈ، ہالینڈ ، شام بحرین،فن لینڈ اور ڈنمارک ہیں۔ ترکی سے بھی دُھری شھریت کی بات شروع ہوئی تھی لیکن اب تک کچھ بھی سامنے نہیں آیا۔
یقیناً بڑی تعداد میں پاکستانی تاریکین وطن ان میں سے چند ممالک ہی میں مقیم ہیں، لیکن دنیا بہت بڑی ہے۔ ان 19ممالک کے علاوہ کسی بھی ملک کے پاکستانی نژاد شہری نے ایک روپیہ بھی دیا ہے تو بھی فارن فنڈنگ ہی کہلائے گی۔
امریکہ میں جہاں سیاسی فنڈنگ کے لئے سخت قوانین نافذ ہے ایسے کسی بھی متنازعہ عطیے کو متعلقہ فرد کو واپس کرکے کیس بند کردیا جاتا ہے۔ لیکن ہر ملک کے اپنا معروضی حالات اور قوانین ہوتے ہیں۔میری محدود معلومات کے مطابق امریکہ میں انفرادی سیاسی چندے جس میں عطیہ دہندہ کی تفصیل کے ساتھ 100 ڈالر کی حد ہے اور نامعلوم فرد کے لئے یہ حد 50 ڈالر ہے۔
ہمارے ہاں ہاتھی کو نگلنے کے بعد چیونٹی کی حُرمت پر بحث کی جاتی ہے۔ پہلا پتھر وہ مارے جس نے گناہ نہ کیا ہو، والی مثال بھی خاصی اہم ہے۔ نواز شریف کے بارے میں اُسامہ بن لادین یا بعض مذہبی جماعتوں کے بارے میں سعودی یا دیگر عرب ممالک کی فنڈنگ کے “افواہیں” (کہ ان کے بارے میں نہ تو کوئی تحقیقات ہوئی اور نہ کو ثبوت و گواہ سامنے آیا) بھی سامنے رکھیں۔
اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ انفرادی متنازعہ سو پچاس ڈالر کا عطیہ بھی اتنا تشویشناک نہیں ہوتا جتنا دیگر ممالک کی حکومتوں، حکمرانوں سے “عطیہ” یا تحفہ وصول کرنا یا بڑے بزنس گروپوں چاہے پاکستانی ہی کیوں نہ ہوں کا براہ راست سیاسی جماعتوں میں عمل دخل ہے کہ وہ اس کے بدلے مستقبل کی پالیسیوں کو اپنے مفاد مطابق متعین کرانا چاہیں اس سے بدتر صورتحال ہے۔
اب تک نہ تو اسامہ بن لادن کی مبینہ طور ن لیگ یا نواز شریف کودی جانے والی رقم پر اور نہ ہی اور ہی دینی جماعتوں کو عرب ممالک یا ایران کے جانب سے امداد پر کوئی سنجیدہ تحقیقات کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں ہماری پالیسیوں ہی نہیں بلکہ ملک میں مسلک پرستی کے نام پر خونریزی ہورہی ہے اس پر کوئی سوال ہی نہیں اُٹھتا۔ معاملہ اُٹھایا ہے گیا تو چھوٹی چھوٹی چندے کی پرچیوں پر۔
سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ جب یہ سب کچھ ہورہا ہے تو شکایت کنندہ کیا کررہے ہیں؟ کیا انہوں نے اس غیر قانونی حرکت پر کوئی اعتراض اُٹھایا؟ کیا اس بات کے امکانات یہ بھی ہیں کہ کسی نے باقاعدہ اس بم کو پی ٹی آئی کے گلے میں دھماکہ خیز مواد کے طور پر استعمال کرنے کے لئے باقاعدہ رکھوایا گیا ہے؟
یقیناً اس وقت کی پارٹئ قیادت اس معاملے میں اپنی ذمہ داریوں سے مبرّا نہیں ہو سکتی ۔ لیکن جتنے لاپرواہ اب تک یہ ہنڈسم وزیراعظم ہیں ان کے پاس اس قسم کے قوائد وضوابط کا خیال رکھنے کے لئے نہ تو دناغ ہے اور نہ ہی انتظامی تجربہ ، انکا دماغ صرف لاف گزانی سے شروع ہوتا ہے اور وہیں پر ختم۔
ایک سوال یہ بھی ہے سارا زور پارٹی فنڈ کے نام پر چندے کی پرچیوں پر ہی کیوں ہے؟ اس سے بڑے معاملات جن میں تحائف و دیگر مراعات کے نام بیرونی حکومتوں بلکہ بڑے بزنس گروپوں سے کے پارٹی چندوں کے نام پر وصول کی جانے والی رشوت پر بات کیوں نہیں کی جاتی ؟۔ (ان نوازشوں و مراعات کا مقصد درحقیقت یہی ہوتا ہے کہ جب یہ صاحب اقتدار میں آئیں گے تو انکے مفادات کا تحفظ کریں گے)۔شاید اس لئے کہ اس حمّام میں سب ہی ننگے ہیں۔
شریف فیملی کے قطر سے کاروباری تعلقات تو تسلیم شدہ امر ہیں، اس کے علاوہ اسی فیملی کی طویل عرصے تک سعودی عرب میں مہمان نوازی ۔۔ کیا اسکے اخراجات شریف فیملی اپنی جیب خاص سے کرتی تھی یا وہ بھی عطائے شاہی تھی؟
جب نوازشریف جلاوطنی ختم کرکے واپس تشریف آئے تو کہاجاتا ہے کہ انہیں انتخابی مہم یا ذاتی استعمال کے لئے سعودی حکمرانوں نے بلٹ و بم پروف مرسیڈیز کار یا کاریں تحفتاً دی تھیں۔ پرویز مشرف نے بھی کسی مشرق وسطیٰ کے حکمران سے تحفہ میں خطیر رقم وصول کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
قطر کو تو اپنے تعلقات کے بدلے بزنس مل گیا۔ سعودی بادشاہت کو کیا ملا؟ یہ نہیں کہ انہیں ادائیگی کرنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن بدقسمتی سے جو قیمت (یمن کی جنگ میں براہ راست پاک فوج کی شرکت) وہ مانگ رہے تھے وہ نوازشریف کے بھی بس سے باہر تھی۔
وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں بھی حال ہی میں ہارون رشید صاحب نے کہا ہے کہ وہ رشوت کی ایک پائی نہیں لیتے لیکن تحفہ کی مد میں دوکروڑ لینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق There ain’t no such thing as a free lunch یعنی دنیا میں مفت کچھ نہیں ہوتا۔
دنیا میں یہ ساری رقوم و عطیات قانونی زبان میں benefit in kind کہلاتے ہیں اسے رشوت ہی کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے۔ کم از کم سو پچاس روپے یاڈالر کے چندے جو کہ چندہ دہندہ کو پارٹی یا حکومتی پالیسی پر کسی قسم کا اثر رسوخ نہیں دیتا کی بہ نسبت زیاد تباہ کن ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں کارپوریٹ اور سرکاری دفاتر میں رشوت کے شائبے کو دور کرنے کے لئے تحائف کی مالیت کی حد رکھی جاتی ہے وہ بھی انتہائی معمولی حدتک (میرے ایک عزیز ایک بین القوامی کمپنی میں کام کرتے ہیں انکی کمپنی کے اصول کے مطابق کسی فرد کو 20 ڈالر کی مالیت کا تحفہ نہیں لیا یا دیا سکتاہے۔ اس مرتبہ یہ فقیر کسی مقدمے میں استغاثہ کے گواہ ہی حیثیت سے پیش ہورہا تھا۔ دوران مقدمہ وکیل استغاثہ سے ایک چائے خانے میں ملاقات کے دوران اس نے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ قانونی طور پر وہ مجھے چائے کا کپ بھی نہیں پیش کرسکتا اس لئے ہم دونوں نے اپنی اپنی چائے کی انفرادی ادائیگی کی۔
آج ہمارے “ایماندار و دیانتدار” حاکم رشوت نہیں لیتے، لیکن انکے اردگرد وہ سارے دیالو بڑے بزنس مین انہیں free lunch کی بوٹیاں کھلانے والے پوری قوم کے بکرے کو نوچ نوچ کر کھارہے ہیں ۔ جہانگیر ترین کے جہاز کے خرچ سے کئی گنا زیادہ انہوں نے چینی کی سبسڈی میں کمالی، یہی حال آٹا، گیس اور پیٹرول کی مافیا کا ہے۔ابراج گروپ نے بھی پارٹی فنڈنگ کے نام پر جو کچھ دیا اس سے گئی گُنا سود سمیت وصول کر چُکا ہے اور کراچی کے شھری ابھی تک ان کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کراچی ہی نہیں پورا ملک ٹیکنو کریٹوں کے نام پر پارٹی کے عطیہ دہندگان بڑے بزنس گروپوں کے سربراہان یا گماشتوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔
جہاں تک اداروں کی ساکھ کی بات ہے، اداروں کی ساکھ ہوا میں نہیں زمینی حقایق و کارکردگی کی بنیاد پر بنتی بگڑتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ جب ایک اہم عہدے پر فائز ریٹائیرڈ فوجی افسر کے اہل خانہ کے پاس بیرون ملک کثیر تعداد میں پیزا کے اسٹور برآمد ہوتے تو وزیر اعظم سارا سسٹم اور اداروں کو بالائے طاق رکھ کر خود ہی انکی بے گناہی کا اعلان کردیا۔ اس صورت میں اداروں کی کون سی ساکھ کیسی ساکھ؟
پھر بھی ہمارے ہینڈسم ایمانداری و دیانت کے دیوتا بنے پھرتے ہیں۔
کچھ علاج اِس کا بھی اے ! چارہ گراں ہے کہ نہیں