بھڑاس وہ واحد چیز ہے جو اس جگہ نہیں نکالی جاتی جہاں نکالنا چاہیے بلکہ وہاں نکالی جاتی ہے جہاں مقابل اس حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہوتا- اچانک شروع ہونے والے تابڑ توڑ حملوں کے ساتھ اس کا نشانہ عموماً وہ لوگ بنتے ہیں جن کو نہایت قریبی ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے- ہم میں سے ہر ایک طبیعت سے اپنی بھڑاس نکال کر قلبی و ذہنی تسکین حاصل کرتا ہے- بھڑاس نکالنے کا عمل ایک وائرس کی طرح کام کرتا ہے- جو بھڑاس آپ پر نکالی گئی وہی بھڑاس آپ بمع سود کہیں اور نکال دیتے ہیں اور مجال ہے جو اُدھر بھی اس بھڑاس کو خود تک محدود رکھنے کی رتی برابر بھی کوشش کی جائے- غرض یہ کہ ہر شخص اس کارِ خیر میں حتی المقدور اپنا حصہ ڈال کر ثوابِ دارین حاصل کرنے اپنی بھڑاس مزید آگے بڑھاتا جاتا ہے-
بھڑاس نکالنے کے عمل کا دلچسپ پہلو اس کے اظہار کے مختلف طریقے ہیں، زبانی کلامی سے لے کر پٹخم پٹخی تک، یہ اور بات ہے کہ پٹخنے کا دائرہ کار محدود نہیں رہتا بلکہ وسیع ہوتا ہوا اشیائے مصرف سے اشخاصِ مضطرب پر لگائی جانے والی کاری ضرب تک پہنچ جاتا ہے- اس طرح کچھ لوگ جلی کٹی سنا کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں تو کچھ لوگ جو سنا نہیں سکتے وہ اپنے اطراف پڑی چیزوں کو احتجاجاً پٹخ پٹخ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں- پلیٹیں، چمچے، ریموٹ کنٹرول اور دیگر اشیاء ایسے مواقع پر خوب کام آتی ہیں- حتی کے حد درجہ میلے اور داغ لگے کپڑے بھی اسی بہانے پٹخ پٹخ کر دھو دیے جاتے ہیں جن کو عام حالات میں اس طرح دھونا شاید ممکن نہ ہو-
کچھ لوگوں کی دلی بھڑاس، نکال دینے پر بھی نہیں نکل پاتی تو وہ پھر سے تازہ دم ہو کر مزید بھڑاس نکالتے ہیں- بھڑاس کو جب تک مکمل طور پر نہ نکالا جائے، تسلی نہیں ہوتی- اور جب تسلی ہو جاتی ہے تو پھر خیر نہیں رہتی کیوں کہ بھڑاس نکلنے کے بعد نہ اِدھر جاتی ہے اور نہ ہی اُدھر جاتی ہے بلکہ سیدھا جا کر سامنے والے کے دل پر لگتی ہے اور دماغ پر اثر کرتی ہے- بھڑاس نکالنے کے لیے گو کہ زبان اور ہاتھوں کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن ادب پُر لطیف اسکو کہنے اور سننے کے عمل سے بری الذمہ قرار دیتا ہے-
بقول جون ایلیاء کے
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی
تو معاملہ یہ ہے کہ نہ یہ کہی جاتی ہے اور نہ ہی سنی جاتی ہے، بس نکالی جاتی ہے اور کیا خوب نکالی جاتی ہے۔ اس طرح بھڑاس وہ واحد چیز ہے جو کہنے سننے سے زیادہ نکالے جانے سے خوشی دیتی ہے اور نکالے جانے کے بعد کم از کم یہ نہیں کہتی کہ “مجھے کیوں نکالا؟”
عموماً بھڑاس نکالے جانے کے بعد بے بھاؤ کی سننی پڑتی ہے لیکن اکثر بھڑاس نکالنے کا عمل اس وقت بہترین اور قابلِ داد ہو جاتا ہے جب بھڑاس نکالنے کا عمل تخلیق کاروں کے ہاتھوں سر انجام پاتا ہے- اس طرح ادب اور فنون لطیفہ کو بہت فائدہ ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ ادب کی یہ خدمت، تخلیق کار بہت بے ادب ہو کر کرتے ہیں- اسی لیے مصوروں کے جو فن پارے تجریدی آرٹ کا شاہکار سمجھے جاتے ہیں وہ دراصل کلاکار کی رنگوں کے ذریعے کینوس پر بھڑاس نکالنے کا نتیجہ ہوتے ہیں- راگ الاپتے ہوئے غزل گائیک بہرحال اس کا کچھ زیادہ ہی ناجائز فائدہ اتھاتے ہیں اور سامعین کے سر دھننے کا عمل دراصل جوابی ردعمل ہوتا ہے-
بھڑاس نہ نکالنے سے دل پر آنے والے اضافی بوجھ سے ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق بھڑاس بروقت نکال دینے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جن پر بھڑاس نکالی جاتی ہے ان کی عمر کا کیا ہوتا ہے۔
دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ہمت کے مدارج طے کرنا لازمی ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ بھڑاس کا عمل منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے آپ کے اندر کم ہمتی کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ ہمت کا ہونا بھی لازمی ہے- وہ اس طرح کہ جب کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی دوسرے کی بھڑاس کا نشانہ بنا جائے جبکہ دوسرے مرحلے میں ردعمل کے طور پر ہمت دکھاتے ہوئے کسی دوسرے سے بِھڑا جائے۔
نیدرلینڈ میں عوام کی بھڑاس نکالنے کا باقاعدہ انتظام کیا گیا ہے اور وہاں کٹ شٹ میں ملبوس ہو کر بڑ بولے لوگ پرانی، ناکارہ اور تباہ شدہ گاڑیوں کو ہتھوڑوں سے توڑ توڑ کر اپنی دلی بھڑاس نکال لیتے ہیں اور ایسا کرنے کے بعد بقول ان کے وہ بہت بہتر محسوس کرتے ہیں- اسی طرح چین اور دوسرے ممالک میں اینگر روم بنائے گئے ہیں جہاں بھرے بیٹھے ہوئے سینکڑوں لوگ ہتھوڑوں اور بَلّوں کا استعمال کر کے پرانی چیزیں توڑ توڑ کر اپنی بھڑاس نکال باہر کرتے ہیں۔
لیکن افسوس ہمارے یہاں حکومتی سطح پر ایسا کوئی بھی انتظام نہ ہونے کے باعث عوام اپنی بھڑاس سڑکوں پر رواں دواں چلتی گاڑیوں اور بسوں کے شیشے توڑ کر نکالتی ہے- اس کے علاوہ چوراہوں پر ٹوٹے ہوئے سگنلز، جلی ہوئی بسیں، گورنمنٹ عمارتوں کے ٹوٹے شیشے، نعروں اور وعدوں سے سجی دیواریں، پارکوں میں ٹوٹے جھولے، اسپتالوں کی دیواروں پر پان کی لال پیکیں اور پانی کے نلکوں پر زنجیروں سے بندھے ہونے کے باوجود غائب ہوجانے والے گلاس عوام کی بھڑاس کا عملی ثبوت ہیں-
عوام کی بھڑاس نکالنے کے اس عمل میں ہتھوڑوں کی عدم دستیابی سڑکوں کے اطراف پڑے روڑے اور پتھر پورا کر دیتے ہیں- آ بیل مجھے مار کے مصداق حکومت کے زیر سایہ میونسپلٹی سارا سال بھی ان پتھروں کو شاید اسی لیے صاف کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے کہ بھڑاس نکالنے کے عمل کو مسائل میں گھری عوام کے لئے سہل بنایا جا سکے- عوام کو ایسی چھوٹی موٹی سہولت دینا حکومت کی اولین ترجیح ہے، سرکاری املاک کی خیر ہے-
حالیہ ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ گزشتہ سالوں میں سوشل میڈیا بھڑاس نکالنے کا سب سے مؤثر ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے- عوام ہوں کہ سیاستدان، نانی ہوں کہ دادا جان، سب کو کھلا لائسینس ملا ہوا ہے جس سے سب ہی مستفید ہو رہے ہیں- لوگ سارا سارا دن سوشل میڈیا پر اپنی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں- یہاں آپ تاریخ کا حصہ بھی بن سکتے ہیں اور نئی تاریخ رقم بھی کر سکتے ہیں- کسی کو اپنے ہونے کا زعم ہو یا ویسے نہ ہونے کا غم- شکیل سے شکیلہ تک کا اور نبیل سے نبیلہ تک کا حسین سفر بس ایک اکاؤنٹ بنا کر پورا کیا جا سکتا ہے- اب محبوبہ سے ہو دوری یا باس کی کوئی مجبوری، بھڑاس نکالنے کے لیے وال اسٹیٹس ہے ضروری- غصے کی آگ بجھانا ہو کہ جذبات سلگانا ہوں، یہاں سب ممکن ہے-
جاتے ہوئے اقتدار کا بخار ہو یا ملنے والی کرسی کا خمار، سوشل میڈیا سب کی بھڑاس نکالنے میں معاون ثابت ہوا ہے- اس کا بھرپور استعمال حالیہ امریکی انتخابات میں دیکھا گیا- ویسے جب امریکی صدر ٹرمپ کے ایک ٹوئٹ پر ان کے حامی بھڑاس نکالنے ساری رکاوٹیں عبور کر کے وائٹ ہاؤس کے اندر تک پہنچ سکتے ہیں تو پاکستان میں بھی اسی فارمولے پر عمل کیا جا سکتا ہے- اب پتھروں سے شیشے، سگنلز اور گاڑیاں تڑوانے سے بہتر ہے کہ ہتھوڑے ہاتھ میں تھما کر عوام کو زیرِ تعمیر کسی سڑک کا راستہ دکھا دیا جائے تاکہ کھدائی کا عمل تیز ہو سکے- ڈاکٹروں کے مطابق بھڑاس نکالنے کی اس کیفیت میں ناتواں جسموں میں بھی اتنی طاقت آجاتی ہے کہ اس وقت تیل کے کنویں تک کھودے جا سکتے ہیں اور یقین کریں مہنگائی کے جن کے ہاتھوں پریشان بے چاری عوام اتنی بھری ہوئی بیٹھی ہے کہ اس کو تو بس راستہ چاہیے بھڑاس نکالنے کا، گیس کے کنوؤں سے تیل تک نکال لے آئے گی-
عام حالات میں بھڑاس نکالنے کا عمل بغیر کسی وقفے کے مرحلہ وار جاری رہتا ہے- اعلیٰ افسران کے دباؤ کی بھڑاس ماتحت ملازمین پر نکالی جاتی ہے- وہی ماتحت ملازمین جو آفس میں گیڈر ہوتے ہیں لیکن گھر کے شیر، گھر میں داخل ہوتے ہی ساری بھڑاس بیوی بچوں پر نکال دیتے ہیں- کمر کی تکلیف کا شکار لوگ جو بھڑاس کا بوجھ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر پاتے وہ اِس بھڑاس کو گھر تک لانے کی بھی زحمت نہیں کرتے اور نہایت بہادری کے ساتھ اس بھڑاس کو آفس سے واپسی پر سڑکوں پر ہی نکال کر اطمینان سے گھر آتے ہیں- روزانہ شام کے اوقات میں اہم شاہراہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جاری “تُوتُو میں میں” بھڑاس نکالنے کے عمل کا ہی ایک پُر لطف مگر چٹپٹا پہلو ہے-
ساس کے زبانی حملوں سے ستائی ہوئی بیوی اپنی بھڑاس شوہر کے سامنے کھانے کی پلیٹ پٹخ کر نکالتی ہے یا پھر بے چارے بچوں کو بلاوجہ ہی ٹھونک کر- اب گیہوں کے ساتھ گُھن تو پستا ہی ہے نا، مگر بعض اوقات کوٹا بھی جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر گھوٹا بھی- ہمیں تو حلیم بھی شاہی تاریخ کی کسی بھڑاس کا نتیجہ لگتی ہے-
گزشتہ دنوں ایک خاتون شکوہ کناں تھیں کہ ان کی ساس دن بھر نہ جانے کیا کیا بڑبڑاتی رہتی ہیں- ان کو مشورہ دیا گیا کہ آپ کان لگا کر سننے کی کوشش تو کریں کہ آخر وہ کیا بڑبڑاتی ہیں- کچھ دنوں بعد خاتون کی بیٹی سے ملاقات ہوئی تو ان کا احوال پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ساس کے ساتھ ساتھ اب خاتون نے بھی بہت اہتمام سے بڑبڑانا شروع کر دیا ہے اور اب دونوں خواتین کی بھڑاس نکالنے کا آسان ہدف اس بچی کے ابا، خاتون کے میاں، اور خاتون کی ساس کا بیٹا ہے- جبکہ ہماری اطلاعات کے مطابق اس گھر میں پچھلے کئی برسوں سے صرف ایک ہی “شریف” آدمی رہتا آ رہا ہے-
ریسرچ سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین بھڑاس نکالنے کے عمل میں سب سے آگے ہیں- مرد حضرات تو پھر بھی اپنی دلی بھڑاس کو بریک لگا کر روک دیتے ہیں لیکن خواتین سے تو چلتی گاڑی کو روکنے کے لیے صحیح وقت پر بریک نہیں لگتے تو بھڑاس تو پھر آگے کی چیز ہے- مرد حضرات کے لیے بس یہی نیک مشورہ ہے کہ بھڑاس نکالیں، خوب نکالیں، ہر جگہ نکالیں، آفس ہو کہ سڑک، دل کھول کر نکالیں لیکن اگر گھر میں بھڑاس نکالنا ناگزیر ہو تو حفظِ ما تقدم کے طور پر ہیلمیٹ ضرور پہن لیں، احتیاطاً وصیت تیار رکھیں اور گورکن سے اچھے تعلقات- آگے کے معاملات کی خیر ہے- کیونکہ جان باقی تو بھڑاس باقی-