اردو کے نامور شاعر خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778 میں ہوئی ۔ اور 13 جنوری 1847 کو ان کا انتقال ہوا ۔
بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔
نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مصحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً انتیس سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔
آخری عمر میں بنیائی جاتی رہی۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔
آتش کوعموماً دبستان لکھنو کا نمائندہ شاعر کہا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان شاعری میں دبستان دہلی کی شاعری کے آثار موجود ہیں اور وہ لکھنو کی خارجی اور دہلی کی داخلی شاعری کی حد فاصل پر کھڑے نظر آتے ہیں۔وہ بنیادی طور پر عشق و عاشقی کے شاعر ہیں لیکن ان کا کلام لکھنو کے دوسرے شاعروں کے بر عکس رکاکت اور ابتذال سے پاک ہے، ان کے یہاں لکھنویت کا رنگ ضرور ہے لیکن خوشبو دہلی کی ہے۔اگر انہوں نے یہ کہا۔
وہ آتش وجدان اور احساس جمال کے شاعر تھے۔ رام بابو سکسینہ ان کو غزل میں میر و غالب کے بعد تیسرا بڑا شاعر قرار دیتے ہیں ۔
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے
لٹاتے دولت دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مے نقرئی سبو کرتے
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفوگر رہے رفو کرتے
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
بیاض گردن جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارۂ سحری تکمۂ گلو کرتے
یہ کعبے سے نہیں بے وجہ نسبت رخ یار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رو کرتے
سکھاتے نالۂ شبگیر کو در اندازی
غم فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے
وہ جان جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے