بات جتنی آسان ہو اتنی آسانی سے سمجھ آئے گی ۔اسی لئیے تحریر کا عنوان تبدیل کرنا پڑا ۔مسئلہ قومی ہو یا بین الاقوامی ،جدید دنیا میں جذبات اور احساسات کی کوئی وقعت نہیں۔بدقسمتی کہیں یا تلخ حقیقت ہم ایسے نظام میں جی رہے ہیں ۔جہاں اصول،ضابطے،قواعد ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور کبھی کبھی تو غیراہم ہوجاتے ہیں ۔
آپ حق ہیں باطل دنیا کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔آپ کی آواز سے آواز اسی صورت ملائی جائے گی جب مفادات مشترکہ ہوں ۔ اس سلسلے میں ہم مذہب،ہم مسلک اور ہم زبان ہونا بھی شرط نہیں۔ بھلے ماضی میں دو افراد ایک دوسرے کی کتنی بھی تذلیل کرچکے ہوں ۔رقیبوں کے اہداف ایک ہوں تو رفیق بنتے دیر نہیں لگتی ۔ موجودہ پی ڈی ایم اس کی بڑی اور واضح مثال ہے۔ یہ ان رہنماؤں کا اتحاد ہے جو کسی زمانے میں ایک دوسرے کو کافر،غدار،مرتد قرار دیتے رہے ۔ آج ماضی پر مٹی ڈال کر شیر وشکر ہوچکے ہیں ۔
جس طرح پی ٹی آئی نے شیخ رشید اور ایم کیوایم کو گلے لگایا، کل عمران مریم اتحاد بھی خارج از امکان نہیں لگتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مفادپرستی صرف ہماری سیاست تک محدود ہے؟ کیا عالمی سطح پر میرٹ پر اقدامات ہوتے ہیں ؟ غور کریں تو جواب نفی میں آئے گا۔ ماضی میں جائیں تو ہم مذہب،ہم ثقافت یورپ عالمی جنگوں میں سینگ لڑاتا رہا ۔ سردجنگ دو ایسی اقوام یا معاشروں میں لڑی گئی جنہیں ایک دوسرے کےمذہبی عقائد سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ اپنے معاشی سسٹم کی بالادستی جھگڑے کی وجہ بنا ۔ عالمی تنازعات پر نظر ڈالیں تو زیادہ تر اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل یا قدرتی وسائل سے مالامال علاقے دوممالک میں جھگڑے کی وجہ نظر آئیں گے ۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت ہے نگورنوکاراباخ جو آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جھگڑے کی جھونپڑی بنا نظرآیا
گذشتہ برس دونوں ممالک جنگ کی آگ میں کود پڑے ۔چھ ہفتے جاری رہنے والی لڑائی بالآخر آذری برتری پر ختم ہوئی ۔ میرے رائے میں یہ جنگ مفادات کو اس نہیج پر لے گئی جس کا تصور محال تھا ۔ 1990 میں روسی مدد سے آذربائیجان کو زیر کرنے والا آرمینیا ایک بار پھر ماسکو سے آس لگائے بیٹھا تھا مگر اب حالات مختلف تھے ،کامیاب سفارتکاری اور پرکشش معاہدوں کے سبب آذربائیجان روس کیلئے اہمیت اختیار کرگیا۔
ہم مذہب اور ہم مسلک ہونے کے باوجود روس غیرجانبدار رہا اور میدان جنگ میں کودنے سے گریز کیا ۔ اس جنگ میں امریکا بھی مفاد بھانپ چکا تھا، اس لیے کوئی ایڈونچر نہ دکھایا۔ ادھر آذربائیجان مذہبی طور پر مسلم اور مسلکی طور پر شیعہ ریاست ہے مگر اس جنگ میں ایران کسی بھی طور اس کا اتحادی نہیں ۔ یہ وہی ایران ہے جو بشار الاسد کے معاملے پر جان کی بازی کھیل چکا ہے۔ یہاں کچھ لوگ مقامات مقدسہ کے دفاع کا ذکر کریں گے ۔ مجھے ایران کی اہلبیت سے محبت پر رتی برابر شک نہیں لیکن شاید کچھ لوگ جانتے ہوں کہ کچھ زیارات آذربائجان میں بھی ہیں۔ اس لڑائی میں ترکی جیسی سنی ریاست آذربائیجان کے شانہ بشانہ رہی۔
یہ وہی ترکی ہے جو شام میں بشار الاسد اور لیبیا میں متحدہ عرب امارات کا حریف ہے ۔
تو آخر آذربائجان میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں جو ترکی اس جنگ میں کود پڑا ۔۔ سوال کا جواب پھر وہی آئے گا مشترکہ مفاد ،ترک سرمایہ کاری یعنی سب سے بڑا روپیہ ۔ لڑائی کے سب سے دلچسپ پہلو پر بات ہی نہیں ہوئی ۔ چلئے دیر آید درست آید۔۔ اسرائیل کو عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔ لیکن آرمینیا نے مات بھی اسرائیلی ہتھیاروں سے کھائی مسلمانوں کا یہ سب سے بڑا دشمن آذری اتحادی تھا جو پوری جنگ میں میں اپنے حلیف کو اسلحہ دیتا رہا ۔۔ معاملہ یہاں بھی بھائی بندی کا نہیں مال کا تھا ۔ نگورنو کاراباخ کی زمین میں جو خزانے چھپے ہیں، اب اس سے ساری آذری اتحادی مستفید ہونگے ۔جن میں روس بھی شامل ہے ۔ ثابت ہوا کہ بین الاقوامی تعلقات ہوں یا مقامی سیاست یہ امت نام کی کسی شے کو نہیں جانتی ۔ یعنی جس سے کام ہے اس کو سلام ہے ۔ یہ خودغرضی کسی طور بھی انسانیت کے حق میں نہیں ۔مفاد کے چکر میں صحیح غلط کا امتیاز مٹتا جارہا ہے . ساری منظرنامے میں پاکستان کیلئے بڑا اہم پیغام پوشیدہ ہے ۔ کوئی عرب ریاست ہو یا پرانا پڑوسی۔ ہمیں صرف اسی صورت عزیز رکھے گا جب تک ہم کچھ لو اور کچھ دو کی پوزیشن میں ہونگے ۔ پھر شک ہے تو پیچھے مڑ کر دیکھیں امریکی طوطا چشمی کے ایک نہیں کئی واقعات نظر آئیں گے ۔ آدھا کشمیر ہم بھی رکھتے ہیں ۔ کہیں ہمارے ساتھ آرمینیا والا معاملہ نہ ہو جائے کیونکہ دشمن شاطر ہے ۔ دنیا کے کسی ملک کو محض اس لئیے دشمن نہ بنائیں کہ وہ فلاں مسلم ملک کا دشمن ہے ،یا ہمارے فلاں دوست سے اس کی نہیں بنتی مسلمانوں کو ایک امت ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں۔ ایسا ہوتا تو مشرقی پاکستان کبھی بنگلہ دیش نہ بنتا کیونکہ اس دور میں باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ ہے