“فاروق عادل بھائی”
وہ مجھے ہمیشہ پورے نام سے مخاطب کرتے۔ عمر میں بڑے تھے، تجربے اور علم بھی لیکن ان کے رویے سے اس کا کبھی اظہار نہ ہوتا۔
اُس روز ابھی ناشتہ میں نے نہیں کیا تھا کہ ان کا فون آیا، اپنی عادت کے مطابق پورے نام سے مخاطب کیا اور کہا:
” گزشتہ چالیس پینتالیس برس کے دوران میں جو کچھ میں نے لکھا ہے، وہ سب مجھ سے لے لو اور شاہ صاحب قبلہ سعود ساحر کا جو خاکہ تم نے لکھا ہے، مجھے دے دو”.
میرا خون سیروں بڑھ گیا اور کہا کہ رؤف طاہر بھائی، یہ جو دو چار ٹوٹے پھوٹے حروف ہم لوگ لکھ لیتے ہیں، آپ جیسے سینئرز اور بڑے بھائیوں کی تربیت کا نتیجہ ہے، خاموشی کے ساتھ میری بات سنی پھر کہا کہ درست کہتے ہو لیکن محنت بولتی ہے، وہ اس طرح جونیئرز کا حوصلہ بڑھاتے اور راہ نمائی کیا کرتے تھے۔
ابھی کچھ دن ہوتے ہیں، موجودہ جمہوری جدوجہد کے تعلق سے میں نے کچھ لکھ دیا جس پر کئی احباب نے اعتراض کیا، بعض بزرگوں نے سخت لہجہ بھی اختیار کیا، شاید کسی کے تبصرے سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہو کہ بات کہنے والا مقصد سے مخلص نہیں۔ فوراً دفاع میں آئے اور دو ٹوک لکھا کہ اختلاف جسے کرنا ہے، ڈنکے کی چوٹ پر کرے لیکن فاروق کی نیت پر شبہ کرنے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ بحث کارخ ہی بدل گیا۔
صبح ابھی اخبار میں نے نہیں دیکھا تھا کہ برادر محترم جاوید قریشی اور اس کے بعد عزیز بھائی ارشد ملک کے پیغامات نے جیسے روح قبض کر لی۔ واٹس ایپ کے پیغامات کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ” لفافہ” کھولنے سے پہلے ہی مضمون کا کافی حد تک اندازہ ہو جاتا ہے۔ بس، یہی وجہ تھی کہ دیر تک پیغام کھولنے کا حوصلہ نہ ہو سکا لیکن تفصیلات سے آگاہی بھی ضروری تھی، لہٰذا دل کڑا کے پیغام کھولا لیکن سچ یہ ہے کہ مکمل پڑھنے کا حوصلہ پھر نہ ہوا، رہ رہ کر خیال آتا کہ شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے جو ہمارے جیسے پچھلی صفوں کے اہل قلم کی پشتی بانی کے لیے یوں سینہ ٹھونک کے کھڑا ہو جائے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان کے دائیں بازو میں جو شکست و ریخت ہوئی، اسے سمجھنے کے لیے رؤف طاہر بھائی کی شخصیت ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے اپنے نظریاتی رشتوں کے اظہار میں کبھی کسی تکلف اور مصلحت سے کام نہیں لیا۔ ہمیشہ کھل کر بتایا کہ ان کی نظریاتی تربیت سید ابوالاعلی مودودی علیہ رحمہ کے افکار کی روشنی میں ہوئی اور صحافتی دیانت پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر انھوں نے ہمیشہ اسی فکر کی سربلندی کے لیے جان مار کر کام کیا لیکن نوے کی دہائی میں نظریاتی معاملات پر جب شخصی اختلافات غالب آ گئے تو کسی بھی غیرت مند پاکستانی کی طرح ان کا انتخاب جمہوریت تھی۔ گزشتہ تقریباً دو دہائیوں کے دوران میں جب سے وہ سعودی عرب سے واپس پاکستان لوٹے تھے، جمہوری جدوجہد میں وہ دل و جان سے شریک رہے اور اس سفر کے دوران میں ان کے پائے استقامت میں کبھی لرزش نہیں آئی۔
اللہ تعالیٰ ہمارے بڑے بھائی کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کی آئندہ کی منزلیں آسان فرمائے، رؤف طاہر بھائی ہمیں تاعمر یاد آتے رہیں گے، ان کی بے ریا محبت کی گرمی ہمارے دل و جان کو اپنی خوشبو سے معطر کرتی رہے گی۔