’’شعری دانش کی دھن میں‘‘ایک ایسے تخلیق کار کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو اپنے پورے تہذیبی شعور کے ساتھ نہ صرف عصری حسیت کو شعری متن میں گوندھ رہا ہے، بلکہ اپنے قارئین کے لیے فکری راہ نمائی اور قومی سطح پر سمت نمائی کا فریضہ بھی سر انجام دے رہا ہے ۔ قبل ازیں ایک تحریر میں ، میں یہ کہہ چکا ہوں کہ جلیل عالی وہ شاعر ہیں جوپورے اخلاص کے ساتھ تہذیبی اور قومی وجود کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور جوسمجھتے ہیں کہ تہذیبی اور قومی وجود کے ساتھ جڑنا ہی ایک تخلیق کار کے زندہ ہونے کی علامت ہوا کرتا ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو وہ زندگی سے بھرپورشاعرہیں ۔ ایسے شاعر جنہوں نے رواں وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ وہ تخلیقی سرگرمی کے ساتھ ساتھ تنقید کی طرف متوجہ رہے ہیں اور یہ کتاب اسی سرگرمی کی ایک جھلک ہے ۔
اس کتاب کا پہلامضمون ’’ادب اور نفسی نامعمولیت‘‘ اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کہ یہ تخلیق، تخلیقی عمل اور تخلیق کار کے درمیان قائم ہونے والے تعلق اور اس تعلق کے بھید بھرے علاقوں کو نہ صرف نشان زد کرتا ہے بلکہ خود تخلیق کار کے مختلف ہو جانے اور عمومی روش سے ہٹ جانے کے اسباب پر بھی مکالمہ قائم کرتا ہے ۔ جارج اورویل نے اپنے بچپن میں ہی یہ جان لیا تھا کہ وہ دوسرے جیسا نہیں ہے ،اسے بڑا ہو کر ادیب بننا ہے ۔ سترہ اور چوبیس سال کی عمر کی درمیانی مدت میں وہ اس خیال سے چھٹکارا پانے کے جتن کرتے رہے اور دوسرے کاموں میں دھیان بٹاتے رہے مگر انہیں ادیب ہی بننا تھا لہٰذا اپنی فطرت سےسمجھوتہ کرناپڑا ۔ جلیل عالی اپنی فطرت سے سمجھوتہ کرنے والے انہی لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ شاعر ، صوفی ،ادیب، مصور ،موسیقاراور دیگر تخلیقی فنکار معروف معنوں میں نارمل نہیں ہوتے ۔ ان میں کوئی نہ کوئی نفسیاتی ٹیڑھ ضرور ہوتی ہے ۔ ان کا اندازِ فکر و احساس عام افراد سے مختلف ہوتا ہے ۔ وہ ایک اعتبار سے معاشرے کے انحرافی کردار ہوتے ہیں ۔ وہ معاشرے کی بندھی ٹکی ڈگر سے ہٹ کر سوچنے اور محسوس کرنے کی بنا پر معمول کی نفسیات کے حامل نہیں ہوتے ۔’’
جلیل عالی نے یہیں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ یہ غیرمعمولی لوگ ’نارمل‘ نہ سمجھے جانے کے باوجود معاشرے میں لائق تکریم ہو جاتے ہیں اور معاشرے اور تہذیب کا قیمتی اثاثہ تسلیم کیے جاتے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ:
’’۱۔بڑے حساس اور تیز نگاہ لوگ ہوتے ہیں ۔
۲۔ امن و محبت کے نقیب ہوتے ہیں ۔
۳۔ اپنی تخلیقات کے ذریعے اعلیٰ انسانی اقدار سے وابستگی پیدا کرتے ہیں ۔‘‘
جلیل عالی نے بجا طور پر کہا ہے کہ شعر و ادب کی دنیا میں یہ وحشت اور جنون دماغ کا خلل نہیں ہے،ایک برتر درجے کی آگاہی کا نام ہے ۔ ایسی آگہی، جو عقل و شعور کے متداول پیمانے توڑ پھوڑ دیتی ہے اور اس کائنات کو بھی مسمار کر دیتی ہے جو مروج پیمانوں کے ماپ اورناپ سے اعلیٰ ہو جاتی ہے ۔ یہ آگہی تو ایک نئی کائنات متشکل کرتی ہے ۔ اپنے احساس جمال اور فکری تازہ کاری کی نئی کائنات!
اپنے دوسرے مضمون میں جلیل عالی اپنے محبوب موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں ۔ جی ، ایسا موضوع جس پر ہم نے انہیں بہت بار بحث کرتے پایا ہے ۔ میری مراد ’’کلچر’’ اور ’’پاکستانی کلچر‘‘ کے مباحث ہیں جو ہمارے اس تخلیق کار اور دانش ور ناقد کو بہت محبوب رہے ہیں ۔ پاکستان ، قیام پاکستان ، پاکستان کی ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر پر بات کرتے ہوئے ہم نے انہیں پُرجوش ہوتے دیکھا ہے ۔ پاکستان اور پاکستانیت ان کا محبوب موضوع ہے اور معاشرے کی ثقافتی تشکیل کو بھی انہوں نے اسی ذیل میں رکھ کر دیکھا ہے اور اصرار کیا ہے کہ پاکستانی ثقافت کے زیرِ عنوان ان کے مختلف و متخالف عناصر کو اس قدر نہ ابھارا جائے کہ ایک مجموعی پاکستانی ثقافت کے وجود ہی کی نفی ہونے لگے ۔ یوں وہ ان لوگوں سے مختلف ہو جاتے ہیں جو مختلف اور متخالف علاقائی ثقافتی عناصر پر اس قدر اصرار کرتے ہیں کہ مجموعی پاکستانی ثقافت کے مشترک عناصر نظر انداز ہو جاتے ہیں ۔ جلیل عالی علاقائی ثقافتوں کو تسلیم کرتے ہوئے قومی ثقافت کی تشکیل کو خصوصی نصب العینی تقاضا قرار دیتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ ایک کتاب ’’ پاکستانی ثقافت‘‘ پر بات کرتے ہوئے، ایک اور مضمون میں انہوں نے کتاب کے مصنف اور لوک ورثہ‘ کے سابق سربراہ عکسی مفتی کو پچیس تیس برس پہلے اپنی کہی ہوئی بات یاد دلائی تھی کہ:
’’وطنِ عزیز کی مختلف و متنوع ثقافتوں کے تعارف و فروغ کے ساتھ ساتھ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مشترک عناصر و مظاہرکی یکجائی اور اشاعت کی طرف بھی توجہ دیجئے تا کہ پاکستانی قومی ثقافت کے خد و خال بھی اجاگر ہو سکیں ۔‘‘
حلقہ اربابِ ذوق کھوڑکے سالانہ اجلاس2011 میں جلیل عالی نے جو صدارتی خطبہ دیا ، اس کا موضوع تھا ’’تخلیق و تنقید اور ہمارے فکری رویّے‘‘ یہ خطبہ ترقی پسند تنقید، حلقہ ارباب ذوق، جدید تنقید اور فکری رویوں پر بات کرتا ہے اور تخلیقی عمل اور اس کے تقاضوں پر بھی ۔ دیگر صورتوں کے علاوہ جلیل عالی نے ادب میں عدم توازن کی ایک صورت یہ قرار دی ہے کہ لکھنے والے تخلیقات میں اپنی مرکزی معنویت کو سامنے رکھنے کی بجائے متداول فکری کلامیوں کے مقبولِ عام خیالات کی تکرارکرنے لگتے ہیں ۔ ان کے بہ قول ایسا اچھے بھلے تخلیق کاروں کے ہاں بھی ہوتا ہے اور انہیں اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ وہ خود اپنی تخلیقات کے مرکزی خیالات و معانی کے برعکس نقطہَ نظر کو پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ صورت حال نہ صرف جلیل عالی کے ہاں ناقابل قبول ہوئی ہے، تخلیق کار کی مجموعی شناخت اور تخلیق پارے میں ایک خرابی کی صورت بھی ہو گئی ہے ۔
غزل جلیل عالی کی محبوب ترین صنف ادب ہے ۔ احمد فراز نے کہا تھا:
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
یہ بھی اک سلسلہ ء کن فیکوں ہے، یوں ہے
اور مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ’’ سلسلہ کن فیکوں ‘‘ جلیل عالی کے ہاں غزل میں بہ خوبی بنتا اور اپنی چھب دکھاتا ہے ۔ وہ غزل کو ایک تہذیبی صنف کے طور پر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قومی تشخص صرف ٹھوس ثقافتی مظاہر کی پیداوار نہیں ہوتا اس میں تخلیقی ادب اپنا کردار ادا کرتا ہے اور تخلیقی ادب میں اردو غزل یوں اہم اور مرکزی حیثیت کی حامل ہے کہ یہ اپنی مخصوص صوری و معنوی خوبیوں اور اظہار کی بے ساختگی کی بنا پر ہمارے قومی تشخص کی لطافتوں اور نزاکتوں کو دوسری اصنافِ ادب کے مقابلے میں زیادہ نمایاں کر رہی ہے ۔ غزل اور غزل گو شاعروں پر اس کتاب میں متعدد مضامین شامل ہیں ۔ ایک مضمون ’’غزل کے کلاسیکی استعارے‘‘ میں وہ اضافہ کرتے ہیں:
’’غزل اپنے ارفع تخلیقی درجے پر محدود سے لامحدود،معلوم سے نا معلوم اور طبیعیاتی دنیا سے ما بعد الطبیعیاتی جہان کا فکری و احساساتی سفر نامہ ترتیب دیتی ہے ۔ اس سفر کی روداد میں عشقِ مجازی و عشقِ حقیقی کی تفریق مٹ جاتی ہے اور یہ ایک ہی تجربے کی دو جہتوں کا ماجرا بن جاتا ہے ۔‘‘
وہ اپنے نقطہ نظر کو بہتر طور پر سمجھانے کے لیے غزل کی روایت سے ایک عمدہ انتخاب مرتب کرتے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا شعری انتخاب فنی نزاکتوں اور اس کی جمالیات کو سمجھنے والے اورغزل کی روایت سے مکمل طور پر آگاہ جلیل عالی جیسے عمدہ تخلیق کار ہی سے ممکن تھا ۔ یہ انتخاب جو ان مضامین کا حصہ ہے ،بجائے خود غزل کی توفیقات کا زائچہ بنا دیتا ہے ۔ میر، مصحفی، ذوق، غالب ، اقبال سے لے کر آج کے نوجوان شاعروں کو ہم پڑھتے ہیں تو غزل کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے ۔
ایک مضمون میں وہ ’’درجوابِ آنند‘‘ کا عنوان جماکر ستیہ پال آنند کی غزل دشمنی کے تعاقب میں نکلتے ہیں اور اپنی محبوب صنف کے دفاع میں ایسے اشعار کا ڈھیر لگا دیتے ہیں جو غزل پر کیے گئے اعتراضات کا تشفی بخش جواب ہو جاتے ہیں ۔ جلیل عالی سمجھتے ہیں کہ
’’یک غزل پانچ ،سات یا اس سے زیادہ اشعار کا ایک ایسا فن پارہ ہوتا ہے ۔ جو اشعار کی اپنی معنوی اکائیوں کے اعتبار سے پانچ ،سات یا اس سے زیادہ نظموں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ یہ نظمیں یا معنوی اکائیاں مل کر ایک پُر اسرار کل بناتی ہیں ۔ اس میں صرف ردیف کاخارجی یا معنوی ربط ہی نہیں ہوتا شاعر کے فکرو احساس کی ایک زیریں وحدت بھی موجودہوتی ہے ۔‘‘
’’نیا ادب اور اردو غزل‘‘اور ’’جائزے کا جائزہ‘‘ دونوں کو غزل کے باب کے مضامین کہا جاسکتا ہے تاہم یہ دونوں یوں اہم ہو جاتے ہیں کہ ایک میں نئے ادب پر بہت اہم نکات سامنے آئے ہیں اور دوسرے میں غزل کی تدریس اور نئی نسل میں شعری ذوق کی آبیاری کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ نیا ادب کیا ہے اور نئی لسانی تشکیل کا مکتبہ فکر کیا تھا،اس پر بات ہوئی تو افتخار جالب،فہیم جوزی ، شاہد محمود ندیم،اقبال آفاقی ،محمد امین،سجاد میر اور ساٹھ کی دہائی کے دوسرے لوگوں کا بھی ذکر آیا اور افتخار جالب کی مرتبہ کتاب ’’ نئی شاعری‘‘ کا بھی ۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پرانا لسانی ڈھانچہ اور ایڈیم بوسیدہ ہو چکا ہے ،لہٰذا نئے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ نئی زبان وضع کرنا لازم ہو گیا ہے ۔ اسے انہوں نے نئی لسانی تشکیل کی ضرورت کا نام دیا تھا ۔ جلیل عالی کا تب بھی یہ موقف تھاکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ’نئی لسانی تشکیل‘ کے حق میں مضامین کے انبار لگانے سے نئی تخلیقی زبان وضع نہیں کی جا سکتی ۔ اور یہ کہ ایک بڑی تخلیقی واردات خود زبان کو اپنے مطلوبہ معنیاتی تقاضوں کے مطابق تبدیل کر لیتی ہے ۔ اس باب میں جلیل عالی کے سامنے اقبال کی شاعری خصوصاً’’بالِ جبریل‘‘کی نظمیں اور غزلیں تھیں جن میں لسانی قلبِ ماہیت صاف طور پر دیکھی اور محسوس کی جا سکتی تھی ۔ جب کہ نئی زبان گھڑنے کی میکانکی مشق کا نتیجہ بہ قول جلیل عالی افتخار جالب کی ’’مآخذ‘اور ظفر اقبال کی ’’ گلافتاب‘‘ اور ’’رطب و یابس‘‘ کی شاعری کی صورت میں سامنے آیا جسے وہ ادب کے ناکام تجربے کے طور پر لیتے ہیں ۔ اسی مضمون میں انہوں نے اس صنفِ ادب کا دامن مالا مال کرنے والوں کی ایک بہت بڑی فہرست بنانے کے بعد یہ موقف اختیار کیا ہے کہ
’’ہر عہد کی فعال تخلیقی حسیت خود بخودخیال اور زبان و بیان میں تبدیلی پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔ اور مجموعی فکری و تہذیبی حرکت سے ہم آہنگ رہ کر ہی با معنی تبدیلی کا سفر طے ہوتا ہے ۔ سوچے سمجھے منصوبے سے لسانی تبدیلی کا عمل اپنی میکانکیت کی بنا پرموَثر ، نتیجہ خیز اوردیر پاثابت نہیں ہوتا ۔‘‘
مجھے جلیل عالی کی یہ ادا بہت پسند آئی ہے کہ وہ معاصر غزل پر کھل کر بات کرتے ہیں اوراس باب میں اگر مگر سے کام لینے کی بجائے صاف صاف لفظوں میں کہہ گزرتے ہیں کہ یہ وہ غزل گو ہیں جو عہد موجود کے نمایاں ترین غزل گو ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی نام ان کی نظر سے اوجھل رہا ہو مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ ان میں ایک بھی نام بھرتی کاہو ۔
جلیل عالی اقبال کے سچے عاشقوں میں سے ہیں ان کی گفتگوؤں میں اقبال کا حوالہ مسلسل اور مستقل ہوتا ہے۔ اقبال کے بعد وہ جس شاعر کا ذکر بہت محبت سے کرتے آئے ہیں اور جسے اقبال کے بعد کے شعرا میں سب سے زیادہ مقبول و ہر دلعزیز شاعر قرار دیتے ہیں وہ ہیں فیض احمد فیض ۔ تاہم فکر و دانش کے حوالوں سے وہ مجید امجد اور ن م راشد کواقبال کے بعد اہم ترین شعرا میں شمار کرتے ہیں ۔ اپنے مضمون ’’آب و با د و خاک کا نغمہ خواں ‘‘ میں ان کا کہنا ہے:
’’مفکر شاعر اقبال کے بعد اردو کے دانشور شاعروں میں ن ۔ م راشد ایک ممتاز مقام رکھتا ہے ۔ معاشیات و عمرانیات ،تاریخ و تہذیب اور فنون و فلسفہ پر ہی نہیں انگریزی ،فرانسیسی،روسی ،اردو اور فارسی شعری روایتوں پر بھی اس کی گہری نگاہ تھی ۔ اس کی نثری تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کی جدید شاعری میں آزاد نظم کو کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے والا یہ شاعر اردو ادب کی تاریخ،جملہ اصنافِ شعر اور کلاسیکی شعریات کی باریکیوں سے پوری طرح آگاہ تھا ۔‘‘
یہاں وہ راشد کی غزل دشمنی کا بھی ایک جواز لے کر آئے ہیں یہی کہ راشد بہ طور صنف غزل کے خلاف نہیں تھے بس وہ اپنے عہد میں لکھی جانے والی عمومی غزل سے نامطمئن تھے ۔ تاہم حسیاتی رومانویت کے باب میں فیض انہیں زیادہ تسلیم کیے جانے کے لائق لگتے ہیں کہ فیض جنسِ مخالف سے تعلق میں محبت کی ایک تہذیبی سطح برقرار رکھتے ہیں جب کہ راشد جنسی آوارگی سے اعصابی آسودگی کے لیے جواز ڈھونڈنے نکلتے ہیں ۔ تہذیب کا احترام، کسی فلسفیانہ جواز سے کہیں زیادہ جلیل عالی کے ہاں قابل قبول ہو جاتا ہے ۔ راشد پر اس مضمون میں ایسے مواقع آتے چلے جاتے ہیں کہ مضمون کے عین آغاز میں اقبال کے بعد اہم ہو جانے والا شاعر فیض کے مقابلے میں جلیل عالی سے قدرے فاصلے پر ہو جاتا ہے مثلاً جب راشد کو نظم میں قافیہ و ردیف کے وسائل بروئے کار لاتے دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں ۔
’’مگرہم نے دیکھا کہ ایک شاہانہ لہر میں آکربیان کی جس صورت کو چاہے کلیشے قرار دےڈالنے والا یہ دانشورشاعر اپنے ہاں قافیہ و ردیف کی رَو کو اپنے تخلیقی بہاوَ کا فطری تقاضاخیال کرتے ہوئے روا جانتا ہے ۔‘‘
اور پھر فیض کا ذکر لے آتے ہیں جس کی شاعری کو اسی حوالے سے راشد نے حد درجہ زیبائشی قرار دیا تھا ۔ جلیل عالی کے مطابق :
’’یہی وصف فیض کے ہاں ایک تخلیقی وفور میں اظہار کے ایسے بھنور بناتا ہے کہ راشد کا ناراض نوجوانوں کا سا استردادی ردِ عمل دور کھڑا کھمبا نوچتا دکھائی دیتا ہے ۔‘‘
فیض پر الگ سے ایک مضمون’’ فیض کا فکری و شعری تشخص‘‘بھی اس کتاب کا حصہ ہے ۔ اس مضمون کے آغاز میں وہ اقبال کے بعد فیض کو بجا طور پر اپنے پسندیدہ شاعرقرار دے رہے ہیں ۔ جی، یہ وہ شاعر ہے جو اسی ترتیب میں زمانہ طالب علمی سے انہیں محبوب رہا ہے اور اب تک ہے ۔ اس مضمون میں وہ فیض کی اقبال پسندی اور ترقی پسندی دونوں کو زیر بحث لاتے ہیں اور پھر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ:
’’فیض اس بات سے اچھی طرح آگاہ تھا کہ ترقی پسندی اور انقلابیت اپنی فکری و تہذیبی روایت سے بے رشتہ ہو کر خلا میں معلق رہتی ہے ۔ چنانچہ اس نے شرفِ آدمیت ،انسان دوستی اور عدل و انساف کی اعلیٰ اقدار اور ایک خاص لسانی مزاج کے حوالے سے اپنی فکری تہذیبی روایت سے ہم آہنگ ہو کر انقلابی نصب العین سے وابستگی کو عاشقانہ والہانہ پن کے درجے پر پہنچا دیا ۔ یوں قرآنی تصور کے مطابق اپنے آدرش سے محبت میں ’’ موت سے پہلے مر جانے والوں ‘‘ کا ذوق و شوق اس کی شاعری کی روح و رواں بن گیا ۔‘‘
اس مضمون میں احمد ندیم قاسمی کا حوالہ بھی آیا ہے تاہم قاسمی صاحب پر ان کے الگ سے دو مضامین’’ندیم کی شعری واردات کی معنوی جہتیں ‘‘ اور ’’ ندیم کا شعری خصوص‘‘کے عنوان سے کتاب کا حصہ بنائے گئے ہیں ۔ ندیم کی خدا پرستی، اس ترقی پسند شاعر کی نعت گوئی اور انقلابیت ، ان کی ناقابل تسخیر رجائیت اور مستحکم پاکستانیت اس مضمون میں زیر بحث آئے ہیں ۔ جلیل عالی نے مطالعہ ندیم میں یہ بھی اخذکیا ہے کہ اس شاعر نے تصور ِتوحید سے قوت حاصل کرکے صاحبانِ اقتدار کے جبروت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی خود داری کو ہر حال میں قائم رکھا ہے ۔ اسی مضمون میں قاسمی صاحب کے تصورِ انسان پر بات ہوئی ہے اور شاعر کے منصب پر بھی ۔ قومی تاریخ کے اہم مراحل پر اس شاعر کے ہاں تخلیقی واردات بن جانے والا ردعمل کیا کیا صورتیں دکھاتا رہا اس باب میں متعدد مثالوں کو مقتبس کیا گیا ہے ۔ جلیل عالی ان مضامین میں اس پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ:
’’ہماری فکری وتہذیبی روایت کی جتنی جہتیں ندیم کی شاعری میں سامنے آئی ہیں اتنی کسی دوسرے ترقی پسند شاعر کے ہاں دکھائی نہیں دیتیں ۔‘‘
منیر نیازی پر اس کتاب میں دو مضامین شامل کیے گئے ہیں ۔ جلیل عالی نے منیر کو مکمل شاعر قرار دیا ہے ۔ اپنے مضمون ’’منیر نیازی:پورا شاعر‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ منیر نیازی نے دنیا اور زندگی کو شاعرانہ آنکھ سے دیکھا ،شاعرانہ دل سے سہا ، شاعرانہ احساس سے بسر کیا اور شاعرانہ ویژن سے اسے بدلنے کی آرزو کی تھی ۔ انہوں نے منیر نیازی کی شاعری کو حسن و خیر ،خوف و خواب ،اسرار و داستانویت، حیرت و استعجاب اور معصومیت کے عناصرِ ترکیبی سے مرتب ہو نے والا تخلیقی ثمرقرار دیا ہے ۔ اپنے اس باطن کی آواز سے رہنمائی لینے والا جو اس کی روحانی و مابعدالطبیعیاتی گہرائیوں کے بھیدوں میں رہ کر زندہ و بیدارہے ۔ اپنے گرد و پیش کی بد ہیتی سے رنجیدہ ہونے والا ۔ ماحول کے کینوس پر خوبصورتی اور بھلائی کے رنگوں سے منظر نامہ اجالنے والا ۔ جلیل عالی کا تجزیہ یہ ہے کہ منیر نیازی کے ہاں زندگی کے باب میں مثبت اندازِ فکر ہے۔ انہوں نے منیر نیازی کو کفایتِ لفظی کا بادشاہ اور ایسا شاعر کہا ہے جو اپنے شعری تجربے کی گمبھیرتا کو غیرضروری تفصیلات سے مجروح نہیں کرتا اور تھوڑا کہہ کر قاری کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ جہانِ دیگر کی پر اسرار فضا، حیرت و استعجاب ،داستانوی عنصر سے مختلف اور پر اسرار ماحول کی تشکیل اور اس طرح کے دوسرے عناصر نشان زد کرتے ہوئے جلیل عالی نے منیر نیازی کو ایک مختلف شاعر قرار دیا ہے ۔ ایسا شاعر جو ساری دنیا کو ، اور زندگی کو ، اور خود اپنے آپ کو بدلنے کی آرزو کرتا رہا ۔
دوسرا مضمون ’’جمالِ عکس و صدا‘‘ منیر نیازی کی ایک غزل کے تجزیاتی مطالعہ پر مشتمل ہے ۔ تاہم اس مضمون کی تمہید میں غزل بہ طور صنف جس طرح زیر بحث آئی ہے اس نے بھی لطف دیا ہے ۔ اس تمہید کے بعد جلیل عالی ’پورے اعتمادکے ساتھ جمالِ رنگ و آہنگ اور احوالِ اسرار و آثارسے نہال شاعرمنیر نیازی‘ کی اس غیر معمولی غزل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کامطلع یوں ہے:
شعاعِ مہرِ منور شبوں سے پیدا ہو
متاعِ خوابِ مسرت غموں سے پیدا ہو
اس غزل کی ردیف کے آخری دو لفظوں ’’ پیدا ہو‘‘ سے انہوں نے دعائیہ لہجے کو شناخت کیا ہے اور شاعر کے شہرِ خواب اور جہانِ منتظَر کو بھی ۔ اسی غزل میں نامطلوب صورتِ حال کی تصویر کشی بھی ملتی ہے اور اس سے نکلنے کی معجزاتی سبیل کا احساس بھی ہوتاہے ۔ جلیل عالی نے پوری غزل کواپنے وطن میں معاشی ، معاشرتی اور تہذیبی خوابوں کی عملی تعبیر کے دعائیہ کی صورت دکھایاہے ۔ غزل کے اس تجزیاتی مطالعے میں کئی ایسے معنوی اور جمالیاتی گوشے سامنے آتے ہیں جن کی طرف بالعموم دھیان نہیں جاتا ۔ وہ اس مطالعے میں منیر نیازی کے ہاں کام کرنے والے فکری نظام کی ایک صورت بناتے ہوئے اُن کی شاعری کے فنی و جمالیاتی محاسن کو بھی سامنے لے آتے ہیں ۔
آفتاب اقبال شمیم پر لکھے گئے مضمون کا عنوان ہے :’’ایک خلّاق دانشور شاعر‘‘ ۔ جلیل عالی نے آفتاب اقبال شمیم کو اردو نظم کی دانشورانہ شعری روایت کے اقبالی تسلسل میں ن م راشد ، مجید امجد اور جیلانی کامران کے بعد آنے والے شاعروں میں ایک نمایاں شاعر کے طور پر شناخت کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے ہاں ان کے پہلے شعری مجموعے ’’فردا نژاد‘‘سے لے کر چوتھے مجموعے ’’ میں نظم لکھتا ہوں ‘‘ تک میں ایک مرکزی واردات کے ساتھ ان کے شعری و فکری ارتقا کا سراغ ملتا ہے ۔ جی ایک ایسا شاعر جس کے ہاں زندگی اور کائنات کے بارے میں ایک نکتہ ء نظر ہو اور اس کے پاس اس زندگی کے حوالے سے کچھ اپنے سوالات ہوں ۔ جلیل عالی کے مطابق آفتاب اقبال شمیم صرف دانشور شاعر ہی نہیں وہ شاعرانہ دانش کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں اور یہ شاعرانہ دانش صرف ذہنی کارفرمائی نہیں کلی انسانی تجربے سے پھوٹتی ہے ۔
’’حفیظ تائب کی نعت گوئی کا غزلیہ آہنگ‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ حفیظ تائب کا شعری پس منظر ایک اچھے غزل گو کا تھا، ایسے غزل گو جو اس صنف کی لطافتوں سے پوری طرح آگاہ تھے ۔ پھر نعت گوئی کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی کے ہو کر رہے تو ان کے تازہ کارتخلیقی ذہن نے نعت کے میدان میں فکر واحساس اور حرف وبیان کی ایسی ایسی راہیں نکالیں کہ اظہارِ عقیدت میں ایک خاص ادبی شان پیدا ہو گئی ۔ جلیل عالی کے مطابق حفیظ تائب کی وسعتِ مطالعہ کے باعث ان کی نعتوں میں آیات و احادیث اور سیرت و حیات ِ طیّبہ کے راست اور بالواسطہ حوالے کثرت سے آنے لگے جو محض واقعات و حقائق کی طرف اشارے نہیں تھے بلکہ انہیں جذبے کی گہرائی اور فنی لطافت کے ساتھ شعرکے قا لب میں ڈھالاگیا تھا ۔
احسان اکبر کی کتاب ’’ہوا سے بات‘‘ کے آغاز میں ان سوالات کو یکجا کر دیا گیا ہے جواحسان اکبر جیسے کثیرالجہت شاعر کے مطالعہ کے دوران قاری کے ذہن میں اٹھ سکتے ہیں ۔ جلیل عالی نے احسان اکبر کی شاعری کو آفاقی انسانی المیوں ، نفسیاتی و روحانی احوال،معاشرتی و سیاسی مسائل،عالمی حالات و واقعات،تہذیب و تاریخ ، وجود و ماورا ،معلوم و نامعلوم ، موجود وامکان اور ان سب کے درمیان جینے مرنے کے عمل سے گزرتے تخلیقی انسان کے شعری تجربے سے تعبیر دی ہے ۔ ایسا شعری تجربہ جس میں حیات و کائنات سے متعلقہ ان موضوعات کی وسعت و گہرائی بھی ہے اور گمبھیرتا بھی ۔ جلیل عالی کا تجزیہ یہ بھی ہے کہ احسان اکبرکا تخلیقی جوہر نظموں میں زیادہ کھل کر سامنے آیا ہے تاہم اپنے وقیع و لطیف مضامین اور منفرد طرزِ اظہار کے اعتبار سے ان کی غزلیں بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں ۔
احسان اکبر کی طرح خالد احمد بھی اردو کے ان گنتی کے شعرا میں سے ایک ہیں جو نظم و غزل دونوں میں اپنا تخلیقی اظہار کرکے توجہ پاتے رہے ۔ اس کتاب میں ایک مضمون خالد احمد کی غزل پر بھی ہے، جو ان کی کتاب ’’نم گرفتہ‘‘ کے حوالے سے قلمبند کیا گیا ہے ۔ جلیل عالی کا تجزیہ یہ ہے کہ خالد احمد کے لئے شاعری کسی اور مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں ہے ۔ وہ خالد کے تخلیقی چلن کی صورت گری کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خالد مصرعوں میں کہیں کہیں کسی فلیش یا خال خال اچھے مصرعے یا کبھی کبھار سرزد ہو جا نے والے معقول شعر کا شاعر نہیں ہے ۔ وہ پوری غزل کا شاعرہے ۔ پوری غزل جو تضاد و ہم آہنگی ،اعلان و اخفا،تعین ولاتعین ،موجودوماورا، غیب و حضور اورکثرت و وحدت کے جملہ مفاہیم سمیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔‘‘
اگرچہ جلیل عالی نے خالد احمد کو ایسے شاعر کے طور پر شناخت کیا ہے جس کے ہاں شاعری ہی مقصود بالذات ہوتی ہے مگر وہ خالد کو ایک دانشور شاعر بھی کہتے ہیں ۔ ایسا دانشور شاعر جو زندگی کی ایک یا چند جہتوں کی تحدید میں نہیں سوچتا بلکہ زندگی اور کائنات کے کثیرجہتی ویژن میں جیتا ہے ۔ جلیل عالی شاعری کو صرف اظہار و ابلاغ کا نہیں تخلیقی اظہاراورادبی و فنی پیش کش کانام بھی سمجھتے ہیں اور یہ ہنر خالد احمد کے ہاں انہیں بہت خوبی سے کرشمے دکھاتا نظر آتا ہے ۔
اور آخر میں یہ کہتا چلوں کہ مجھے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ مختلف موضوعات پرجلیل عالی سے مکالمہ ہوتا رہا ۔ جو کچھ ان مضامین میں کہا گیا ہے وہ ان مکالموں کی ایک جھلک ہے جو ان سے ہوتے رہے ہیں۔ ان گفتگوءوں ، تقریروں اور مضامین میں ہم نے انہیں ہمیشہ اپنی فکریات میں مستحکم اور نظریات میں تہذیبی منطق کے ساتھ وابستہ پایا ہے ۔ ہر گفتگو یا تقریر سننے اور تحریر پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان سے کسی نکتے پر اتفاق یا اختلاف تو کیا جاسکتا ہے مگر کہیں بھی یہ تصور تک نہیں کیا جا سکتا کہ یہ شخص بن بن کر یہ بات کر رہا ہے یا بات بنا بنا کر مقابل کو بنا رہا ہے۔ ہر بار سیدھی سچی بات ، دل سے کہی ہوئی ۔ یہی سبب ہے کہ جلیل عالی کی بات دل میں جا بیٹھتی ہے ۔ زیر نظر کتاب کے مضامین پڑھتے ہوئے آپ محسوس کریں گے کہ انہیں لکھنے والا ان لفظوں سے اخلاص کے ساتھ وابستہ ہے ۔ ادب اور نفسی نا معمولیت پر بات ہورہی ہو یا پاکستانی ثقافت پر، فکری رویے زیر بحث آئیں یا تہذیبی روایت ۔ اپنی محبوب صنف غزل پر لکھ رہے ہوں یا اپنے محبوب شاعروں پر، ان کی شعری دانش کا تجزیاتی احاطہ کر رہے ہوں یا فنی توفیقات کو نشان زد کر رہے ہوں ، ہر بار ہمارا معانقہ ایک سچے کھرے انسان اور ایک دانشور اور تخلیقی ناقد سے ہوتا ہے جو کئی ایسے نکات بھی سجھا دیتا ہے جو مجرد ناقدین کے ہاتھ نہیں آتے اور اس کے پہلو بہ پہلو اپنی دانش کے خال و خد بھی اجالتا چلا جاتا ہے ۔
(جلیل عالی کی کتاب’’شعری دانش کی دھن میں‘‘ کا دیباچہ)