ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی سیاست جو بھی ہو جیسی بھی ہو، اس جمعے انھوں نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ ان کے لیے دل سے دعا نکلی۔ اصل میں جمعے کا دن دو برکتیں ایک ساتھ لایا، ایک تو جمعے کے دن اپنی برکت تھی، دوسری برکت بابائے قوم کا یوم ولادت لایا، ڈاکٹر صاحبہ سے ملاقات کا بہانہ بھی یہی تقریب بنی۔ قائد اعظمؒ کی سال گرہ کا کیک بھی کٹ گیا اور اس بہانے دوستوں سے ملاقات بھی ہو گئی۔
وفاق سے جانے کے بعد اسلام آباد میں ان کی یہ پہلی آمد یا رونمائی تھی، انھیں آتے دیکھا تو سہیل چوہدری کہنے لگے کہ دیکھو شیرنی آ رہی ہے، ممتاز بھٹی کہنے لگے کہ صرف شیرنی مت کہو، زخمی شیرنی کہو، ڈاکٹر صاحبہ کچے کانوں ہیں یا نہیں، زیر لب باتیں ضرور سن لیتی ہیں، خوش دلی کے ساتھ کہا گیا یہ جملہ بھی انھوں نے سن لیا، زندہ دلی کے ساتھ قہقہہ لگایا اور کہا کہ سارے ہی اپنے ہیں، کوئی غیر نہیں۔ سیاست دان کو کھانے کی میز پر بے تکلفی کا ماحول میسر آ جائے تو وہ خوب باتیں کرتا ہے، ڈاکٹر صاحبہ بھی کھل کر بولیں اور کھل کر ہنسیں۔ یار لوگ محمد علی درانی کے ٹریک ٹو انی شی ایٹوکے مستقبل کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس بارے میں کچھ زیادہ بات تو نہیں کی لیکن جو کچھ کہا، اس سے یہی سمجھ میں آیا کہ اس کوشش کا مستقبل کچھ ایسا روشن نہیں۔لگتا ہے کہ ہمارے دوست محمد علی درانی کچھ دن ٹیلی ویژن پر ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے رہیں گے، اس کے بعد ممکن ہے کہ کسی اور موقع کا انتظار کریں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی باتوں میں تحریک انصاف کی داخلی سیاست اور باہمی چشمکوں کے بارے میں بھی کچھ اشارے دیے لیکن دل میں اتر جانے والی بات کچھ اور تھی۔ ہنس بول تو ان دنوں ہر کوئی لیتا ہے لیکن وبا کی غضب ناکی نے ایسے ایسے دوست ہم سے چھین لیے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بس، یہی غم تھا کہ دوستوں نے بچھڑنے والوں کو بڑے دکھے دل کے ساتھ یاد کیا۔ یادآنے والوں میں ایک ارشد وحید چوہدری تھے، دوسرے طارق ملک، کچھ احباب نے بعض دوسرے دوستوں کے نام بھی لیے لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے بات اچک لی اور وعدہ کیا کہ وہ چکوال سے ہو آئیں، پھر ارشد کے ہاں جائیں گی، ”۔۔۔ اور طارق کے ہاں بھی“حافظ طاہر خلیل نے کہا تو کہنے لگیں کہ ہاں طارق کے ہاں بھی۔
دکھ کی بات یہ ہے وبا کا بے رحم شکنجہ ہمارے بے شمار دوستوں کو ہم سے چھین کر لے گیا، دکھ کی ان گھڑیوں میں تعزیت کے اکا دکا بیانات آئے پھر اہل حَکم سب بھول بھال گئے کہ قلم کے ان مزدوروں کے اہل خانہ آج کس حال میں ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی کسی کو کرنی ہے کہ نہیں؟ ڈاکٹر صاحبہ نے دکھ کی یہ داستانیں سنیں تو حوصلہ دیا کہ ان لوگوں کے حالات کاجائزہ لے کر مجھے آگاہ کریں، اس کے بعد مجھ پر چھوڑ دیں، وفاق ہو یاصوبہ، ہر دو جگہ وہ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کریں گی کہ ہمارے بچھڑنے والے دوستوں کے لواحقین کے مسائل میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جائے۔
خوشی کی ایک اور بات ڈاکٹر صاحبہ نے یہ کہی کہ انھوں نے عثمان بزدار صاحب کو آمادہ کر لیا ہے کہ پنجاب کے ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں ایک صحافی کالونی ضرور بنائی جائے۔ ڈاکٹر صاحبہ اگر یہ کارنامہ کر گزرتی ہیں تو سچی بات یہ ہے کہ اپنی بخشش کا سامان کر لیں گی کیوں کہ ملک کے مختلف حصوں، خاص طور پر اضلاع میں ہمارے صحافی بھائیوں کے حالات عام طور پر حالات اتنے پتلے ہوتے ہیں کہ اپنے ذاتی گھر کا خواب دیکھنا تو دور کی بات، وہ اپنے روزمرہ کے اخراجات کے لیے بھی پریشان رہتے ہیں، ایسے حالات میں اگر ڈویژنل صدر مقام پر ہی صحافی کالونیاں بن جائیں تو ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
قائد اعظم کے یوم ولادت کی برکت سے یہ اچھی خبر سنی تو ایک بات اور بھی یاد آئی۔ آج کے زمانے میں لوگوں کی آمدنی کم ہو یا زیادہ، لوگ اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں ضرور بھیجتے ہیں اور اچھے اسکولوں کی ”خوبی“یہ ہے کہ وہ اچھے پاکستانی بنانے سے زیادہ اچھے بین الاقوامی شہری بنانے پر توجہ دیتے ہیں، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج بین الاقوامی شہریوں کی فوج ظفر موج تیار ہوئی چلی جاتی ہے جسے نہ یہ معلوم ہے کہ پاکستان کیا ہے اور نہ یہ خبر کہ قائد اعظمؒ کون تھے۔ اس ماحول میں ہمارے ان دونوں مقدسات کے بارے میں اول جلول باتیں کہنے والوں کی خوب بن آئی ہے۔ یہ لوگ قائد اعظمؒ اور پاکستان کے بارے میں کھلے بندوں جھوٹ بولتے ہیں، شک کے بیج بوتے ہیں، ذرائع ابلاغ کے پرانے ماحول میں ایسی باتیں کہنی اور لکھنی مشکل تھیں، موجودہ دور میں آزادی اظہار کے نام پر لوگ جانے کیسا بہتان باندھتے ہیں، سوشل میڈیا نے اس کریلے پر نیم چڑھا دی ہے، اس طوفان بدتمیزی نے ہمارے بچوں کے ذہن مسموم کر دیے ہیں۔ ایسے ماحول میں ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کا دم ہمارے لیے غنیمت ہے جنھوں نے ”سچ تو یہ ہے“کے نام سے ٹھوس حوالوں کے ساتھ ایک کتاب شائع کر دی ہے جس میں بابائے قوم اور پاکستان کے بارے میں پھیلائے گئے ہر جھوٹ کا جواب موجود ہے۔
ڈاکٹر صاحب مؤرخ اور محقق ہیں، کوئی بات مستند حوالے اور ٹھوس ثبوت کے بغیر نہیں کرتے، ان کا یہ کام ان کی اسی محنت کا منھ بولتا ثبوت ہے جس کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ ان کا یہ کام قومی تاریخ اور مقاصد کو آئینہ کردے گا، ان کی یہ خدمت صدقہ جاریہ سے کم نہیں لیکن اس کے ساتھ ہی کرنے کا ایک کام اور بھی ہے، ڈاکٹر صاحب کے اس تحقیقی کام کی اس عہد کے بچوں کے لیے اردو اور انگریزی میں بھی منتقلی ضروری ہے تاکہ بد اندیشوں کے اصل ہدف یعنی نئی نسل کو اس منفی پروپیگنڈے سے بچایا جاسکے، مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود اور ہمارے بھائی عبدالستار اس پہلو پر بھی توجہ دیں گے۔