ADVERTISEMENT
علامہ محمد خان شیرانی جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے کلیدی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں جماعت خصوصا جے یوآئی بلوچستان کے لیے ان کی گراں قدر خدمات ہیں انہی خدمات کے طفیل وہ تین دہائیوں تک جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے امیر رہے ، ممبر قومی اسمبلی رہے، سینیٹر رہے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین رہے اگر انہوں نے جماعت کو کچھ دیا ہے تو جماعت نے بھی انہیں بہت کچھ دیا ہے مولانا شیرانی اپنے تفردات کے حوالےسے بھی شہرت رکھتے ہیں ان کے بہت سے تفردات کی وجہ سے جماعت بھی تنقید کی زد میں رہی ہے ان سے اختلاف کے باوجود جماعت میں ان کی رائے کا احترام رہا ہے.
روس کے خلاف جہاد پر مولانا شیرانی کے شدید تحفظات تھے وہ اسے امریکی مفادات کی جنگ کہتے تھے اب بھی یہی کہتے ہیں جبکہ جے یوآئی اسے جہاد سمجھتی تھی اور اس وقت افغان مجاہدین اور پاکستان کے ریاستی بیانیے کے ساتھ کھڑی تھی۔
افغان طالبان کے حوالے سے بھی مولانا شیرانی مختلف رائے رکھتے تھے وہ پاکستان کے ان چند علماء میں سے تھے جو کھل کر طالبان کی مخالفت کرتے تھےجبکہ جے یوآئی سمیت دیگر مذہبی جماعتیں اور پاکستان کی اسٹبلشمنٹ طالبان کی حامی تھیں۔
مولانا شیرانی ایران کے بھی بہت قریب سمجھے جاتے ہیں وہ اہل تشیع کی کسی بھی حوالے سے تکفیر کے قائل نہیں ہیں۔ مولانا شیرانی جہادی، عسکری اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے بھی سخت ناقد ہیں شاید اسی وجہ سے ان پر خودکش سمیت کئی مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔
مولانا شیرانی صاحب جمعیت کے بزرگ رہنماؤں میں شامل ہیں شاید اسی کا ہندسہ عبور کر چکے ہیں عمر کے اس پیٹے میں بھی ان کے تفردات کا سلسلہ جاری ہے دو دن قبل انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی ہے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن اور پی ڈی ایم پر بھی سخت تنقید کی ہے کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق مولانا شیرانی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے جو ان سے اس قسم کے بیانات دلوا رہی ہے ہماری دانست میں یہ بات محل نظر ہے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے مولانا شیرانی اکثر یہ کہتے رہتے ہیں کہ ” نہ اسٹبلشمنٹ کے لیے کام کرو نہ اس کے خلاف کام کرو” ویسے ان کا ٹریک ریکارڈ بھی اس کے برعکس ہے افغان جہاد، افغان طالبان ، جہادی و فرقہ وارانہ تنظیموں کے حوالے سے ان کا موقف اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہا ہے اب اچانک اسٹبلشمنٹ کے حامی بلکہ
آلہ کار کیسے ہوگئے؟؟
ہماری ناقص رائے میں مولانا شیرانی کچھ ذاتی معاملات کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن کے خلاف ہیں جن میں سرفہرست مرکزی امارت اور بلوچستان کی امارت ہے وہ سمجھتے تھے کہ سینیارٹی کی بنیاد پر جے یوآئی کی مرکزی امارت ان کا حق ہے لیکن مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں ان کی جگہ نہیں بن پا رہی ہے۔ ستم بالائے ستم وہ بلوچستان کی امارت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایسے میں وہ مولانا فضل الرحمن پر غصہ نکالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تسلیم کہ جماعت میں کسی ایک شخص یا اس کے خاندان کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے لیکن خود مولانا شیرانی کئی دہائیاں بلوچستان کی جماعت کے سیاہ وسفید کے مالک رہے اس وقت ان کو جمہوریت اور موروثیت کیوں نظر نہیں آئی؟؟
اسرائیل کی حمایت کا بیان بھی مولانا فضل الرحمن کی مخالفت میں داغا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس بیان کا ان کا دوست ایران کتنا برا منائے گا۔
مولانا شیرانی سے شکوہ تو بنتا ہے کہ وہ ذاتی مخاصمت کی وجہ سے نہ صرف جمیعت علمائے اسلام بلکہ پوری اپوزیشن کی تحریک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اس وقت مولانا فضل الرحمن جمہوریت کے علمبرداروں کی ایک توانا آواز بنے ہوئے ہیں ایسے میں مولانا شیرانی کے تنقیدی حملوں کے جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
مولانا شیرانی سے یہ بھی عرض ہے
تجھ کو تنہا کر گیا ہے منفرد رہنے کا شوق
اب اکیلے بیٹھ کر یادوں کے منظر دیکھنا