ADVERTISEMENT
وارث شاہ کی ہیر میں ہیر کا سراپا مصرعوں کی شکل میں پڑھا تو یہی خیال آیا کہ ایسا چہرہ آسمان سے اترے تو اترے زمین پر تو ناممکن ہے ہزاروں چہرے نظروں کے سامنے آئے مگر وارث کی ہیر جیسا چہرہ دکھائی نہ دیا نجانے وارث شاہ کے مصرعوں کا جادو تھا یا اٹھتی جوانی کی خواہش ہر چہرے میں ہیر کی تلاش کا سفر جاری رہا اور پھر انہی دنوں فلم ہیر رانجھا کی دھوم سنائی دی۔
اداکاروں میں فردوس اور اعجاز کا نام نمایاں تھا فردوس اور اعجاز کی کئی فلمیں پہلے دیکھ چکا تھا فردوس کو اکمل خان جیسے خوبرو ہیرو کے ساتھ پہلے سے دیکھ چکا تھا، اکمل کے ساتھ اس کی جوڑی سجی تو خوب مگر ہیر بالکل نہیں لگتی تھی البتہ دونوں کے درمیان ذاتی زندگی میں ہیر رانجھے جیسا دھیما دھیما تعلق ضرور بنا مگر ادھورا سا فردوس اکمل جیسے سمارٹ ہیرو کے ساتھ ساتھ سدھیر جیسے جنگجو اور غیر رومانی ہیرو کے ساتھ بھی سکرین پر نظر آئی اور عنایت حسین بھٹی جیسے عوامی اداکار کے ساتھ بھی خوب سجیں۔ وقت کے دیگر بڑے بڑے اداکاروں یوسف خان، حبیب کے ساتھ بھی دکھائی دیں، مگر کسی کے ساتھ ہیر نہیں لگیں ہر فلم میں انہوں نے روایتی ہیروئین کے طور پر اپنا آپ تو منوایا مگر کسی غیر معمولی کردار کے ساتھ نظر نہ آئیں اس لیے جب میں نے اعجاز اور فردوس بطور ہیر رانجھا کا اشتہار دیکھا تو بہت عجیب لگا مگر نہ چاہتے ہوئے بھی فلم دیکھنے کیلئے سینما ہال میں بیٹھا تو فردوس کو ہیر کے روپ میں دیکھ کر وارث شاہ کے مصرعے اس کے سراپے میں نظر آنے لگے فردوس ایک مکمل ہیر کے طور پر سامنے نظر آنے لگی اعجاز بھی حیرت انگیز طور پر رانجھے جیسا ہی لگا فلم نے دوسرا شو دیکھنے پر مجبور کیا اور دوسرا شو بھی دیکھا فردوس اس فلم میں ناچتے گاتے ہنستے روتے سوتے جاگتے مکمل ہیر لگی اور دل نے گواہی دی کہ ہیر اگر فردوس جیسی نہیں بھی تھی تو فردوس تو ہیر جیسی بہرحال ہے پاکستان کی یہ پنجابی فلم ہیر رانجھا پاکستان کی کلاسیکل فلموں میں سب سے نمایاں ہے احمد راہی کے لکھے ہوئے گیت اور خواجہ خورشید انور کے سجائے ہوئے سروں نے اسے جہاں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا وہاں فردوس اور اعجاز کو ایک دوسرے کے دلوں میں بھی بسا دیا اسی فلم کے دوران پروان چڑھنے والے عشق نے میڈم نور جہاں اور اعجاز کے درمیان جدائی کی لکیر کھینچ دی،مگر ساتھ ہی فردوس کے فنی سفر کا بھی اختتام کردیا ہیر رانجھا کے بعد فردوس پھر دوبارہ کسی فلم میں اپنا رنگ نہ جماسکی بہت بات میں ایک پنجابی فلم…… اک دھی پنجاب دی…… میں وہ ایک ماں کے روپ میں جلوہ گر ہوئیں یہ فلم نرگس کی انڈین فلم ”مدر انڈیا“ کے انداز میں بنائی گئی وہاں کے لوگوں نے نرگس کو تو مدر انڈیا کے طور پر قبول کر لیا مگر فردوس کو ہیر کے بعد پنجاب کی ”دھی“ قبول کرنے سے انکار کردیا فردوس بھی فلمی دنیا سے کنارہ کشی کر کے گھر بیٹھ گئیں اور پھر دوبارہ کسی فلم تو دور کی بات فلمی لوگوں کے درمیان بیٹھی بھی نظر نہ آئیں وہ ایک طویل عرصے سے اپنے خاندان کے ساتھ ایک نئی زندگی گزار رہی تھیں ان کے شب وروز کا کسی کو کوئی علم نہیں تھا کہا جاتا ہے کہ فردوس مارکیٹ ان کی تھی اور فردوس مارکیٹ کے قریب ہی ان کا ذاتی گھر تھا ان کے بچے بھی ماں کے فرماں بردار اور ہر قسم کا خیال رکھنے والے تھے فردوس نے بھی بچوں کی ہر خواہش کے آگے سرخم رکھا اب وہ ہمیشہ کیلے دنیا سے چلی گئیں مگر ہیر کا نقش دلوں پر چھوڑ گئیں اور ہماری فلم انڈسٹری کے سنہرے دنوں کی تاریخ بھی ساتھ لے گئیں اس میں کوئی شک نہیں فردوس کا شمار ان اداکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے فلم انڈسٹری کو بہت مشکل حالات میں بلندی پر پہنچایا اپنے فن کے ذریعے ملک میں فلم کلچر کو نمایاں کیا اور لوگوں کو سینما ہال تک لانے کیلئے بہت محنت کی مگر بدقسمتی دیکھیے کہ جس ٹوٹی پھوٹی فلم انڈسٹری کو ان جیسی ادکاراؤں نے عروج دلایا ان کے بعد آنے والوں نے اس انڈسٹری کو دن رات برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی سو مجھے امید ہے فلمی دنیا کی ترقی میں جن شخصیات کا نام سب سے اونچا لکھا جائے گا۔فردوس بیگم کا نام ابتدائی چند ناموں میں سب سے اونچا ہوگا۔