یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا لیکن آج جو ہو رہا ہے، اس کی مدد سے بہت کچھ سمجھنا آسان ہو گیا ہے۔
تازہ مناظر کی فہرست درج ذیل ہے:
1- عمران خان نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک تصویر لگائی ہے جس میں وہ شام کے دھندلکے میں ایک شاہانہ لان میں مصروف نماز ہیں۔
2- حکومت نے آج مینار پاکستان کے سبزہ زار میں پانی چھوڑ دیا۔اس سے قبل حکومت کے سربراہ عمران خان نے لاہور جلسے کے لیے کرسیاں اور ساؤنڈ سسٹم فراہم کرنے والوں کے خلاف مقدمے قائم کرنے کا اعلان کرنے کے بعد جلسے کی اجازت دے دی تھی۔
3- پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں استعفوں پر یک سوئی سامنے آگئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی لانگ مارچ بھی یقینی ہو گیا ہے اور شاید یہ بھی کہ لاہور کے جلسے سے ہی لانگ مارچ کی ابتدا ہو جائے گی۔
قومی منظر نامے پر 8 دسمبر کو دکھائی دینے والے منظر سے یہ واضح ہے کہ معاملات ٹکراؤ کی طرف جا رہے ہیں۔ حکومت جس کے سربراہ کچھ عرصہ قبل اپوزیشن کو احتجاج کے لیے کنٹینر دینے کی باتیں کیا کرتے تھے، اب دور ایوبی کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں بھی اپوزیشن کی جلسہ گاہوں میں پانی چھوڑ دیا جاتا تھا، بعد میں بھٹو صاحب نے بھی اس روایت کی پیروی کی۔ موجودہ حکمران وہ پرانی بھولی بسری روایات تازہ کر کے کیا حاصل کریں گے، یہ تو وہی جانتے ہوں گے لیکن تاریخ ان کا نام کہاں لکھنے جارہی ہے، اس کا شاید انھیں شعور نہیں یا پروا ہی نہیں۔
اب دکھائی یہ دیتا ہے کہ حزب اختلاف اس حکومتی طرز عمل کی پوری طاقت سے مزاحمت کے موڈ میں ہے جس کا ایک مظہر منگل کو پی ڈی ایم کے اجلاس کی روداد ہے۔ آج کے اجلاس میں استعفوں پر مکمل یک سوئی سامنے آئی۔ اسی طرح لانگ مارچ اور دھرنہ بھی حتمی دکھائی دیتا ہے۔
حزب اختلاف کے ان اقدامات کیا نتائج ہوں گے، کوئی سیاسی مبصر اس پر احتیاط سے ہی بات کرے گا لیکن جو کچھ عمران خان نے کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یقیناً آنے والے دن ان کے لیے آسان نہیں۔ کسی سیاسی بحران میں حکمران اگر اپنی نیکی، پاکیزگی، پارسائی اور عبادت گزاری کی تشہیر کرنے لگے تو تاریخ بتاتی ہے کہ وہ مشکل میں ہے۔ تین چار دہائی قبل جب بھٹو صاحب نے پی این اے کی تحریک کا دباؤ محسوس کیا تھا تو اس وقت انھوں نے بھی جمعے کی چھٹی اور شراب پر پابندی عائد کر کے دباؤ سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔
موجودہ حکمران حزب اختلاف کی آواز دبانے کے لیے ماضی کے جن جابرانہ ہتھکنڈوں کو دہرا ہے ہیں، فطری سی بات ہے کہ دباؤ سے نکلنے کے لیے بھی اسی قسم کی روایات کی پیروی کریں گے۔