ADVERTISEMENT
غالباً 1999 کی بات ہے جب ہم نے جامعہ اشرف المدارس گلشن اقبال میں درس نظامی کے پہلے درجے (اولی) میں داخلہ لیا کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ جامعہ کے عقب میں “احسن العلوم” کے نام سے ایک اور بڑا جامعہ ہے اور یہاں کے مہتمم مفتی زر ولی خان ہیں جو ایک جید عالم دین ہیں اچھے خطیب بھی ہیں۔ جستجو ایک دن ہمیں جمعہ کے لیے جامعہ احسن العلوم لے گئی ایک وجیہ اور نورانی چہرے والےعالم دین منبر پر جلوہ افروز تھے سر پہ سفید پگڑی تھی جو ایک خوب صورت سنہری ٹوپی کے اوپر نہایت سلیقے سے بندھی ہوئی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی فرشتہ منبر پر اتر آیا ہو عالم کی گفت گو میں بلا کی فصاحت تھی وہ اپنی شستہ اردو میں علم کے موتی رول رہے تھے۔
دور دراز سے آئے ہوئے طلباء کی ایک بڑی تعداد ان کے سامنےدم بخود بیٹھی تھی پورا مجمع ہمہ تن گوش تھا جس کا میں بھی حصہ تھا سامعین کا انہماک اس قدر کہ گویا وقت کا پہیہ رک گیا ہو اور کسی کو گھڑی کی سوئی کی رفتار کا احساس تک نہ ہو ابھی سماعتیں شوق سے خطاب سن رہی تھیں کہ عالم نے “وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین” کہہ کر سامعین کو چوکنا کر دیا سب نگاہیں سامنے دیوار پر ٹنگی گھڑی کی طرف اٹھ گئیں میری نظر بھی اسی سمت اٹھی تو معلوم ہوا وقت نے پینتالیس منٹ کا فاصلہ طے کیا ہے خطیب نے سب کو اپنی سحر بیانی میں اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ کسی کو پون گھنٹہ گزرنے کا احساس تک نہ ہوا اس دن سے مفتی صاحب کی تقریر سننے کا چسکا سا لگ گیا گلشن اقبال میں طالب علمی کے تین سالوں میں اکثر جمعہ مفتی صاحب کے ہاں پڑھنے کا معمول رہا۔
حضرت مولانا مفتی زر ولی خان مرحوم ” بسطۃ فی العلم والجسم ” کے مصداق تھے۔ مزاج شاہانہ تھا خوش لباس اور خوش خوراک تھےعمدہ قسم کی پگڑی اور جبہ زیب تن کیا کرتے تھے جو ان کے پرکشش قدوقامت کو چار چاند لگا دیتے تھے ان کی شخصیت با رعب اور طبیعت جلالی تھی، بگڑ جاتے تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اپنے مسلک میں بڑے متصلب تھے ان کے جامع کے گیٹ کی پیشانی پر بھی ان کےمسلک کی نشان دہی جلی حروف میں کندہ ہے حالانکہ اکثر علماء دیوبند ایسا نہیں کرتے اور اسے ایک قسم کی فرقے واریت سے تعبیر کرتے ہیں اپنے اسی مسلکی تصلب کی وجہ سے بعض فرقوں کے بارے میں مفتی صاحب کا موقف بڑا سخت تھا خصوصاً بدعت اور شرک کے معاملے وہ کسی قسم کی لچک کے قائل نہ تھےان کا اختلاف اور جلال سیلیکٹو نہیں ہوتا تھا جس چیز کو غلط سمجھتے ڈنکے کی چوٹ پر غلط کہتے چاہیے کسی ہر بھی زد پڑے تنقید میں وہ اپنے اور پرائے کی تمیز کے قائل نہ تھے حق کہنے میں “لا یخافون لومۃ لائم” کی عملی تصویر تھے وہ حبیب جالب کے اس شعر کے مصداق تھے ؎
ہمارے ذہن پر چھائے نہیں ہیں حرص کے سائے
جو ہم محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں
مفتی صاحب علمی دنیا کے آدمی تھے ان کی گفت گو سے مطالعے کی وسعت جھلکتی تھی دلائل کی رو سے جس بات کو درست سمجھتے برملا اس کا اظہار کرتے۔ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ دوسری طرف کون ہےاور ان کی تعداد کیا ہے شوال کے چھ روزوں کے عدم استحباب کے بارے میں اپنی تحقیق سے مطمئن تھے حالانکہ جمہور علماء اور خود ان کے اساتذہ کا موقف اس کے خلاف تھا، اسی طرح تصویر ، اسلامی بینکنگ سمیت بہت سے معاملات میں اپنے وقت کے اساطین علم سے کھل کر اختلاف کیا۔ تراویح میں قرآن سنانے اور قرآن خوانی کی اجرت اور تحائف وصول کرنے کے بارے میں بھی اپنی الگ علمی رائے رکھتے تھے۔ اس حوالے سے مضبوط علمی اور عقلی دلائل رکھتے تھے۔
مفتی صاحب کے اپنے بڑوں ، اساتذہ اور معاصر اہل علم سے علمی اختلاف سے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے مدارس کے ماحول میں اختلاف رائے کی گنجائش ہونی چاہیے بلکہ اس کی پذیرائی ہونی چاہیے تاکہ فضلاء کو فراغت کے بعد کوئی مشکل پیش نہ آئے انہیں معاشرے کے مختلف طبقات خصوصاً ملحدین کے غیر متوقع سوالات سے پریشانی نہ ہو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سمجھنے کے لیے سوال کرنا الحاد نہیں ہے بلکہ سمجھنے کے باوجود قبول نہ کرنا الحاد ہے