آصفہ بھٹو زرداری نے اپنی ماں شہید بے نظیر بھٹو کی چادر اوڑھ کر ملتان کے جلسے سے اپنی زندگی کا پہلا سیاسی خطاب کیا، وہ یقیناً بہت حد تک اپنی ماں کی طرح دکھ رہی تھیں. آواز بھی ماں جیسی تھی، اعتماد بھی کسی نووارد سے بہتر تھا، تقریر بھی انہی سیاسی حالات کے مطابق تھی جو پیپلز پارٹی یا جس اتحاد میں پیپلز پارٹی شامل ہے اس کی سیاسی سوچ کے مطابق تھا.
یہ بات بھی اہم تھی کہ پاکستان جیسے پدرسری معاشرے میں ایک لڑکی اپنی جماعت کی قیادت کر رہی تھی، جہ جائیکہ وہ اپنے بھائی بلاول بھٹو زرداری کے کورونا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے قیادت کی ذمہ داری نباہ رہی تھی. بہر حال یہ لمحہ آصفہ بھٹو زرداری اور پاکستان کے معاشرے کے لئے ایک بڑا لمحہ اس لئے بھی تھا کہ ایک عورت/27 سال کی لڑکی ایک بڑی جماعت کی قیادت کر رہی تھی. مگر کیا یہ کافی ہے؟کیا آصفہ کے سامنے حالات اور حالات کا جبر ویسا ہی ہے جیسا اس کی ماں کے سامنے تھا اور سب سے برھ کر یہ کہ کیا آصفہ حقیقت میں جانتی ہیں کہ جس پارٹی کی وہ قیادت کر رہی ہیں وہ ویسی ہی پارٹی ہے جس کی قیادت اس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی والدہ بے نظیر بھٹو کیا کرتی تھیں. کیا آصفہ جانتی ہیں آج کی پیپلز پارٹی وہ پیپلزپارٹی نہیں رہی ہے جس سے اس ملک کے عوام کی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ معاشرے میں انہیں برابری اور احترام دلائے گی. ان کے لئے ایسا مواقع پیدا کرے گی جس سے انہیں تعلیم اور روزگار کے مواقع ملیں گے اور علاج معالجے کی سہولت میسر ہو گی.
امید ہے کہ آصفہ پیپلز پارٹی کے منشور اور اس منشور کے تحت پاکستانی عوام کی زندگیوں کے بہتر بنانے کی کاوشوں اور بہت سی کامیابیوں سے واقف ہوں گی. مگر کیا آصفہ جانتی ہیں کہ آج جس جماعت کی قیادت کا انہیں موقع دیا گیا ہے وہ ماضی کی پیپلز پارٹی سے کتنی مختلف بنیادی گئی ہے. پیپلز پارٹی نعرہ تو یقیننا آج بھی غریب لوگوں کا لگاتی ہے مگر وہ اشرافیہ کی نمائندہ جماعت ہے اور اب تک انتہائی ڈھٹائی سے کرپشن کو تحفظ دینے والی جماعت بن چکی ہے.
آصفہ سے کوئی بھی سیاسی امید باندھنے سے پہلے کیا یہ پوچھنا اہم نہ ہوگا کہ کیا آصفہ نے کبھی اپنے باپ آصف زرداری سے پوچھا ہو کہ ان کے خلاف کرپشن کے اتنے مقدمات کیوں ہیں اور یہ کہ اگر یہ صرف مخالفین کا کیا دھرا ہے اور محض پروپیگنڈا ہے تو ان کے خاص دوستوں میں ملک ریاض ہی کیوں ہیں، ملک کا کوئی لکھاری، دانشور، کوئی نظریاتی سر پھرا، کوئی آرٹسٹ، پینٹر یا انسانی حقوق کا کارکن کو مزدور یا کسان تحریک کا کوئی رہنما کیوں ان کا خاص دوست کیوں نہیں. امید ہے ابھی نہیں تو آئندہ کبھی سیاست میں دوچار قدم مذید آگے بڑھانے سے پہلے اپنے والد سے پوچھیں گی کہ کیا ان کی سندھ میں ڈیڑھ درجن سے زائد شوگر ملیں ہیں یا محض پروپیگنڈا ہیں اور یہ کہ انور مجید انکل سے دوستی کی وجہ کاروبار اور مبینہ طور پر جعلی بینک اکاوئنٹس یا شوگر کا کاروبار ہے یا اس کاروبار کے پیچھے موجود سر بستہ راز بھی ہیں.
کیا آصفہ بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے آئندہ کسی جلسے میں اپنی والدہ کی کسی دوسری چادر کو اوڑھ کر خطاب کرنے سے پہلے یہ پوچھیں گہ کلفٹن کراچی میں زبردستی خریدے گئے بڑے بڑے مکانات کا الزام ان پر ہی کیوں لگایا گیا اور انہیں نے یا ان کی بہن فریال تالپور نے ان الزامات کو جھٹلایا کیوں نہیں. کیا آصفہ کسی ریلی کی قیادت کے لئے لاڑکانہ سے نکلنے سے پہلے اپنے والد سے پوچھیں گہ کہ اندرون سندھ اور اربن سندھ کی بڑی آبادی غریب کیوں ہے. تعلیم اور علاج سے محروم کیوں ہے، اور اب اس عزت نفس سے بھی محروم کیوں ہے جو اس کے نانا نے انہیں دی تھی اور جس کا پاس اس کی والدہ بے نظیر بھٹو نے بھی رکھا تھا. کیا آصفہ اپنے ارب ہا پتی والد آصف علی زرداری سے کوئی سیاسی سبق حاصل کرتے ہوئے پوچھیں گی کہ آپ کے پاس اربوں روپے آنے سے لاکھوں کروڑوں لوگ غریب تو نہیں ہویے. کہیں آپ سے منسوب جعلی بینک اکاوئنٹس میں اصلی پیسہ وہ تو نہیں جو اصلی طور پر غریب کا پیسہ ہے. کیا آصفہ بھٹو زرداری سیاست میں قدم بڑھانے سے پہلے اپنے والد آصف علی زرداری سے پوچھیں گی کہ جو سوالات وہ پوچھ رہی ہیں، کیا وہ سوالات ان سے بلاول بھٹو زرداری یا پارٹی کے کسی دوسرے رہنما نے کبھی ان سے پوچھے ہیں. اگر نہیں پوچھے تو کیوں نہیں پوچھے اور کیا اس کی وجہ پارٹی میں خاندانی آمریت ہے یا پارٹی کے کسی رہنما میں ایسا ادراک یا حوصلہ نہیں. آصفہ بھٹو زرداری اپنے سے یقیناً یہ بھی پوچھیں گی کہ اگر کبھی کسی نے ان سے یہ سوالات پوچھے تو انہوں نے کا کیا جواب دیا۔