یہ میں سنی سنائی نہیں بلکہ مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ دیہات میں اترنے والی سردیوں کی شام سے زیادہ پراسرار منظر کوئی نہیں. یہ ایسا منظر ہے کہ جس کی کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے.
ہمارے لڑکپن کے دنوں میں زیادہ تر دیہات بجلی سے محروم تھے . یہاں جاڑوں میں سورج ڈوبنے سے پہلے ہی شام اپنے پر پھیلا کر ماحول پر چھا جاتی. جب دونوں سمے ملتے تو منڈیر پر پڑنے والی سورج کی الوداعی حنائی کرنیں، رسوئیوں سے اٹھتا دھواں، گائے بھینسوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آواز، کہیں دور سے آتی ڈیزل انجن سے چلنے والی آٹا پیسنے والی چکی کی ” ہک” ہک” کی صدا مشرق کی طرف جاتے کوؤں کے غول، آنگن کے پیڑ پر چڑیوں کا شور مل جل کر ماحول کو بہت بوجھل کردیتے. کچھ دیر بعد مٹی کے تیل کے چراغ روشن ہوجاتے تو ان کی روشنی میں بننے والے لمبے لمبے سائے ماحول کی پراسرایت کو مزید بڑھا دیتے . ( چرواہوں کی بانسری اور ہیر گائیکی صرف فلم، ڈرامے اور ناول میں ہی ہوتی ہے) .
سردیوں کی شام کی منظر کشی تو کی جاسکتی ہے مگر اس کی کیفیت کو بیان کرنا ناممکن ہے. اس سے وابستہ اداسی کو نہ شعر اپنی گرفت میں لے سکتا ہے نہ نثر. اسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے. گو اب وہ دیہات بھی نہ رہے، بجلی نے ہر شے کو بدل کر رکھ دیا مگر شام کی وہ کیفیت اب بھی کسی حد تک موجود ہے کہ جسے یاد کرنے سے ہی اداسی چھا جاتی ہے. ایسی اداسی کہ شہر کے جم پل جس کا تصور بھی نہیں کرسکتے. سچی بات ہے کہ اس کا تصور بھی وہی کرسکتا ہے جس پر یہ بھید بھرا سماں بیتا ہو.