ایران کے ایٹمی پروگرام کے بانی سائنسدان محسن فخری زادے کو تہران میں قتل کر دیا گیا۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری اسرائیل پر عاید کی ہے۔
ایران کی اعلیٰ ترین قیادت کی طرف اس غیر معمولی قتل کی ذمہ داری اسرائیل پر عاید کرنے کی وجہ بہت واضح ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے دو سال قبل تل ابیب میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ فخری زادے کا نام ہم کبھی نہیں بھلا سکتے، دنیا بھی ان کا نام یاد رکھے۔
بین الاقوامی سیاست اور اسرائیل جیسے غیر ذمہ دار ملکوں کی دہشت گردی کو گہرائی سے نہ سمجھنے یا اس ملک کے عزائم سے دانستہ بے اعتنائی برتنے والا طبقہ ایران کے الزام کو ایک روایتی الزام قرار دے سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسرے ملکوں اندر گھس کر ایسی دہشت گردی اسرائیل کا معمول رہی ہے۔ اس پس منظر کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ تہران میں کی جانے والی دہشت گردی میں اسرائیل ہی ملوث ہے۔
ایران کے اس قومی نقصان پر اس کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا جانا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان میں اسرائیل کے حق میں پروپیگنڈا کرنے اور اسے تسلیم کرنے کی باتیں کرنے والوں سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ اب وہ اس مسئلے پر کیا فرماتے ہیں؟
وہ نام نہاد پاکستانی جو اسرائیل کی حمایت میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں، انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرنے اور اسے تباہ کرنے کے لیے وہ مختلف منصوبے بھی بناتا رہا ہے۔ ان لوگوں کو وہ دن بھی یاد رکھنے چاہئیں کہ جن دنوں پاکستان ایٹمی دھماکہ کرنے والا تھا، عین ان ہی دنوں میں بھارت کے تعاون سے اسرائیلی بحیرہ عرب موجود تھے۔ یہ ہماری خوش قسمتی اور کسی سقم سے پاک حفاظتی انتظامات تھے جن کی وجہ سے اسرائیل کو کسی حماقت کی ہمت نہیں ہو سکی۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اپنے ہمسائیوں سے بڑھ کر پاکستان کا دشمن ہے اور اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع کبھی نہیں چھوڑا۔ آئندہ بھی اس کے اس طرز عمل میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ اگر پاکستان اس ناجائز ملک کو تسلیم کر لیتا ہے تو اس سے اسرائیل کو تو فایدہ ہو گا لیکن پاکستان کو کوئی فایدہ نہیں ہو گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مالا جپنے والے آج تک اسے تسلیم کرنے کا کوئی فایدہ بتانے میں ناکام رہے ہیں لیکن نہ جانے وہ کس کے ایما پر ایک دشمن کی وکالت اس قدر جوش و خروش سے کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کو ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جو قومی مفادات کے خلاف رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔