افسانہ نگاری اور کہانی نویسی کا شوق چراتے کوئی دیر نہیں لگتی، ون لائنر کا نیا نیا دور آیا تھا،سوچا ون لائن سٹوری کیا لکھیں،پیارے یک سطری کہانی۔ کوئی آسان کام بھی نہیں ہے، موضوع دوستوں کو بنانا مقصود تھا، ذہن میں بے شمار نام آگئے، اب یہ طے کرنا باقی رہ گیا، کس کا فال نکالا جائے، ایک فلم سی چل گئی یعنی بچپن سے شروع ہوکر عمر کے اس حصے تک پہنچا، نہ جانے کتنے افراد تیزی سے آئے لیکن دوستوں کے ضمن میں مارک اور ان مارک کرنے کی آپشن موجود تھی، یہ فیصلہ کرنا باقی تھا کہ ان کے ساتھ سلوک کس نوعیت کا کیا جائے۔
اب کی بار دوستوں پر نگاہ ڈالی اور ہر ایک کو سامنے رکھ کر سوچنے لگا کہ کیا یہ میری کوشش سے خوش ہونگے یا ناراض۔ مشکل یہ ہوتی ہے کہ اگر تعریف نہ کریں تو نکتہ اطمینان پانا ممکن نہیں۔ ون لائنر لکھنے کا قصد کیا۔ لُغت کھول کر دیکھا دوستاخیاں کے کہیں معنی تلاش نہ کرسکا متبادل لفظ کے لیے زیادہ مغز ماری سے اجتناب کیا۔
تجویز آئی “صبر کرنے والے دوستوں کے اعمال کیا ہوتے ہیں”اسے موضوع بنایا جائے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کچھ منفرد نہ تھا لیکن زیادہ زیربحث بھی نہ رہا تھا۔
منصور شوکت میرے بچپن کے کلاس فیلو تھے، تھے اس لیے لکھ دیا کیونکہ پچھلے تیس سال سے کوئی علم نہیں کہاں ہیں، کسی سے ذکر تک نہیں سُنا، ہیں بھی یا نہیں۔ بہرحال اگر زندہ ہیں تو اللہ اُن کی عمر دراز کرے اور اگر جیسا میرا گمان ہے تو پھر خدا اُن کے درجات بلند کرے، نہایت نیک روح صبر کا پُتلا تھے، کبھی کسی ٹیچر کی ڈانٹ ڈپٹ حتٰی کہ تشدد”پٹائی” کا دوبارہ تذکرہ تک نہ کرتے اور بلکہ کرنے ہی نہیں دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک استاد نے اتنے ڈنڈے ہاتھوں پر رسید کردیئے کہ ہتھیلیوں کی رنگت پہلے سرخ اور پھر زرد پڑگئی، نوبت یہاں تک آگئی کہ سکول بیگ اٹھانا محال تھا۔ یہ خدمت میں نے انجام دی۔ مگر اُس نیک روح نے محض چند آنسو بہانے کے بعد بالکل اُف تک نہ کی چہرے پر شرمندگی اور ندامت کو آنے سے بڑے کامل انداز سے روکے رکھا۔ جہاں تک گھر والوں کا مسئلہ تھا انہیں پہلے بھی ایسی کسی حرکت کا شک تک نہ گزرنے دیا جاتا۔ اس سب میں ہمارے جیسے دوست معاون ثابت ہوتے، منصور کی ایک بات بہت اچھی تھی اُس کا کہنا تھا کہ ان چیزوں پر زیادہ توجہ دینے اور انہیں مشتہر کرنے کا فائدہ نہیں، نقصان ہوتا ہے، اس لئے خوشی خوشی ان کاسامنا کرو اور اگلے ہی لمحے بھول جاﺅ۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
کالج میں قدم رکھا وہاں بھی دوستوں کا ڈھیر لگ گیا انہیں بھی بڑی ترتیب سے رکھنا پڑتا تھا کچھ سکول سے ساتھ لیکر گئے تھے، کوشش یہی ہوتی تھی کہ ایک دوسرے میں کہیں مکس اپ نہ ہوجائیں کیونکہ اس طرح دوستی کا ٹیسٹ (ذائقہ) خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کلیم سکول سے آگے ساتھ گیا مگر کالج کوئی دوسرا چُن لیا۔ اپنے نام کی مناسبت سے اچھا کلام کرلیتا اُس نے بھی صابرین میں اپنا مقام پیدا کرنے کی جیسے ٹھان رکھی ہے۔ اتنا ہمہ جہت شخصیت کہ گاڑی کے انجن سے لیکر گھر چھوٹے موٹے کام کرنے تک حتیٰ کہ حکمت سے ڈاکٹری نسخوں اور دنیا کے تقریباً ہر موضوع پر عملی بحث کی لگن موجود ہے۔ اُسے جیسے یہ سب کرکے خوشی ہوتی ہے بلکہ کسی دوسرے کے ہاں بھی اگر موقع مل جائے تو ہاتھ چل پڑتے ہیں۔
گھر سے باہر جاتے بھی اُسے کام کی فہرست ساتھ لے جانا ہوتی ہے، بڑے بھائی اور بھابھی سے لے کر کتوں تک کی خوراک سب اس میں شامل ہوتا ہے۔ اس کی یہ ریاضت بھی سمجھ سے بالاتر ہے، بظاہر ایک سوشل ورکر جیسا کردار لگتا ہے مگر وہ اب نسبتاً کمزور ہوتا جارہا اور بھاگ دوڑ کے بجائے زبانی کلامی مشوروں پر اکتفا کرلیتا ہے، ہاں اس مشق کو وہ جاری رکھے ہے۔
کرکٹ کھیلنے کے دوران سنیئر کھلاڑی خدابخش بھی تھا اپنی ہمشیرہ کے ساتھ رہتا تھا یادداشت پر زور ڈالا مگر ناکامی ہوئی، معلوم نہیں کس علاقے سے تعلق تھا تاہم وہ کوئی پہاڑی بلکہ پوٹھوہاری تھا، اُسے کرکٹ کا شوق تھا لیکن اتنا ہی پڑھائی کا تھا۔ یعنی دونوں میں کوئی خاطر خواہ مقام حاصل نہ کرپایا کبھی کبھی لگتا جیسے اُسے ان دونوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
بادی النظر میں موصوف بھی کسی شریف شرمیلے اور صابر شاکر کا زندہ خاکہ تھا۔ ہم سے عمر میں بڑا اس لیے ایک احترام اور عزت کا تعلق تھا۔ لیکن فرینک نیس دوستوں کی طرح تھی۔ اُسے بھی جیسے خدا نے بخش دیا تھا میں گرمیوں کی دوپہروں میں اُسے دیکھتا گلی کی نکڑ پر اکیلے کھڑا، بس آتی جاتی گاڑیوں اور لوگوں کی جیسے حاضری لگارہا ہو۔ سادگی میں بازو ہلاتا اور ہاتھوں کو آپس میں ٹکراتا رہتا جس طرح بچہ دل ہی دل میں خوش ہوکر تالیاں بجاتا ہے۔
کئی کئی گھنٹے خاموش اسی حالت میں کھڑا رہتا، گمان گزرتا کہ کسی نے ڈیوٹی نہ لگائی ہو، کمال سٹیمنا تھا۔ اس کے بارے میں بھی خیال تھا کہ شرمیلا اور لڑکیوں سے دور رہتا ہے بچپن سے لیکر جوانی تک ہمیں نہ جانے کیوں اکثر لوگوں پر ایسا شک گزرجاتا تھا اس کی آج تک وجہ سمجھ نہیں آئی، خدا بخش اللہ کی گائے تھی لیکن کام پورے کرتی تھی یعنی دودھ کے ساتھ گوبر دیتی۔ اس نے ایک دن ہمارا شک دور کردیا “یہ بھی بہت نیکی کاکام ہوتا ہے” ہم دونوں بس پر سوار تھے نہ چاہتے ہوئے بھی محسوس کرلیا کہ خدابخش اگلے کمپارٹمنٹ میں بیٹھی لڑکی پر نگاہیں جمائے ہے، یقین نہ ہورہا تھا ظالم شک ہی تھا آخر بس سے اترنے پر وہ بھی دور ہوگیا اور یہ طلسم بھی ٹوٹ گیا۔ جہاں لڑکی بیٹھی تھی اس کھڑکی کے قریب پہنچتے ہی اس نے کمال مہارت سے ایک رقعہ اندر لڑکی کی جھولی میں پھینک دیا، آج تک یاد ہے، کہ جس برق رفتاری سے وہ واپس آیا یقیناً اتنی دیر میں لڑکی نے پڑھا نہیں ہوگا۔ چونکہ منظر سارا دیکھ لیا تھا، حوصلہ کرکے پوچھ لیا، یہ کیا حرکت تھی۔ جواب ملا، کچھ نہیں اُسے چیک کررہا تھا۔
مجھے یہی لگا جیسے وہ کوئی مریض ہے اور ڈاکٹر صاحب نے ڈائریکٹ نسخہ لکھ کر پھینک دیا ہو۔
جیدی۔ اُس کاذہن میں آتے ہی سوچنا پڑتا ہے کہ آیا وہ صابر تھا یا ہمارے صبر کا امتحان لیتا تھا۔ دوسری بات میں وزن زیادہ دیکھ کر سوچا اُسے دعوت تحریر دیتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ جیدی کا ذکر کرتے یہ لکھنے سے قلم رک رہا ہے کہ نہایت شریف،کسی کو تنگ نہ کرنے والا، ہاں دوسروں کا خیال ضرور رکھتا تھا اس کی وجہ البتہ معلوم نہیں ہوسکی۔ بظاہر وہ شرارتی بھی نہیں تھا مگر کام ایسے کر گزرتا کہ گمان شرارت کا ہوتا۔ ایک بات بتاتا چلوں مجھے گپ مارنے یا گپ بازی والے لوگوں سے کبھی عار نہیں رہی۔ ہہاں یہ درست ہے کہ زیادہ کرنے والے خود بھی اور دوسروں کو بھی تنگ کرتے ہیں۔ جیدی ایک خود ساختہ گپی المزاج نوجوان تھا۔ ہم دوستوں نے اس کا کئی مرتبہ تجزیہ بلکہ تحلیل نفسی کرنے کی کوشش کی کہ وہ آخر ایسا کیوں کرتا ہے۔ اس کی مہارت یہ تھی کہ بعض مافوق الفطرت باتوں کو معمول میں بڑی سادگی اور آسانی سے بیان کردیتا۔
اصل میں وہ اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے چکر میں لگارہتا تھا یہ بات بھی بعد میں ہم دریافت کر پائے کہ ایسے انسان موجود ہوتے ہیں اپنی مارکیٹنگ کرنے کا دور آیا تو معلوم ہوا کہ جیدی جیسے دوست غلط نہ تھے۔ ہم ایسے ہی تب بھی اور اب بھی اسے اقرباءپروری اور خود پسندی جیسے معنی دینے میں لگے رہتے ہیں۔
جیدی ذہین بڑا تھا لیکن اس کی کوشش یہ ہوتی کہ کس طرح تعلیم کا مرحلہ گزر جائے اور وہ عملی زندگی میں بیک وقت ڈاکٹر اور انجینئر بن جائے۔
یہاں میں اجازت لوں گا کہ وہ یہ سب کچھ کرتے بڑا پیارا اور معصوم لگتا یہ بھی میری ذاتی رائے ہے دوسرے شائد اب بھی اختلاف کریں۔ کئی سال غائب رہنے کے بعد معلوم نہیں اُس نے کیا پڑھا اور کہاں لکھا۔ راوی بتاتے ہیں کہ جیدی کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگیا ہے۔ جس کی ہمیں بظاہر خوشی ہوئی ایک دوست نے بتایا وہ ڈیم بنارہا ہے۔ اب یہ کوئی خفیہ آئٹم نہیں کہ گھر کے اندر کوئی مشین لگا کر کپڑے سلائی کریں یا ڈھلائی کا کام۔ ڈیم کا سُن کر ذہن میں آیا ملک میں بجلی کی پہلے ہی قلت ہے اور آبپاشی کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جارہا ہے، چلو اگر کہیں چوری چھپے بھی ڈیم بنارہا ہے تو آخر سب کا بھلا ہی کررہا ہوگا۔
کالج میں قدم رکھا تو چند نئے چہروں سے شناسائی بن گئی۔ ندیم اور اسد۔ ایک دوست دوسرا شیر۔ ذرا مشکل کام تھا۔ دوست کی حد تک ٹھیک مگر شیر کے ساتھ گزارا ممکن نہیں تھا۔ اسد بظاہر اچھا اور ساتھ نبھانے والا دوست تھا اس کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے نام کی طرح نڈر اور بہادر ہے۔ وجہ یہ تھی کہ کالج میں ایک طلبہ تنظیم کا بڑا خوف تھا مگر اسد کے کزن اور بھائی اس کے رکن تھے اور وہ اسد کی ہلہ شیری کرتے رہتے تھے۔ جسامت بھی کسی حد تک مسکولر تھی، حد یہ کہ پریکٹیکل کی نوٹ بُک کی دوسری جانب روزانہ کی پیمائشیں تحریر ہوتیں۔ چھاتی اتنے انچ، ڈولہ بازو کا مسل اور وزن اتنے کلوگرام وغیرہ ۔ جب ہم نے پڑھا تو ہمیں اپنے محلے کا وہ کردار یاد آگیا جو دودھ دہی کی دکان پر کھڑے ہوکر لسی یا دودھ کا گلاس غٹاغٹ پینے کے فوری بعد دایاں بازوفضا میں بلند کرکے بائیں ہاتھ سے مسل چیک کرتا جیسے ٹائر میں ہوا بھرنے کے بعد ہاتھ لگا کر دیکھتے ہیں کہ کتنی ہوا بھری گئی ہے۔ اسد کہتا تھا تم لوگ ہیلتھ کانشیس نہیں ہو، آگے چل کر (یعنی شادی کے موقع پر) تنگ پڑو گے۔ اس کی باتیں کبھی کبھی ڈرا دیتی تھیں، ایسا لگتا تھا کہ وہ بددعائیں دے رہا ہے۔
ندیم کا ذکر کیا کروں وہ دوست تھا اور اسی “رشتے” کو نبھارہا ہے کئی برس بیت گئے وہ دیار غیر میں اپنی مرضی کے خلاف رہ رہا ہے، وجہ وہی سادہ سی جس لڑکی سے شادی کرائی گئی وہ بیرون ملک مقیم تھے، جیسے لڑکی بیاہ کر لے جاتے ہیں، اسی طرح ندیم شادی کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ باہر سیٹل ہوگیا۔ پڑھی لکھی فیملی تھی والد صاحب بھی نیوی سے ریٹائر ہوکر ایک فکر والی زندگی گزار رہے تھے، فکر والی اس لئے کیونکہ جبب بھی انہیں ملے وہ حقہ پیتے کسی اہم قومی یاسماجی مسئلے پر بحث کرتے پائے گئے، بنیادی طور پر دیسی طبیعت کے تھے لیکن کتابیں انگریزی کی پڑھتے اور بول چال میں بھی زیادہ اسی زبان کا استعمال کرتے تھے۔ ندیم اور اس کے بھائی مزاح کا فن خوب جانتے تھے، فن کا ہرگز مطلب نہیں کہ وہ کوئی اس حوالہ سے خاندانی پس منظر رکھتے ہوں، یہ ایک خداداد صلاحیت ہوتی ہے جس کو انسان میں اس لیے رکھا جاتا ہے تاکہ وہ دوسرے انسان کو ذہنی طور پر مطمئن کرنے کےلیے مسکراہٹ کا بہانہ پیدا کرے۔ ندیم کو فوج میں جانے کا بڑا شوق بلکہ جنون تھا۔میں نے زندگی میں کسی نوعیت کا جنونی شخص دیکھا تو وہ ندیم تھا۔ کالج میں ہر وقت آئی ایس ایس بی کے امتحان کی تیاری کرتا رہتا۔ نہ صرف خود بلکہ اردگرد والوں کو بھی اس کی ترغیب دیتا حتٰی کہ اکساتا اور شرم تک دلاتا یعنی تم لوگ اس امتحان کو پاس نہیں کرسکتے، یہ مشکل ہوتا ہے، تم ڈرتے ہو کہیں رہ نہ جاﺅ، حالانکہ وہ خود بھی چار پانچ کوششوں میںناکام رہ چکا تھا جس کا ثبوت تعلیمی اسناد کی پشت پر لگی مہروں کی صورت میں موجود تھا۔
ایک بار اُس کی ضد اور چیلنج کو دیکھتے ہم بھی چلے گئے، واجبی سی تیاری کرلی اور مقصد صرف اس کو کمپنی دینا تھا جو ہماری نظر میں اصل مدعا تھا لیکن وہاں صورتحال کچھ مختلف پیش آئی۔ تحریری امتحان اور میڈیکل کے بعد انٹرویو میں وہ رہ گیا اور میں پاس ہوگیا۔ میرے لیے بھی نہ صرف خوشی بلکہ حیرت کا باعث تھا لیکن اس کے ساتھ ہی دُکھ بھی ہوا۔ میں اُس سے پوچھا اب کیا کروں جواب ملا، میں کیا بتاﺅں تم بہتر جانتے ہوگے۔ اُس کے لیے فوج میں جانا خواب تھا میرے ایسا ایسا کچھ نہ تھا۔پہلے اس جواب پر افسوس ہوا، پھر اس کی ذہنی کیفیت جان گیا، کسی کو معلوم نہیں حقیقت ہے دوست کی خاطر اگلے مرحلے میں نہیں گیا کیونکہ مجھے شک ہوگیا کہ کہیں میں سنجیدہ ہوگیا تو سلیکٹ نہ ہوجاﺅں جسے میں کبھی قبول نہ کرتا۔ آئندہ ایسے کسی امتحان سے توبہ بھی کرلی۔ خیر وہ دن بھی آیا جب وہ کوہاٹ کے لیے منتخب ہوگیا اور ہم اُسے پنڈی تک چھوڑنے گئے اصل میں قسمت میں اس کا ہمارے ساتھ سویلین لائف گذارنا لکھ دیا تھا، اُسے بعد میں جاکر علم ہوا۔ (شاید وہ بھی نفسیات کی طرح فوج میں جانے کو فیشن یا فخر سمجھتا تھا)۔
میرے اور ندیم میں ایک قدر مشترک تھی دونوں دوسروں کو تلقین زیادہ کرتے اور اُن کی تنقید کم ہی برداشت کرتے تھے (یہ بھی کوئی آسان کام تھوڑا ہوتا ہے) ندیم کو اس بات کا احساس ہے میں اب تک نہیں سمجھ سکا یعنی مجھ پر تنقید کیوں کی جاتی ہے، بھائی۔ میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔
خیر ندیم دیار غیر میں ہنسی خوشی تو شائد نہیں کہہ سکتا تاہم صبر کی زندگی بسر کرنے میں کوشاں رہتا ہے جس پر کبھی کبھی شاکر بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالٰی اُس کی مشکلیں آسان کرے۔
تصور رضا سے میں اکثر پوچھتا تھا کہ نام رکھتے وقت کس کے تصور میں تم آئے تھے، وہ مسکرا دیتا کہ یہ کسی خوبصورت انسان کا خیال ہی ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک خصوصیت تھی کہ دوسروں سے زیادہ خود اپنی رنگت پر تبصرہ کردیتا۔ لیکن وہ اندر سے بہت اُجلا اور دوست شناس تھا۔ قیادت سنبھالنے کا جیسے اُس کو خبط تھا اور جسے کہتے ہیں کہ بچپن سے لیڈر بننے کا شوق تھا، بغیر مائیک اور سٹیج کے فرضی ماحول بناکر تقریر کرنے کا فن خوب جانتا تھا۔ اور کئی باتوں کے ساتھ ساتھ وہ ٹوٹکے بڑے بتاتا، کھانے سے پہلے یہ لے لو اور بعد میںفلاں شے نہیں پینی۔ دوسروں کی مصیبت اور مشکل میں بڑی بھاگ دوڑ کرتا حس مزاح بڑی خوب تھی۔ لطائف میں مذاق اڑانے کے لیے خود کو فرض کرلیتا۔ مباحثے اور مکالمے میں بغیر سوچے سمجھے گود جاتا۔ وہ اپنی ایک پہچان چاہتا تھا۔ اسی لیے قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مصروف رہتا۔ آفس میں اعلیٰ حکام اور مالکان سے مطالبات کرتا رہتا۔
تصور اپنی ان خصوصیات کی بنیاد پر اپنے حلقہ احباب میں شناخت بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ دوسرے پے درپے انتخابات لڑنے سے بھی لوگوں میں آشنائی بڑھ گئی کہ یہ تو وہی ہے جو پچھلے سال بھی ہار گیا تھا۔
عمران مُلا بھی ہمارے دوسرے دوستوں کی طرح نیک روح تھا، میں نیک روح ہر کسی کو اس لیے کہہ دیتا ہوں کیونکہ میری ذاتی رائے میں اور عام تاثر بھی یہی ہے کہ روح نیک ہی ہوتی ہے، وہ بندے کے کام اچھے نہ ہوں تو روح کا کوئی قصور نہیں۔ عمران بنیادی طور پر فنکار بننے کے لیے پیدا ہوا تھا یہ اس کا خیال تھا مجھے یا کسی دوسرے کو اختلاف کا حق ہے۔ اُس کی حرکات اور عادات واطوار (جو اُس نے اپنا رکھی تھیں) فنکاروں جیسی تھیں۔ نیشنل کالج آف آرٹس میں داخلہ نہیں ملا تو پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کے چکر لگانا شروع کردیئے، فن کے فروغ کے لیے چند پینٹگز اور تصاویر بنارکھی تھیں۔ دوستوں کو دکھا کر رعُب ڈال دیتا۔ اُس کا المیہ یہ تھا کہ جس حلقے میں بیٹھتا تھا وہ فن کو جانتے نہ بھی تھے بڑے فنکاروں کے ساتھ صحبت کے دعویدار ضرور تھے اس لیے عمران بڑی بات یا دعویٰ کرنے سے گریز کرتا اور اگر غلطی سے نکل جاتا تو اسے کامیابی سے لپیٹ لیتا تھا۔ طبیعت انتہائی صابرانہ تھی اور کئی کئی گھنٹے بلکہ بات دنوں تک پہنچ جاتی،کھانا کھائے بغیر گذار دیتا اور جاگنے میں بھی اسی نوعیت کی حرکت کرجاتا۔
چہرے پر داڑھی، لمبے بال، ہاتھوں میں انگوٹھیاں گلے میں مختلف ہار خاص قسم کا آنکھوں پر چشمہ اور مزید کچھ زیورات زیب تن کئے رکھتا اس سب کے بعد بھی اگر کوئی فنکار کے بجائے بھکاری سمجھ لے تو اُس کی عقل پر حیرت ہی کی جا سکتی تھی۔ سگریٹ اور ہر قسم کے کسی بھی وقت پیتا اور پھر پتیا چلا جتا۔ سگریٹ سے جیسے کوئی دیرینہ عداوت تھی۔ گفتگو ہمیشہ دانشورانہ انداز میں کرتا، لہجہ دھیما، الفاظ کا چناﺅ سوچ سوچ کر کرتا۔ لیکن کبھی کسی سے لڑائی ہوجاتی اور مُلا کو ساتھ لے جاتے تو وہاں بالکل مختلف مُلا ہوتا وہ بے دھڑک غصے کا نہ صرف اظہار کرتا بلکہ گالیوں کی بوچھاڑ کردیتا جیسے فائرنگ کررہا ہو۔ خیر یہ سب بھی وہ دوستوں کی خاطر کرتاتھا کیونکہ یاروں کا یار تھا۔
مزاج میں دانشمندی رکھ چھوڑی تھی کچھ اُن دنوں حالات کا بھی تقاضا تھا جہاں سوشل سٹڈی اور اسلامیات لازمی مضمون قرار دیدئے گئے تھے، نوجوانوں میں یہ بھی ضروری ہوگیا اور چند کتابوں کو پڑھنے یا پڑھے بغیر ان پر گفتگو کئے گذارا ممکن ہی نہیں تھا۔ اگر کتاب یا خصوصی طور پر ناول اور وہ بھی انگریزی بغل میں ہر وقت نہ مارے ہوتا رعُب بنانا مشکل ہوجاتا۔ عمران اصل میں ہماری بے فکری کے دنوں (اگرچہ اُن دنوں میں سماج کو تبدیل کرنے کی سب سے بڑی فکر لاحق تھی) کا دوست تھا۔ اُسے پکارتے مُلا تھے مگر ملاﺅں کے سخت خلاف اور اُن پر باقاعدہ آوازے کس دیتا تھا۔ ایک بات تھی ساری مخالفت کے باوجود کسی باریش مولوی کو دیکھتے ہی گبھراجاتا، ہاتھ پسینے سے بھر جاتے۔ مُلا بائیں بازو کے نظریات کا پرچارک تھا اس لیے بڑی خواہش تھی کسی طرح سوویت یونین” اس دور میں روس“ جاکر تعلیم حاصل کرلے۔ حالانکہ یہاں بھی تعلیم میں کونسا تیر مار رہے تھے، مقصد وہاں سیر کرنا اور حتمی طور پر بس رہ جانا تھا۔
عشق محبت کی باتیں بڑے شوق اور توجہ سے کرتا۔ کسی فرضی لڑکی کے ساتھ عشق میں ناکامی کی ایک عدد کہانی اس کے پاس بھی تھی لیکن نہ جانے کیوں وہ زیادہ ہٹ نہ ہوسکی، کیونکہ میرے سمیت کچھ کا خیال تھا یہ فرضی ہے۔ بعض کا اصرار تھا نہیں ایسا نہیں کچھ تھا ضرور۔ پھر بھی ہم بضد تھے کہ انہیں کی کمزوری نے ناکامی کے راستے ترتیب دیئے ہوں گے۔
کبھی کبھی عشق کی داستان سناتے دکھی ہوجاتا اُس وقت شک گزرتا کہ شائد سچ ہی ہو۔ بہرحال وہ بڑے ناول پڑھتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ بھی ناول لکھے، شائداتنے ناول پڑھنے کے بعد انہیں میں کوئی نکالنے کا ارادہ ہو۔مُلا روس نہ جاسکا لیکن کسی سوشلسٹ ملک جانے کی آرزو پوری ہوگئی کئی سال پہلے سُنا تھا وہاں پھول بیچتا ہے، یہ جان کر فوری ذہن میں عاشق نامراد نوجوان کا ہیولہ گھوم گیا۔ چلو اچھا ہے محبت اور پیار ہی بانٹ رہا ہے کسی کو دکھ یا تکلیف دینے تو بہترہے
چند ایک ایسے دوست ہیں جن کے بارے میں چاہتے ہوئے بھی قلم ہاتھ سے نکل جاتا ہے، اُن کی دوستی سے جاتا رہوں گا۔ چند سطروں کی قربانی دیتا ہوں، زندگی کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ دوستوں اور جاننے والوں کو اچھے الفاظ اور خوش کن انداز میں یاد کیا جائے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ایسی دوستاخیاں قابل قبول ہیں۔