گذشتہ سوا دو برسوں سے اپوزیشن کو لتاڑنے اور دیوار سے لگانے والے وزیراعظم اچانک اپوزیشن کے لیئے اتنے نرم و ملائم کیوں بن گئے ہیں؟ انتخابی اصلاحات کی تجاویز خود ہی تیار کیں اور ٹی وی پر آکر پیش کردیں، اب انتخابی اصلاحات کے نام پر اپوزیشن سے تعاون کی درخواست کردی ہے۔ کیا اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ نہ ملانے والا وزیراعظم اپوزیشن سے تعاون کی امید کیوں کررہا ہے۔ اپوزیشن کے لیئے بھی یہ امتحان ہے کہ نئے انتخابات کے لیئے وہ انتخابی اصلاحات کے عمل کا حصہ بنے یا پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر کیئے گئے فیصلے پر قائم رہے، کیوں اپوزیشن واضح اعلان کر چکی ہے کہ اب وہ قانون سازی کے سلسلے میں حکومت سے کوئی تعاون نہیں کرے گی۔
لیکن زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وزیراعظم کی جانب سے سینیٹ چیئرمین کا انتخاب شو آف ہینڈ کے ذریعے کی تجویز کافی مناسب ہے، آئندہ سال سینیٹ کے انتخابات اور نئے چیئرمین کا انتخاب ہونا ہے، اگر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ تبدیل کردیا جائے تو فلور کراسنگ کا راستہ بند ہو جائے گا اور سیاسی لوٹوں کے سامنے سیاسی جماعتوں کی محتاجی بھی ختم ہو جائے گی۔
دوسری جانب اپوزیشن کی جماعتوں نے میثاق پاکستان پر اتفاق کرلیا ہے اور لاہور میں 11 دسمبر کو جلسے کے موقع پر ہی میثاق پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آنے والے سیاسی منظرنامے میں پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں مستقبل میں اس میثاق پر عمل بھی کریں گی؟