تحریک لبیک پاکستان نے کل رات سے زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ دنیا کی پانچویں ایمٹی طاقت ٹیلی فون اور انٹر نٹ بند کرکے مولوی خادم حسین رضویجو اتوار سے ایک ریلی لے کر فیض آباد میں تشریف فرما ہیں کا مقابلہ کررہی ہے۔
انتظامیہ کے باتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں کیونکہ مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ حکومت پاکستان فرانس کے سفارت خانے کو تالہ لگا کر ’’چابی‘‘ان کے حوالے کرے۔ سفیر کی بے دخلی کا اعلان کرے۔ نہیں تو وہ دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں پر ہی قیام وطعام فرمائیں گے۔
انیسویں صدی کے آغاز میں انگریزی میں ناول لکھا گیا۔Frankenstein’s monster۔ بعد میں اس پر فلمیں بھی بنیں اور بہت مقبول ہوئی۔ اس ناول میں یہ آئیڈیا زیربحث آیا کہ بعض اوقات آپ مثبت خواہش یا فکر کے زیر اثر کوئی ایسی ایجاد کرلیتے ہیں جو رفتہ رفتہ آپ کے وسائل اور سماج کو کھا جاتی ہے۔
پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اپنے ہی کہلانے والے اس پر چڑھ دوڑے اگرچہ جواز سب کے مخلتف تھے لیکن مقصد یا نتیجہ ایک ہی تھا کہ پاکستان کو کمزور کیا جائے۔ اسے سر اٹھانے کا موقع ہی نہ دیا کہ جائے کہ وہ داخلی مسائل کے علاوہ بھی کچھ سوچ سکے۔
اقبال کی کی شاعری کی یہ قوم پوجا کرتی ہے۔ ہر تقریب میں اقبال کی گونچ سنائی دیتی ہے لیکن اگر اقبال کے کسی پیغام کو نہیں سنا یا سمجھا گیا تو وہ روایتی ملا کے بارے میں تھا۔ ؎
دین کافر فکر و تدبیر جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
مطلب یہ ہے کہ غیروں کا دین تدبیر اور حکمت سیکھاتا ہے جب کہ ملا سوائے فساد کے اور کچھ نہیں۔ ایسے کئی شعر ایسے ہیں جو خادم حسین رضوی کی طرح کے فسادی مولویوں کے بارے ہیں۔ علما حق کے عزت اور احترام ہم دل سے کرتے ہیں لیکن یہ کون سا طریقہ ہوا کہ ہجوم اکٹھا کرکے راستے بند کردئیے جائیں۔ شہریوں کو اذیت میں مبتلا کردیا جائے۔
وقت آگیا ہے کہ ریاست اس کاروبار سے وابستہ شخصیات اور اداروں کا حقہ پانی بند کرے۔ بتدریج انہیں غیر موثر بنایا جائے۔ جلسوں اور جلسوں کا بھی کوئی ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے۔ شہریوں کو وقت سے پہلے باخبر کیا جائے تاکہ وہ سفر نہ کریں۔
کل رات راولپنڈی اور اسلام آباد میں بلامبالغہ لاکھوں لوگ سڑکوں پر رل گئے لیکن کوئی کوئی پرسان حال نہ تھا۔