میں گزشتہ چار دہائیوں سے اپنے والد محترم کی شفقت سے محروم ہوں لیکن ایک شخصیت ایسی ہے جس نے اس کمی کو کافی حد تک پورا کیا ہے میری مراد جناب محب اللہ عارفی صاحب مرحوم و مغفور سے ہے یوں تو عارفی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں پاکستان اور ہندوستان کے ادبی اور شعری حلقوں میں ایک زمانہ آپ کی خدمات کا معترف ہے آپ نے ایک ایسی ادبی اور شعری محفل ہفتہ وار شروع کی جو شملہ سے شروع ہوکر کراچی پھر اسلام آباد اور اس کے بعد پھر کراچی پر اختتام پذیر ہوئی
یہ محفل پچاس سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے اس محفل نے خاموشی سے اور بہت ہی غیر محسوس طریقے سے علم و ادب اور شعر و شاعری کی ایسی خدمت کی ہے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے میں بھی اس محفل میں آخری دس بارہ سال شریک ہوتا رہا ہوں کیونکہ میں ان کا پڑوسی رہا ہوں اس محفل کے بارے میں تفصیل سے بعد میں لکھوں گا فی الوقت میرا منشا ان کی شخصیت کا احاطہ کرنا ہے
ان کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو محبت اور حسن سلوک ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر مکتبہ فکر ہر مسلک ہر مذہب اور ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگ جو شعر و ادب سے دلچسپی رکھتے تھے ان کی اس محفل میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے ظاہر ہے ایسی محفل کو بغیر کسی تعطل کے زمانے کے ہر نشیب و فراز سے گزار کر نصف صدی تک جاری و ساری رکھنا محب صاحب کی مقناطیسی شخصیت اور ان کی محبت و شفقت اور حسن سلوک کا ہی کرشمہ تھا
ان کی محفل میں شیعہ سنی بریلوی حنفی اہل حدیث وہابی سب ہی شریک ہوتے تھے اسی طرح سندھی پنجابی بلوچی پٹھان اور مہاجر کی کوئی قید نہیں تھی سیاسی طور پر بھی ہر پارٹی کے لوگ شرکت کرتے تھے یہاں تک کہ صرف مسلم ہی نہی غیر مسلم حضرات بھی شرکت کرتے تھے اس تنوع کے باوجود سب کو جوڑ کے رکھنا اور پچاس سال سے زیادہ اس محفل کو کامیابی سے چلانا کوئی آسان کام نہ تھا مگر ان کی محبت اور حسن سلوک نے سب کو باندھ رکھا تھا
محفل سے اجتماعی تعلق کے ساتھ ساتھ ان کا ہر ایک سے انفرادی تعلق بھی تھا اگر کوئی غیر حاضر ہوتا تو اس کی خیریت معلوم کرتے اگر کوئی بیمار ہوتا تو اس کی مزاج پرسی کرتے کسی فوتگی کی صورت میں تعزیت فرماتے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہماری بینک میں پرموشن ہوئی اور ہم AVP بنا دیے گئے یہ اطلاع ان کو ہم سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی اپنے بیٹوں کے توسط سے جو کہ ہمارے بھی دوست تھے ہم ان کے گھر مٹھائی لے کر گئے تو دیکھا کہ انہوں نے ہمارے استقبال کی تیاری پہلے سے کر رکھی ہے اور ایک بہت ہی بھاری بھرکم گلابوں کا ہار ہمارے گلے میں ڈالا اور بہت ہی پرجوش طریقے سے گلے ملے اور مبارک باد دی اور ایسے خوش ہوئے جیسے ایک باپ اپنی اولاد کی ترقی پر خوش ہوتا ہے ان کا یہ خوبصورت انداز ہمیں آج بھی یاد ہے
ہمارے بچوں سے بھی بہت محبت فرماتے تھے انہوں نے وٹامن سی کی کھٹی میٹھی گولیاں رکھی ہوئی تھیں اور جب چھوٹے بچے ان سے ملتے تو وہ یہ گولیاں ان کو دیتے تھے بچے اس قدر مانوس ہوگئے تھے کے اگر کبھی بھول جاتے تو خود ہی ان سے گولیوں کی فرمائش کرتے بچے ان کو دادا کہتے تھے
اکثر اپنے ذاتی اور گھریلو معاملات میں بھی مجھ سے مشورہ کرتے تھے ان کی اہلیہ بھی ملنسار مشفق اور خدمت گزار تھیں ان کی مدد کے بغیر یہ ادبی محفل اتنے لمبے عرصے نہ چل پاتی اس محفل میں ہر ہفتے شرکاء کے ناشتے پانی کا بندوبست کرنا ان ہی کا کمال تھا ان کے بڑے صاحبزادے محبوب حبیبی صاحب ہمارے دوست تھے اور اکثر اس محفل میں شرکت فرماتے تھے
جب انہوں نے ہمارا پڑوس چھوڑا اور ڈیفنس کے علاقے میں منتقل ہوگئے ان کی عمر 90 سال سے اوپر ہو چکی تھی ان کی اہلیہ جن کو ہم خالا کہتے تھے بھی اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں خود محب صاحب بھی بیمار رہنے لگے تھے انہیں اہلیہ کے انتقال کا بھی صدمہ تھا یوں یہ محفل اپنے اختتام کو پہنچی
اس دوران ہمارا عمرے پر جانا ہوا اتفاق سے اللہ تعالی نے کعبۃ اللہ کے سامنے حرم شریف کے صحن میں ہم سے ایک حمد کہلوائی اور جب ہم مدینہ شریف گئے تو ریاض الجنہ میں ایک نعت شریف کا نزول ہوا ہم سکہ بند قسم کے شاعر تو نہ تھے لیکن شغف رکھتے تھے واپسی پر ہم تبرکات لے کر محب صاحب کے گھر گئے اور اصلاح کے لئے ان کو اپنی حمد اور نعت سنائیں انہوں نے بار بار سنیں اور فرمایا کہ اس میں اصلاح کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ جس کیفیت میں اور جس مقام پر وارد ہوئی ہے اگر اس کی اصلاح کی کوشش کی گئی تو اس کی کیفیات ضائع ہو جائیں گی کہنے لگے کہ نہ تو میں اس کی اصلاح کروں گا نہ ہی آپ کسی اور سے اصلاح کروائیں اس کو جوں کا توں رکھیں۔
ہم سب تو ان کو محب صاحب کہتے تھے لیکن محلے میں وہ کرنل صاحب کے نام سے مشہور تھے۔ اس کا بڑا دلچسپ پس منظر ہے۔ہوا یوں کہ محب صاحب وفاقی وزارت خزانہ میں بہت سینیئر بیورو کریٹ اور سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھے اور سابق صدر جناب غلام اسحاق صاحب کے ساتھی تھے۔حکومت نے انہیں مشیر یا ڈائریکٹر برائے ملٹری اکاونٹس بناکر کراچی بھیج دیا۔ چونکہ وہ ملیٹری اکاونٹس کے بہت ہی سینیئر عہدے پر فائز تھے لہٰزا ایک فوجی جیپ انہیں پک اینڈ ڈراپ کرتی تھی۔ بس اسی وجہ سے محلے میں کرنل صاحب کے نام سے مشہوری ہوگئی حالانکہ بہت ہی دھان پان سے آدمی تھے اور کسی بھی زاویئے یا اپنے کسی بھی طرز عمل سے فوجی نہی لگتے تھے۔
جب ان کی ایلیہ کا انتقال ہوگیا اور عزیزآباد کا گھر فروخت کرکے ڈیفنس منتقلی کا وقت آیا تو وہ شام بہت اداس تھی جب ان کی ادبی محفل اختتام کو پہنچ رہی تھی۔ محب صاحب بادل نخواستہ ڈیفنس منتقل ہورہے تھے۔ وہ خود اور ہم سب خاموش تھے اور دلی طور پر بہت مغموم تھے۔ اس شام کی منظر کشی جناب ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے اپنے مضمون میں بہت ہی جذباتی انداز میں کی ہے یہ مضمون ان کی کتاب سر گزشت میں بعنوان ” لال سبز کبوتروں کی چھتری” موجود ہے۔ فاروقی صاحب بھی اس محفل کے مستقل شرکاء میں شامل تھے اور تیس سال سے زائد عرصہ شریک رہے۔ خود فاروقی صاحب کے صاحبزادے جناب تسنیم فاروقی (جو ہمارے بھی بہت پرانے دوست ہیں اور انہوں نے ہی مجھے اس محفل سے متعارف کروایا تھا۔) نے اس کتاب “سرگزشت” کو جناب محب عارفی صاحب سے منسوب کیا ہے۔
اسلم فرخی صاحب نے “لال سبز کبوتروں کی چھتری” میں اس خاکسار کابھی ذکر خیر کیا ہے۔ہمارا نام ان کو یاد نہ رہا مگر ان الفاظ میں ذکر موجود ہے۔ ” پڑوس کے ایک جوان سخن شناس تھوڑی دیر کیلیے آتے تھے مگر آتے ضرور تھے، بھاگم بھاگ آتے۔ فوراً اٹھ جاتے۔لیکن ان کا گفتگو میں شریک ہونا ضروری تھا “۔ ( صفحہ نمبر 447 ). چونکہ اس مضمون میں اس پچاس سالہ ہفتہ وار ادبی اور شعری نشست کا کما حقہ احاطہ کیا جا چکا ہے اور وہ بھی ڈاکٹر پروفیسر جناب اسلم فرخی صاحب سابق صدر شعبہ اردو جامعہ کراچی کے قلم سے۔لہٰذا میرا اس پر مزید کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھاناہے۔اس لیے میں یہاں اس موضوع سے گریز کرتا ہوں۔
محب عارفی صاحب نے مجھے اپنی کچھ کتابیں جو نثر اور نظم پر مشتمل تھیں۔اپنے آٹو گراف کے ساتھ ہدیہ کیں۔ وہ کتابیں یہ ہیں۔۔
۔ چھلنی کی پیاس۔(شاعری)
اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ علم کی پیاس اور جستجو کے بارے میں ہے جس طرح چھلنی کی پیاس کبھی نہیں بجھتی اسی طرح علم کی پیاس اور حستجو بھی کبھی ختم نہیں ہوتی۔
۔شعر یات مسلک معقولیت (نثر)
اس میں محب صاحب نے شاعری میں مسلک معقولیت پر بحث کی ہے۔
۔تجسس کا سفر نامہ (نثر)
اس میں محب صاحب نے تجسس کی وجہ سے دلیل اور منطق سے حقیقت تک رسائ حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے
۔میر تقی میر اور آج کا ذوق شعری
یہ محب صاحب کی “شاعری پر تنقیدی تصنیف” ہے۔
آپ کی پیدائش 2 جنوری 1919 کو ضلع غازی پور یو پی میں ہوئ۔ اور علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ اور انتقال 19 دسمبر 2011 کو ہوا۔ آپ کی شادی 8 فروری 1946 کو غوثیہ بی بی دختر جمیل احمد سے حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ جہاں محب صاحب کی سسرال تھی۔ جو 55 سال کے بعد 6 اکتوبر 2001 میں اہلیہ کے انتقال پر ختم ہوئی۔
انھی کے ہم عمر اور فیڈرل جوائنٹ سیکریٹری جناب ایچ یو بیگ (حبیب الللہ بیگ) صاحب جو جالندھر کے رہنے والے تھے اور جنرل ضیا الحق کے گاوں کے تھے وہ سیکریٹری فنانس بنا دئیے گئے۔ مگر اس زمانے میں دوستی اور احترام جاری رہتا تھا جو ہمیشہ رہا۔ بیگ صاحب جب بھی کراچی آتے تھے تو تشریف لاتے تھے عزیز آباد میں بھی۔
محب صاحب اپنے خاندان کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے دہلی میں پاکستان آپٹ Opt کرکے 1947 میں کراچی ہجرت کی اور منسٹری آف فنانس کی ساری فائلیں اکھٹا کرکے بذریعہ ٹرین ایچ یو بیگ کے ہمراہ کراچی لاکر مسجد خضرا کے سامنے والی بیرک میں آفس قائم کیا۔
ابتدائی دنوں میں یعنی 1947 میں انھوں نے ٹینٹ میں قیام کیا جبکہ ان کی اہلیہ حیدرآباد دکن میں ہی مقیم رہیں۔ بعد میں مارٹن روڈ پر کوارٹر بننے کے بعد اس میں شفٹ ہوئے اور بعد ازاں اہلیہ بھی بڑی بیٹی کے ہمراہ 1948 میں کراچی آگئیں۔
محب عارفی صاحب کے بڑے صاحبزادے جناب محبوب حبیبی صاحب نے جو کہ میرے بہت ہی اچھے دوست ہیں۔میری فرمائش پر اس مضمون میں اپنا حصہ ڈالا ہے جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔لیجئیے بیٹے کی زبانی باپ کی روداد سے لطف اندوز ہوں۔
والد گرامی (محب الللہ صاحب) نے اپنا شاعرانہ نام محب عارفی اپنے شاعری کے استاد بجنور کے جناب شاد عارفی کی نسبت سے رکھا۔ شاد عارفی ایک نہایت اعلی درجے کے شاعر تھے
والد صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول علی گڑھ اور پھر گریجویشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کی اور دہلی میں انگریز کی حکومت میں ملازم ہوئے۔ اس کے بعد چونکہ مکان صرف فیملی رکھنے والے کو ملتا تھا تو ان کی شادی دادا کی مرضی سے دادا کے پیر حضرت آسی غازی پوری کی پوتی غوثیہ بی بی سے طے پائی اور آٹھ فروری 1946 کو شادی منعقد ہوئی۔
محب صاحب پاکستان بنتے ہی خود Opt کرکے اگست 1947 میں کراچی آگئے تھے۔
شاعری کی “لت” انھیں اگرچہ علی گڑھ ہی سے پڑ چکی تھی جو شملہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ پروان چڑھی جہاں انکے انتہائی عزیز اور لائق دوست شفیع منصور ملے جنکے ساتھ انکا تعلق آخر دم تک رہا، اگرچہ وہ پنڈی میں مقیم رہے۔
ایک اور دوست جن سے انکی دوستی زمانہ طالبعلمی یعنی علی گڑھ سے ہوئ جناب تصدق احمد خان صاحب جو آخر دم تک اپنی پوری فیملی کے ساتھ ولد گرامی اور ہم سب سے دوستانہ مراسم میں رہے۔ انکی دوستانہ مراسم اپنی عزیزوں سے بڑھ کر ہوتے تھے۔
کراچی میں انکی ادبی سرگرمیوں کا آغاز جہانگیر کوارٹر سے ہوا جہاں ہر ہفتے کی شام ایک محفل جمتی تھی۔ یہی محفل وہ تھی جس کی میزبانی کا شرف بچپن سے مجھے ملا اور جس کے لئے گھر میں چائے اور ناشتے کا بندوبست والدہ صاحبہ غوثیہ بی بی آخر دم تک 2001 تک کرتی رہیں
یہ محفل دارالحکومت کی پنڈی اور پھر اسلام آباد کی منتقلی کے ساتھ ساتھ وہیں چلی گئی اور 1976 میں کراچی واپسی پر عزیز آباد کراچی واپس آگئی جہاں والد گرامی دو جنوری 1979 کو ریٹائر ہوئے لیکن محفل اپنی روایات کے ساتھ امی کے انتقال یعنی اکتوبر 2001 تک چلتی رہی۔
اس محفل کے روح رواں لوگوں میں جناب رئیس فروغ، احمد حمدانی، مجید شاہد، شیدا گجراتی شفیع منصور(پنڈی)، توصیف تبسم(پنڈی) ظہیر فتح پوری (پنڈی) ، یوسف ظفر (پنڈی) ، مسٹر دہلوی، نظم اکبر آبادی (پنڈی)، پروفیسر جعفر، کے نام میرے ذہن میں ہیں۔
اس محفل کو جن مشاہیر نے زینت بخشی ان میں جناب جوش ملیح آبادی نے کراچی جہانگیر روڈ پر، ناصر کاظمی اور فیض احمد فیض صاحبان نے پنڈی میں اورکئی بار دیگر شعر آئے کرام جن میں انور مسعود (پنڈی)، امجد اسلام امجد وغیرہ نے اپنی نوجوانی کے ایام میں۔ کراچی میں نصیر ترابی اور شان الحق حقی صاحبان کئی بار تشریف لائے۔
والد گرامی کو فلسفے کا شوق زمانہ طالبعلمی سے علی گڑھ میں ہوا۔ انھوں نے پورپ کے تمام بنیادی فلسفی واں کانٹ سے لے کر برٹرینڈ رسل تک کا مطالعہ سمجھ کر کیا۔ میرے علم میں ان جیسی گیرائی اور وسیع مطالعہ رکھنے والی شخصیت کوئی نہیں۔ یہ بات میں بغیر کسی تعصب کے کہ وہ میرے والد تھے کہہ رہا ہوں۔ انکی لائبریری میں دنیا جہاں کی بنیادی فلسفے اور شاعری کی کتب موجود تھیں جو شاید حفیظ حبیبی (میرے چھوٹے بھائی) کے پاس ہوں۔
باوجود اس کے کہ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر طوالت سے گریز کرتے ہوئے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ محب عارفی صاحب کی شخصیت۔شاعری اور علمی و ادبی خدمات کے لحاظ سے کسی تعارف کی محتاج نہی ہے لیکن مکمل احاطہ کرنا بھی مجھ طفل مکتب کے بس کی بات نہیں۔
دعا ہے کہ ان کی شفقت و محبت کا کچھ حق ادا ہوگیا ہو۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ محب صاحب اور ان کی اہلیہ مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور پزیرائ بخشے۔آمین ثمہ آمین