جسٹس وقار احمد سیٹھ میں شرمندہ ہوں آپ کے شایان شان الفاظ میرے حافظے میں محفوظ نہیں ، میں نہ فردوسی نہ سعدی نہ حافظ شیرازی نہ اسد اللہ خاں غالب نہ استاد ذوق کہ آپ کی شان میں قصیدہ لکھتا، میں نہ مختار مسعود، نہ عبداللہ حسین نہ اسد محمد خاں نہ خواجہ حسن نظامی، نہ ڈپٹی نذیر احمد کہ آپ کی شان میں کوئی نثرپارہ تخلیق کرتا، میں تو الطاف حسین حالی جیسا قلم بھی نہی رکھتا کہ سرسید احمد خاں کی طرح آپ کو مصلح بتاتا،میری زبان میں عطا اللہ شاہ بخاری، نواب بہادر یار جنگ، شورش کاشمیری، ظفر علی خاں، یا دیگر احراریوں کی طرح تاثیر بھی نہی کہ رات بھر آپکی شان میں تقریر کرتا خود بھی روتا لوگوں کو بھی رلاتا۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ آپ نے ہم کو جینے کی امنگ دی آپنے ہم خستہ تنوں اور بے حال پاکستانیوں کو اس اعتماد سے نوازا کہ انصاف کی ایک کرن موجود ہے، ہماری 70 برسوں کی تاریخ عدل ، جو بےبسی اور اشاروں پر فیصلہ دینے سے بھری ہے ان فیصلوں کو دیکھ کر کراہیت آتی ہے ، وہ عدلیہ ک جس کا رخ جسٹس منیر نے پہلے دن غلامی کی طرف موڑ دیا ہو جہاں منتخب وزیر اعظم کو عدالتی حکم پر قتل کیا جاتا ہو جہاں منتخب حکومتوں کو سائیکلو اسٹائل آڈر سے برطرف کردیا جاتا ہو، جہاں آئین توڑنے والے محفوظ اور محب وطن ہوں، اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں آپ نے آزادی کا جوہر دکھایا آپ نے حریت فکر، جرات مندی اور آمریت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر سکھایا آپ نے ایک آئین شکن آمر کو عبرت ناک سزا سنا کر ہم پاکستانیوں کے دل میں یہ جوت جگائی ہے کہ ہم بھی جمہوریت کا، آزادی فکر، کا آئینی حکومت کا خواب دیکھ سکتے ہیں،
شکریہ جسٹس وقار سیٹھ آپ تو چلے گئے لیکن آپ ہر جمہوریت پسند، آئین اور آئینی حکومت کو پسند کرنے والے اور آمریت سے نفرت کرنے والے کے دلوں میں رہیں گے ۔