سالہا سال سے بین الاقوامی طور پر متنازع ریاست جموں و کشمیر میں، گلگت بلتستان کا مسئلہ جمہوری و دستوری حقوق اور پاکستان میں اس کی آزادانہ دستوری شمولیت ایک اور گھمبیر سوال بنا ہوا ہے، جس کی بظاہر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ 72 سالوں سے پاکستان کے زیر انتظام ہونے کے باوجود یہ خطہ بنیادی حقوق اور دستوری حقوق کے لئے کیوں کراہتا رہا۔
گلگت اور بلتستان کے مایہ ناز سکاوٹس اور عوام نے پاکستان اور ہندوستان کے قیام اور آزادی ، ہندوستان پر برطانوی انتداب کے خاتمہ کے بعد یکم نومبر 1947 گلگت اور 1948 میں بلتستان کو مہاراجہ کشمیر سے زبردست قربانیاں دے کر آزاد کیا تھا، آزاد اسلامی جمہوریہ گلگت کا اعلان کیا گیا تھا اور ادھر سرینگر پر ہندوستانی ہوائی اور خشکی حملے اور تسلط کودیکھ کر پاکستان سے الحاق بھی کیاتھا۔
گلگت اسکاوٹس اور عوام نےجذبہ حریت قومی و اسلامی سے اکیلے وہ کام کیاتھا، جو کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ اگر اس وقت نوزائیدہ آزاد کشمیر اور خطہ گلگت و بلتستان میں باہمی تعاون ہوتا یا آگے چل کر دونوں علاقوں کے سرکردہ رہنماؤں میں پاکستان کی سربراہی اور مشاورت میں قربت پیدا ہوگئ ہوتی تو شاید نہ کشمیر کا المیہ پیش آتا اور نہ بنیادی جمہوری اور دستوری حقوق کے لئے اس خطے کو طویل مدت تک پاپڑ بیلنے پڑتے۔ پاکستان اور کشمیر یہ مانتے ہیں اور خود جی۔بی۔والے بھی کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان 1947 میں بیرونی تسلط سے آزاد ہوا تھا۔جو علاقہ کسی سامراجی تسلط سے 1947 میں آزاد ہوکر اپنی آزادی کے 73 سال گزار چکا ہے، وہ کیوں آج تک جمہوری حقوق کے لئے ترستا رہا۔ یہ کیسی آزادی یا یہ کیسا الحاق پاکستان تھا کہ اس پر نصف صدی تک سروں پر ایف۔آر۔سی، کی تلوار لٹکتی رہی۔ قومی آزادی کے بعد دستوری یا بنیادی حقوق کیوں نہیں ملے۔ یہ ایک تعجب انگیز اور تشویش ناک معاملہ ہے،جس کو آج تک حل نہیں کیا گیا۔
آج اس کا حل یہ نکالا جارہا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا جائے اور پاکستان ایک عارضی صوبہ بنانے کے حق میں ہے۔جبکہ وزیراعظم عمران خان نے یکم نومبر 2020 کو گلگت کے ایک عوامی الیکشن جلسے میں اس کا اعلان بھی کردیا، حالانکہ اس کی راہ میں بڑے آئینی اور سیاسی مسئلے حائل ہیں۔ تینوں پاکستانی جماعتوں ۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی، نے صوبے کانعرہ دے کر لنگوٹے کس لئے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی آبادی 1کروڑ 30 لاکھ ہوگی، جس میں سب سے بڑی آبادی اور رقبہ یعنی دو تہائی ہندوستان کے جابرانہ اور غیرقانونی تسلط میں ہے۔گلگت بلتستان کی آبادی 15 لاکھ سے زیادہ ہوگی اور اس کا رقبہ28174مربع میل یا 72971 کلومیٹر ہے۔ اور پورا خطہ1947میں اقوام متحدہ میں کشمیر کے ساتھ زیر غور آیا ہے اور نہ صرف تاریخی ،جغرافیائی اور سپلائی امور کے حوالے سے بلکہ رائے شماری کی قراردادوں کا حصہ ہے۔
یہ ہندوستان کے دیگر 562 راجواڑوں کی طرح کوئی الگ راجواڑہ نہ تھا، جو ریاست جموں و کشمیر سے بالا بالا کوئی حتمی فیصلہ کردیتا۔ خود حکومت پاکستان نے 1948 میں سلامتی کونسل میں اس کا کشمیر کے ساتھ ذکر کیا تھا۔ جبکہ چترال نے 1896 میں راجواڑے کی شکل اختیار کی تھی اور مالا کنڈ ایجنسی کو اختیارات مل گئے تھے۔ ورنہ وہ بھی اس ریاست کا حصہ تھا۔ گلگت ایجنسی کے بارے میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی اور وہ کوئی راجواڑہ نہیں بنا تھا۔
موجودہ حالات میں تاریخ کو نظرانداز کر کے نئے فیصلے کر نے سے پاکستان کے سر پر ایک سنگین امتحان کھڑا ہوسکتا ہے کیونکہ ہندوستان نے جموں اور کشمیر کو یونین ٹرٹری بنادیا، لداخ جو ایک شمالی ضلع تھا اس کو بھی انڈین یونین میں ملادیا۔اس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے سرتابی کی اور شملہ پیکٹ کے دو طرفہ معاہدے کو بھی بالائے طاق رکھا۔اس نے دیکھ لیا کہ کسی نے اس کا کچھ نہ بگاڑا اور وہ کشمیر میں زیادہ سے زیادہ خونریزی می بھی بے لگام ہوگیا۔
ان حالات میں اگر گلگت بلتستان ، پاکستان کا شمالی صوبہ بن جاتا ہے۔ وادی کشمیر اور جموں کے مسلمانوں کی صدائے آزادی صحرا میں تحلیل ہو جائےگی۔پاکستان کی بین الاقوامی وکالت کی سبکی ہوگی اور دوست ممالک بھی پیچھے ہٹیں گے۔ ہندوستان مقبوضہ علاقے میں مزاحمتی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گا اور منقولہ و غیر منقولہ جائداد پر ہندوستانی باشندے نئی سندوں کے ساتھ قابض ہوکر زمینی نقشہ تہ و بالا کردیں گے۔یقین ہے کہ اللہ ان لوگوں سے سختی کے ساتھ پوچھیں گے جنہوں نے یہ مواقع فراہم کردیے۔ قادر مطلق مالک کائنات کے ہاں دیر ہے، جس کو اجل کہتے ہیں لیکن اندھیر نہیں۔ اگر سی پیک کو ِخطہ کشمیر اور اس کی peripheries سے گزرنا ہے تو اس کا فائدہ آزادی کی تحریک کو بھی ہونا چاہئے
اس لئے پاکستان کی قومی جماعتیں اور فارین پالیسی ادارے اس صورت حال پر اپنے لائحہ عمل کا جائزہ لیں اور کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو کشمیر کی مزاحمت پسند قوم کو جو ہندوستان کے خلاف بر سر پیکار ہے، اسی کے رحم و کرم پر نہ ڈالے۔ ہم گلگت بلتستان کے لئےمکمل جمہوری اور دستوری حقوق کے حق میں ہیں اور پاکستان کے مقتدر اور اپوزیشن اداروں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کو تمام جمہوری اور آئینی حقوق دیں جو پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں، اداروں اور عوام کو حاصل ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں، ادارے اور مقننہ بات چیت کے ذریعے ایک قابل عمل اور تسلی بخش حل نکالیں اور کشمیر کی مزاحمتی تحریک کی حوصلہ افزائی کریں۔ بلکہ تحریک آزادی کی کامیابی کے امکانات زیادہ سے زیدہ روشن کریں۔دنیا کو یہ کہنے کا موقعہ نہیں دیا جانا چاہئے کہ کشمیری تنہا چھوڑ دئے گئے اور جموں و کشمیر کی ریاست کی بندر بانٹ مکمل کردی گئی۔
جنت نما آشیانے کو بچائیں
اس پر بجلیاں نہ گرائیں!!