ڈاکٹرآصف اسلم فرخی کے منفردادبی کتابی سلسلہ ”دنیازاد“ کاالوداعی 49واں شمارہ ”وبانمبر“کی صورت میں شائع ہواہے۔آصف فرخی یکم جون کواچانک انتقال کرگئے۔ادبی حلقے،قارئین اوران کے چاہنے والوں کواب تک ان کے انتقال کایقین کرنادشوارہے۔انہوں نے بے شمارکتابیں لکھیں جن میں افسانہ،سفرنامہ،تنقید،تراجم شامل ہیں۔کئی انتھولوجیزمرتب کیں۔بیس سال قبل آصف فرخی نے پبلشنگ کاادارہ ”شہرزاد“ قائم کیااوراس کے تحت ہرموضوع پرادب کی بہترین کتب شائع کیں۔ڈاکٹرشیرشاہ سیدکے افسانوں کے مجموعے،شمس الرحمٰن فاروقی کے شہرہ آفاق ناول”کئی چاند تھے سرآسماں،ڈاکٹرحسن منظرکے ناول اورافسانے،اکبرمعصوم، شعراء کے مجموعے بھی شہرزادنے چھاپے۔
شہززادکے ساتھ آصف فرخی نے منفردکتابی سلسلہ”دنیازاد“ کابھی اجراء کیا۔جس میں اردواورپاکستان کی علاقائی زبانوں کے ساتھ عالمی ادب کے بہترین تحریروں کاشائع کیاگیا۔”دنیازاد“نے ہراہم واقعے کے بعداس کے کئی شاندارخصوصی شمارے شائع کیے۔جن میں ”بغدادبغدادہے“،”عاشق من الفلسطین“ اور”دنیادنیادہشت ہے“جیسے ضخیم نمبرزہمیشہ حوالاجاتی حیثیت سے یادرکھے جائیں گے۔ کتابی سلسلہ کے ہرشمارے کوکوئی عنوان دیاجاتاتھا۔اپنی بے پناہ مصروفیات کے پیش نظروہ دنیازاد کوبندکرنے کافیصلہ کرچکے تھے۔ اڑتالیسویں شمارے کو”کتاب الوداع“ کاعنوان دیا اردو اورعالمی ادب کے مرحومین فہمیدہ ریاض،خالدہ حسین،الطاف فاطمہ سے منسوب کیاگیا۔ فروری میں کرونا وبا کے پھیلاؤکے بعد انہوں نے ”وبانمبر“پر کام شروع کردیا اوریکم جون کواپنے انتقال تک وہ یہ غیرمعمولی شمارہ مرتب کرچکے تھے۔جسے ان کی صاحبزادی غزل آصف فرخی نے شائع کیا ہے۔اس طرح ادبی دنیاکویہ آصف فرخی کاالوداعی تحفہ ہے۔
غزل آصف فرخی نے پیش لفظ میں اس شمارے کی تیاری اورمشمولات کی پوری داستان بیان کی ہے۔”دنیازاد“ کا49واں شمارہ حاضر خدمت ہے۔ دنیا زاد کتابی سلسلہ دودہائیوں سے ایک موقرجرید ے کی حیثیت سے آپ کے سامنے پیش ہوتارہاہے، جومیرے ابوآصف فرخی کی تن تنہاعرق ریزی اورمحنت کاثمرہے۔حسبِ روایت اس سال کے اوائل میں انہوں نے اس شمارے پرکام کاآغازکیا۔یہ وہ وقت تھاجب کروناوائرس کی عالمگیروبانے دنیابھرمیں اپنے خون آشام پنجے گاڑنے شروع کردیئے تھے،اورپاکستان بھی ان پنجوں کی گرفت میں آچکاتھا۔1999ء سے دنیازاد کی روایت رہی ہے کہ بعض شمارے مخصوص اوراہم موضوعات کے لیے مختص کئے جاتے رہے ہیں،لہٰذااس مناسبت سے شمارے کو ”وبانمبر“قراردیاگیا۔اس وباکوبے مثال پیڈیمک کادرجہ تومل ہی چکاتھااورابومختلف سطحوں پردنیاپرآنے والی اس ناگہانی آفت کے مضمراثرات دنیابھرکے ادب کی روشنی میں بہتر طور پرسمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔
اس شمارے کی تیاری ان کی کثیرالجہت کاوشوں میں سے ایک ہے۔کراچی میں جب وباکے پھیلاؤکو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن یاتالہ بندی کانفاذکیاگیا،تب تالہ بندی کے نتیجے میں گزرنے والے شب وروزاورانسانی ذہن پراس کے اثرات کی اہمیت کے پیش ِ نظرانہوں نے روزنامچوں کی صنف کوشمارے میں خاص اہمیت کے ساتھ شامل کرنے کافیصلہ کیا۔اسی زمانے میں ”تالہ بندی کاروزنامچہ“ کے نام سے انہوں نے ایک ’وی لاگ‘ کاسلسلہ شروع کیاتھا۔لیکن اس شمارے کی تحاریرروزنامچوں تک محدود نہیں ہیں۔اس کے دیگرحصوں میں ابونے عالمی ادب سے ایسی کیفیات پرموجود تازہ مواد کا انتخاب شامل کیاہے جس کی روشنی میں اس نئی وبااور اس کی ہولناکی کوبہترطور پرسمجھاجاسکے۔اس کے علاوہ انہوں نے پرانی یاتصوراتی وباؤں کے تناظر میں لکھی گئی تحریروں کوبھی تلاش کیا جوزمانہ ِ گزشتہ میں بیماری،اسیری،خوف وہراس کااحاطہ کرتی ہیں۔
ان منتخب تحریروں میں اردوکے علاوہ دوسری زبانوں کے ادبی شہ پارے بھی شامل تھے،جن کے تراجم کاخاص اہتمام کیاگیا۔لیکن میرے پیارے ابوکی زندگی نے وفانہ کی۔ابھی دل اس حقیقت کوقبول نہیں کرسکاہے اوراس جملے کولکھتے ہوئے ہاتھ کانپتاہے۔مگرمشیتِ ایزدی کے آگے سرجھکانے کے سواچارہ بھی کیاہے۔یکم جون کادن ابوکوہم سب سے بہت دورلے گیا۔ان کی اچانک وفات نے ان کوکچھ مہلت نہیں دی اوروہ اپنے کام مکمل نہ کرسکے میرے ابوکی ہمہ جہت شخصیت،ان کاعلم وفن،ان کے کام کامعیاراوراس پران کاپوراعبور،اوراس کے علاوہ پبلک ہیلتھ کی تربیت وتجربہ،وہ تمام عوامل تھے جن سے وہ یقینا ایک شاندار’وبانمبر‘ نکالتے،جودنیازاد کے پچھلے شماروں کی روایت کوآگے بڑھاتا۔گومیں اس قابل تونہیں،لیکن بحیثیت ایک بیٹی کے میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنی بساط بھرکوشش سے اس شمارے کوجس کی ترتیب وتدوین میرے والد کی مرہون منت ہے،اس کومنظرعام پرلاؤں۔
اس شمارے میں موجود تمام موادمئی کے آخری دنوں اپنی حتمی شکل میں آچکاتھا۔ابونے اپنے ذہن میں شمارے کی ضخامت تین سو صفحات تک سوچ رکھی تھی،لیکن خوب سے خوب ترکی تلاش میں آخر تک کئی ادیبوں سے ان کافرمائش کاسلسلہ جاری تھا جن میں کچھ تراجم کی فرمایشیں بھی شامل تھیں۔بطورایڈیٹراس رسالے کے لیے ابوکامعیارہمیشہ بلند رہتاتھا،اس لیے بھیجی گئی ہرتحریرر،یہاں تک کہ بطورفرمایش لکھوائی گئی چیزیں بھی شامل ہونے سے رہ جاتی تھیں۔ان کے جانے کے بعد موصول ہونے والی تحریروں کوان کے معیارپردیکھنامیرے لیے ممکن نہ تھا۔لہٰذا جوتحریران کی نظرسے نہیں گزرسکی اس کوہم نے شامل نہیں کیاہے۔اسی طرح جس تحریرکووہ شامل کرچکے تھے،اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔یہاں تک کہ رسالے کاسرورق بھی ابوکاہی انتخاب ہے،انہوں نے کمپیوٹرمیں محفوظ کیاہواتھا۔میں نے اوران لوگوں نے جنہوں نے اس سلسلے میں میری مدد کی ہے،اس بات کاخیال رکھنے کی پوری کوشش کی ہے کہ مواد میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ ہواور رسالے کی تدوین سابق رسالوں کی روایت برقرار رکھ سکے۔“
”دنیازادوبانمبر“ میں ایک روایت قائم نہ رہ سکی۔وہ ہے”محفل“جس میں آصف فرخی شمارے کابھرپورتعارف کراتے تھے اوراس کے مشمولات اورمصنفین کے تازہ کام سے بھی قارئین کوآگا ہ کرتے تھے۔وہ یہ کام ہمیشہ سب سے آخر میں کرتے تھے۔ان کے کاغذات میں کچھ نوٹس اس حوالے سے موجودتھے۔مگروہ نامکمل اورناکافی تھے،ابھی ان کوایک مضمون کی شکل اختیارکرنا تھی۔کسی اورسے ان خالی صفحات کوپُرکروانے کے بجائے اس شمارے میں محفل کے چارصفحات سادہ رکھے گئے ہیں۔کیونکہ محفل سجانے والا ہم سے بچھڑگیاہے۔ان کی جگہ کوئی نہیں پوری کرسکتا۔عرفان خان،ڈاکٹرشیرشاہ سید،انعام ندیم،فرخ اقبال اورطارق فضلی نے اس شمارے کی تیاری اوراشاعت میں بھرپورمعاونت کی۔کیاہی اچھاہواگریہ صاحبان محترم آصف فرخی کے اس یادگارکتابی سلسلے کوجاری رکھنے میں بھی کامیاب ہوں۔
ڈاکٹرآصف اسلم فرخی کی شخصیت کے گوناگوں پہلوتھے۔وہ پبلک ہیلتھ کے ماہرڈاکٹر،مصنف،مترجم،سفرنامہ وافسانہ نگار،نقاد،مدیر،پبلشر اور استادتھے۔انہوں نے انگریزی اورسندھی سے اردو اور اردوسے انگریزی اورسندھی میں بے شمارتراجم کیے۔ڈاؤ یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا،اورہاروڈسٹی سے ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔وہ 1985ء سے 1993ء تک آغاخان یونیورسٹی کی پبلک ہیلتھ سروس سے وابستہ رہے۔1994 ء سے 2014ء تک اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے ہیلتھ اورنیوٹریشن پروگرام آفیسررہے۔2014ء میں انہوں نے حبیب یونیورسٹی کوایسوسی ایٹ پروفیسرکی حیثیت سے جوائن کیا۔علم وادب اورصحت کے شعبے میں بے پناہ خدمات کے اعتراف میں 1995ء میں حکومت نے انہیں صدارتی اعزاز”پرائڈآف پرفارمنس“ سے نوازا۔2006ء میں انہیں تمغہ امتیازدیاگیا۔آصف فرخی کودیے جانے سے ان اعزازات کی وقعت میں اضافہ ہوا۔
آصف فرخی کاتعلق ایک علمی اورادبی خانوادے سے تھا۔والدڈاکٹراسلم فرخی کراچی یونیورسٹی میں شعبہ اردوکے سربراہ اورکئی کتابوں میں مصنف اورمرتب تھے۔والدہ ڈپٹی نذیراحمدکی پڑپوتی اورشاہداحمددہلوی کی بھتیجی ہیں۔ڈاکٹرآصف فرخی کی مطبوعہ کتب میں افسانوں کے مجمو عے”میرے دن گزررہے ہیں“،”شہربیتی“،”شہرماجرہ“میں شاخ سے کیوں ٹوٹا“،”آتش فشاں پرکھلے گلاب“،”چیزیں اورلوگ“،”اسم اعظم کی تلاش“،ایک آدمی کی کمی“ اورسمندرکی چوری“تنقیدی کتب میں ”عالم ایجاد“،”نگاہِ آئینہ ساز“اوران کی آخری کتاب”ایک کہانی نئے مضمون کی“ شامل ہیں۔برلن کاسفراورقیام نامہ”شہرعلامات“کے نام سے لکھا۔ممتازشیریں کے تنقیدی مضامین”منٹونوری نہ ناری“ فسادات کے افسانے”ظلمتِ نیم روز“،”منٹوکاآدمی نامہ“انتظارحسین کی شخصیت اورفن پر”چراغِ شب افسانہ“کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے۔انہوں نے آئن ریڈ،ہرمن ہیس،گریش کرناڈ،ستیہ جیت رائے،ساتوکی زاکی،عمرریوبیلا،نجیب محفوظ،اردن دھتی رائے اور رفیق شامی سمیت بے شمارعالمی ادیبوں کی تخلیقات کے انگریزی سے تراجم کیے۔غرض ان کاوسیع کام کسی ایک مضمون میں سمیٹناممکن نہیں۔
”دنیازادوبانمبر“کاپہلامضمون ”کوروناوائرس کے بعدکی دنیا“یووال نوح ہریری کاہے،جس کاترجمہ سعیدنقوی نے کیاہے۔انہوں نے وائرس کے اس دورکالائحہ عمل پیش کردیاہے۔”انسانیت کو اس وقت ایک عالمی بحران کاسامناہے۔شایدہماری نسل کاسب سے بڑا بحران۔ آئندہ چندہفتوں میں افراد اورحکومتیں جوفیصلے کریں گے وہ آنے والے سالوں میں دنیاکارویہ بدل دیں۔وہ نہ صرف ہمارے نظام صحت کو دوبارہ مرتب کریں بلکہ ہماری اقتصادیات،سیاست اورمعا شرت کوبھی۔ہمیں فوری اورفیصلہ کن قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے اقدامات کے طویل المدت اوراثرات پربھی نظررکھناچاہیے۔ہمیں خود سے پوچھناچاہیے کہ نہ صرف اس فوری خطرے کاکیسے سدباب کریں بلکہ اس طوفان کے گزرجانے کے بعدہم کیسی دنیامیں رہنا پسندکریں گے۔یہ طوفان گزرجانے کے بعدبھی یقینا نسل انسانی برقرار رہے گی،لیکن ہم ایک بہت مختلف دنیامیں ہوں گے۔بہت مختصر مدت کی ایمرجنسی عملیات زندگی کاحصہ بن جائیں گی۔ایمرجنسی کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے۔وہ تاریخی عمل کوتیزکردیتی ہے۔وہ فیصلے جوعام حالات میں سالوں کی سوچ بچارکے طالب ہوں،چندساعتوں میں کرلیے جاتے ہیں۔خام اورممکنہ طور پرخطرناک ٹیکنالوجی بھی اپنالی جاتی ہیں،کیونکہ بے عملی کاخطرہ زیادہ بڑاہوتاہے۔“
فرح ضیاکے مختصرمضمون”دنیامیں کچھ گڑبڑہے“ میں کروناکے دوران زندگی کوکچھ یوں پیش کیاہے۔”یہ کسی خواب جیساہے،یوں لگتاہے کہ ہم کسی افسانوی جگہ پرزندگی بسرکررہے ہوں۔یہاں چیزیں کسی کے تخیل کے مطابق وقوع پذیرہوتی دکھائی دیتی ہیں۔شہری زندگی کاطرہ امتیازسمجھاجانے والالامنتہاہی شوراب کسی پراسرارخاموشی میں بدل چکاہے۔وہ شہر،جویوں لگتاتھاکسی بھاری بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اچانک خالی پن سے بھرگئے ہیں۔طویل عرصے بعدگھروں کے اندرافرادخانہ یکجاہوئے ہے۔اگرکوئی شخص سڑک پراس طرح چلتادکھائی دے جائے جیسے سب کچھ معمول کے مطابق ہے تویہ اسے بڑی ناگواری اورغصے سے دیکھتے ہیں۔فرصت کی جن گھڑیوں کوانسان ترستے تھے اب اس کاایک عمیق سمندرانہیں دستیاب ہوچکاہے۔اب توانہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنی اس فرصت کاکیاکریں۔کیونکہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔افراد،روزگاراورزندگی کوعالمی سطح پرجبری لاک ڈاؤن کاسامناکرنا پڑرہاہے۔انسان بیماری کے ہاتھوں لاچارہوکرزندگی کی بازی ہاررہے ہیں۔اب ہرکسی کوہرکسی سے خطرہ ہے اورنجات صرف اس میں ہے کہ آپ خود کوایک چاردیواری کے اندرمقیدکرلیں اور اس کابھی کیایقین کہ یہ چاردیواریاں بھی محفوظ ہیں یانہیں۔“
افسانہ وکالم نگارمسعوداشعرنے ”وباکے دنوں میں ایک دن کاروزنامچہ“ میں سیدقاسم جعفری کے دوحسب حال اشعاردرج کیے ہیں۔
غم کی راتیں ہیں، فنا کے دن ہیں گریہ و آہ و بکا کے دن ہیں
تم تو پہلے ہی نہیں ملتے تھے اور پھر اب تو وباکے دن ہیں
مسعوداشعرلکھتے ہیں۔”اکادمی ادبیات نے پاکستان کے شاعروں سے کہاہے کہ اس وبا پرنظمیں اورغزلیں لکھو۔بہترین تخلیق پرانعام دیاجائے گا۔اپنے آصف فرخی افسانہ نگاروں کوبھی اس وباپرلکھنے کے لیے اکسارہے ہیں۔ہم نے تویہ دیکھاہے کہ جوافسانے نائن الیون اوردہشت گردی پرلکھے گئے وہ فکشن کم تھے اورفیکشن زیادہ۔اورفیکشن کبھی فکشن نہیں ہوسکتا۔“
سیدکاشف رضانے مارگریٹ ایٹ ووڈکی تحریرکا ”سب سے اچھاوقت،سب سے بُراوقت“کے عنوان سے ترجمہ کیاہے۔”ہم سب ایسے ہی سوارہیں۔خوفزدہ کردینے والاکروناوائرس ہمارا پیچھا کررہاہے۔ہم اس امیدمیں فضا میں بلندہوچکے ہیں کہ ہم دوسری جانب پہنچ جائیں گے جہاں زندگی اس جانب واپس آچکی ہوگی جسے ہم نارمل یامعمول خیال کرتے ہیں۔اب جب کہ ہم فضا میں بلند ہیں توہم کیاکریں۔ اب اورتب کے درمیان کیاکریں؟ آرٹ کے ذریعے ہم انسانیت کے تمام پہلوؤں کااظہارکرتے ہیں۔ہم انسانی فطرت کی گہرائیوں تک اتراوراس کی اونچائیوں تک بلندہوسکتے ہیں اوراس درمیان جوکچھ آتاہے اسے دیکھ سکتے ہیں۔
تھیٹر،موسیقی،رقص،فیسٹیول،گیلریاں ان سب کواپنے شومنسوخ کرنے پڑے ہیں۔ان سب کونقصان پہنچاہے۔اگرناظرین نہیں ہوں گے توبالآخرکوئی آرٹ بھی نہیں ہوگا۔“
اولگاتوکارچُل کے”کھڑکی سے ایک نئی دنیاکانظارہ“ کاترجمہ نجم الدین احمد نے کیاہے۔”زندگی کسی نہ کسی طوررواں رہتی ہے۔لیکن کاملاً ایک مختلف ردھم میں۔میرے بچپن کے تصورات اپنی آمدجاری رکھتے ہیں۔تب بہت وقت ہواکرتاتھا،اوراسے ضائع اورہلاک کرناممکن تھا۔گھنٹوں کھڑی سے باہرتکتے رہنا،چونٹیوں کامشاہدہ کرنا،یامیزکے نیچے لیٹ کراسے سفینہ تصورکرنا،کہیں یہ تونہیں ہواکہ ہم زندگی کے نار مل ردھم کی طرف لوٹ آئے ہیں؟ کہیں ایساتونہیں کہ وائرس طرزِعمل کاخلل بلکہ یکسرپلٹاؤ ہے۔وائرس نے ہمیں،آخرکار،وہ شے یاد دلا دی جس کاہم نہایت شدومدسے انکارکرتے آرہے تھے،یعنی ہم فانی ہیں۔یہ کہ ہم اپنی انسانیت کی بناپرباقی دنیاسے الگ نہیں۔اس بات سے قطع نظرکہ ہم ایک دوسرے سے کتنے بعید واقع ممالک میں رہتے ہیں ہمیں یکساں بیماریاں لگتی ہیں،ہمارے خوف یکساں ہیں،ہماری موت یکساں ہے۔“
اورحان پامک کے مضمون ”وباکے ناول ہمیں کیاسکھاتے ہیں“ کاترجمہ شہلانقوی نے کیاہے۔لکھتے ہیں۔”انسانی تاریخ اورادب میں وباؤں کے تذکرے میں جومماثلت دکھائی دیتی ہے وہ ان کے پیداکرنے والے جرثوموں اوروائرس کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ ہمارارویہ ہردفعہ ایک سا رہاہے۔ہماراپہلااقدام ہمیشہ اس سانحے کی تردیدکرنارہاہے،ذمہ دارچاہے قومی حکومتیں ہوں یاعلاقائی وہ ابتدائی اقدامات میں دیرلگاتی ہیں،حقیقت کوتوڑمروڑ کرپیش کرتی ہیں اوراعدادوشمارمیں من مانی تحریف کرکے وباکی موجودگی سے انکارکرتی ہیں۔متعدی امراض اوران کے ضمن میں انسانی طرزِعمل پرڈینیل ڈیفوکی تحریرکردہ”تذکرہ وباکے سال کا“ سے بہترشایدہی کوی تحریرہو۔“
تمام مصنفین نے اپنے اپنے انداز میں وبااس کے اثرات کاتذکرہ اوراس کے مضمرات کوپیش کیاہے۔ انتظارحسین ”نقارخانے میں طوطی کی آوازمیں“ لکھتے ہیں۔’مولوی حضرات جس طرح خلقت کوخداکی یاددلاتے ہیں کہ لوگو،یہ تمہارے اعمال،تمہارے سامنے آرہے ہیں۔تم نے جوگناہ کیے ہیں،یہ اس کی سزا ہے۔سوخداکی قہرسے ڈرواورتوبہ واستغفارکرو۔لیکن پہلے بھی وبال غریب غرباپرپڑاتھا۔وہی گھرسے بے گھرہوئے تھے۔وہی بھوکے ننگے پریشان حال مارے مارے پھرتے نظرآتے تھے۔اب بھی یہی نقشہ ہے کہ موسلادھاربارشوں میں ان کے کچے پکے گھرڈھے گئے،نہیں ڈھے توپانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔“
انتظارحسین کی تحریر کے مطابق موجودہ وبا سے بھی سب سے زیادہ مفلوک الحال افراد ہی متاثرہوئے ہیں۔”وبانمبر“ کااہم حصہ افسانوں اور تراجم کاہے۔جس میں نورالہدیٰ شاہ کا”المیہ“،محمدحمیدشاہد کی تین تحریریں ”وبا،بارش اوربندش“،”وباکے دنوں میں اپنامختیارا“ اور”کورونا اورقرنطینہ“ ناصرعباس نیرکا”مرگ عام نعمت ہے“ ذکیہ مشہدی کے ”آج کی امراؤ“ اور”نورجہاں“ ڈاکٹرفاطمہ حسن کے ”مکرکرنے والے‘‘اور”کہانی ایک سفرکی“اورشہلانقوی کا”ایک تنہادن“ شامل ہیں۔شاعری میں منیب الرحمٰن،کشورناہید،ڈاکٹرفاطمہ حسن،تنویرانجم،سلمان ثروت کی تخلیقات اورمختلف زبانوں سے دانیال شیرازی،تنویرانجم،انعام ندیم اورآصف فرخی کے تراجم شامل ہیں۔ندیم اقبال نے گونیکیلو ایم ٹیورس کے”وباکے دنوں کاروزنامچہ“کاترجمہ کیاہے۔عثمان قاضی ”کووڈ19ڈائری“، انیس ہارون”ڈائری“ کے ساتھ موجود ہیں۔
آخرمیں آصف فرخی نے ”موراکامی کی نئی مصروفیت“ اور”اپنے والد گابرئیل گارسیامارکیزکے نام ایک خط“ کے تراجم کیے ہیں۔مجموعی طور پر آصف فرخی نے”دنیازادوبانمبر“ میں وباکے دنوں کے حوالے سے بہترین اوریادگارمواد یکجاکی ہے۔جوعرصہ دراز تک حوالے کے طور پریادرکھاجائے گا۔