ADVERTISEMENT
یہ بھی ایک لڑکی ہے۔ اگر ہم اپنے حق کے لئےخود نہ کھڑے ہوں تو کبھی بھی ہمارا حق ہمیں نہیں مل سکتا، دہقان، مزدور، عورت یا سماج کا کوئی بھی پسا ہوا طبقہ کبھی بھی اپنی غلامی کی زنجیروں کو خود جدوجہد کئے بغیر توڑ ہی نہیں سکتا۔ہمارے سماج کے مختلف استحصال ذدہ طبقات کی نفسیات میں ایک چیز میں پچھلے چالیس سال سے عوامی حقوق کی جدوجہد میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں جو آۓ اور ان کی راتوں رات قسمت بدل دے۔
ہمارے سماج کی درمیانے طبقات کی لڑکیاں اور خواتین بھی ان زنجیروں کو ٹوٹا دیکھنا چاہتی تو ہیں مگر دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے توڑنے کی جرات نہیں کرتیں، وہ معجزوں اور مسیحا کی ہی منتظر ہیں اور پھر میسر حالات پر مفاہمت کر جاتی ہیں یہ اس سماج کا المیہ ہے، درحقیقت وہ کسی معمولی قربانی دینے سے بھی گریزاں ہیں، آخرکار ہمیں اپنے ہی ہاتھوں سے ہی اپنی زنجیریں توڑنا ہوتی ہیں، انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کرتے ہوۓ، مگر ہم حالات سے مفاہمت کر جاتے ہیں،اور یوں غلامی کی زنجیریں ہمارا مقدر رہتی ہیں
یمنیٰ وڑائچ ایک جواں سال لڑکی ہیں جنہوں نے درمیانے طبقے میں جنم لیا، اسی سماج میں انہی غلامی کی زنجیروں کے ساتھ، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی درسگاہ اور پھر دفتر موٹر سائیکل پر جائیں گی، ان کی خواہشات نے عملی اقدام میں قدم رکھے اور ان روایات کی زنجیروں کو توڑ ڈالا جس کا ذکر کرتے ہمارے سماج کی پڑھی لڑکیاں تذکرہ کرتی ہیں اور پھر Sympathies بھی لیتی ہیں
یمنیٰ وڑائچ نے خواب دیکھا کہ اپنا وطن اپنے موٹر اپنے موٹر سائیکل پر دیکھا جاۓ پھر وہ اپنی ماں دھرتی کے کونے کونے میں وہاں وہاں گئیں جہاں جانا ممکن ہے مشکل نہیں ، بلوچستان کے پہاڑوں اور ریگستاںوں سے لے کر اس کے ساحلوں تک، پنجاب کے نا معلوم قصبات، کشمیر کی وادیوں،خیبر پختونخواہ کی وادیوں اور پاکستان کے اس مقام تک جہاں عام شہریوں میں سے شائد ہی کوئی گیا ہو
سیاچن!
وہاں پر آخری پاکستانی فوجی چوکی پر جب وہ اپنے موٹر سائیکل پر پہنچیں تو پاکستانی فوج کے کمانڈر نے ہلمٹ پر بیٹھی اس جوان سال لڑکی سے پوچھا
کیا تم واقعی ہی لڑکی ہو؟
ہلمٹ اتارتے ہوۓ اپنے سیاہ بالوں کو اپنے چہرے پر بکھیرتے ہوۓ دشوار گزار بیابان مقامات کی مسافر اس موٹر سائیکل سوار نے کہا
اب دیکھیں۔۔۔
یہ یمنیٰ وڑائچ ہے، پنجاب کی بیٹی، پاکستان کی بیٹی
ایک جوان سال باہمت خواہشات کو عمل جامع پہنچانے والی