ٹرمپ حکومت نے وزارت دفاع کے سولین نظام میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں جن میں کئی اعلی ترین افسران کو ہٹا کر صدر کے وفادارسمجھے جانے والوں کو تعینات کردیا گیا۔ یہ سب صدر ٹرمپ کی جانب سے وز یر دفاع (ڈیفینس سیکریٹری) مارک ایسپر کی برطرفی کے 24 گھنٹے سے کم عرصے میں کیا گیا، اب پینٹاگون کے فوجی اور سول افسران تشویش کے عالم میں آنے اقدام کے منتظر ہیں۔
پیر سے اب تک وزیر دفاع ایسپر ، ان کے چیف آف اسٹاف اور دفاع و انٹیلیجنس کے معاملات کے نگران افسران کو برطرف یا انکے استعفے لئے ، اور ٹرمپ کے وفادار سمجھے جانے والے افراد کو تعینات کیا جاچکا ہے ان میں سے ایک تو انتہائی متنازعہ شخص جو عجیب و غریب سازشی تھیوریاں پیش کرنے، بشمول سابقہ صدر باراک اوبامہ کو دہشت گرد قرار دینے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
محکمہ دفاع کے ایک اعلی افسر نے CNN کو بتایا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فی الوقت “گردن زدنی “ مکمل ہو چکی ہے۔ اس اقدام سے پینٹاگون میں ٹرمپ کی وزیر دفاع کی برطرفی سے شروع ہونی والی افراتفری میں اضافہ ہوا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اب تک اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے، اور تشویش بڑھ رہی ہے کہ یہ انتقال اقتدار کےعبوری وقت میں اس قسم کی افراتفری ملک سلامتی کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
جب سے صدر ٹرمپ برسراقتدار آئے ہیں اعلی افسران انکے اچانک اور غیر متوقع اقدام کرنے کی عادت سے نمٹ ہی رہے تھے، لیکن انتخابات کے بعد اس میں درجہ بہ درجہ اضافہ ہی ہورہا ہے۔
باخبر ذرائع نے سی این این کے جیک ٹیپر کو بتایا کہ سابقہ وزیر دفاع ایسپر کے نائبین بھی (برطرفیوں) کا اگلا نشانہ ہیں۔ ایسپر کی جگہ قومی ادارہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر ملّر کو تعینات کیا گیا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ایسپر اور اسکی ٹیم طے شدہ زمینی حالات پیدا ہونے سے قبل افغانستان سے امریکی افواج کےفوری انخلا کی مزاحمت کررہے تھے۔ ایک افسر نے کہا “یہ خوفزدہ اور پریشان کرنے والی آمرانہ حرکتیں ہیں”۔
سازشی تھیوری اور ٹرمپ کے وفادار
نئے آنے والوں میں ریٹائیرڈ بریگیڈئیر جنرل انتھونی ٹاٹا ہیں جنہیں پینٹاگون کی اعلی ترین پالیسی بنانے کے ذمہ داروں میں رکھا گیا ہے، یہ جیمس اینڈرسن کی جگہ رکھے گئے ہیں جنہوں نے منگل کو استعفی دیا ہے۔
جنرل ٹاٹا کو پہلے بھی نائب وزیر دفاع برائے پالیسی کے لئے نامزد کیا گیا تھا لیکن ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ دونوں کی مشترکہ مخالفت کی بناء پر انکا نام واپس لے لیا گیا تھا۔
سی این این کے آرٹیکل “کے فائل” کے مطابق انہوں نے کئی اسلاموفوبک (اسلام اور مسلمانوں کے خلاف) اور قابل اعتراض تبصرے کئے تھے اور سازشی تھیوریوں کی ترویج کی تھی۔انکے 2018 کے ٹوئیٹس میں اس نے دعوی کیا کہ اوبامہ ایک “دہشت گرد لیڈر “ تھا جس نے تاریخ کے کسی بھی صدر کی بہ نسبت امریکہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور مسلمان ممالک کی مدد کی۔
انکی نامزدگی واپس لینے کے باوجود بلا عہدہ “نائب نائب وزیر دفاع برائے پالیسی امور کی ذمہ داری دی گئی جس میں وہ جیمز اینڈرسن کی زیر ماتحتی کام کررہے تھے۔ انہیں عمومی طور پر ٹرمپ کا وفادار سمجھا جاتا ہے جنہیں وہائٹ ہاؤس کی اس حدتک حمایت حاصل ہے کہ سینٹ کی کمیٹی برائے مسلح افواج کے ریپبلکن ممبران تک کے انہیں اس عہدے کے لئے غیر موزوں سمجھنے کے باوجود انہیں عقبی دروازے سے داخل کیا گیا۔
جیمز اینڈرسن بھی فروری میں جان رووڈ کے ٹرمپ سے مختلف پالیسیوں پر اختلافات کی بناء برطرفی کے بعد سے قائم مقام حیثیت میں اس عہدے پر کام کررہا تھا (ویسے ٹرمپ اور عمران خان میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں میں کسی کو بھی باعزت طور پر رخصت کرنے کا سلیقہ نہیں ہے یا ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ میرا ذاتی تبصرہ) ۔
یہ فوری طور پر واضع نہیں ہو سکا کہ اینڈرسن نے استعفی دیا ہے یا اس سے لیا گیا ہے۔ اینڈرسن 2018 سے پینٹاگون میں فرائض انجام دے رہے تھے پہلے بطور نائب وزیر دفاع برائے اسٹریٹجی، منصوبہ بندی اور صلاحیت، پھر نائب انڈر سیکریٹری برائے دفاع (پالیسی امور) اور آخر میں جان رووڈ کی برطرفی کے بعد انکی جگہ ملی۔
جیمز اینڈرسن نے اپنے اسٹاف کے لئے اپنے رخصتی پیغام میں کہا” میں جانتے ہوئے رخصت ہورہا ہوں کہ جتنی بھی مشکلات پیش آئیں یہ ٹیم مقابلہ کرے گی۔ میں ہر شخص سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے مشن پر توجہ مرکوز رکھیں، غیر سیاسی رھیں، اور اپنے حلف کو کبھی نہ بھولیں۔
ڈیموکریٹ بھی اس صورتحال پر متشوش ہیں ایوان کی کمیٹی برائے مسلح افواج کے چیئرمین ایڈم اسمتھ جو کہ ڈیموکریٹ ہیں نے اپنے بیان میں کہا۔”محکمہ دفاع میں صدراتی تبدیلی کے دوران محکمہ دفاع کی سطح پر تبدیلیاں کتنی خطرناک ہوسکتی ہیں اسکا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر دفاع کے برطرفی کے فورا بعد اعلی درجے کے پالیسی ساز ماہرین استعفی دے رہے ہیں یہ محکمہ دفاع کو برباد کرنے کے عمل کی ابتدا ہے۔۔اس پر تمام امریکیوں کو تشویش ہونی چاہیے”۔
صرف جیمز اینڈرسن ہی نہیں بلکہ نیوی کے ریٹائیرڈ وائس ایڈمرل جوزف کیرنن جوکہ انڈر سیکریٹری دفاع برائے انٹیلیجنس تھے نے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔یہ واضع نہیں کہ انہوں نے استعفی دیا ہے یا برطرف کیا گیا ہے لیکن انہیں انتہائی سرعت کے ساتھ رخصت کیا گیا ہے۔
کاش پٹیل نئے وزیر دفاع ملر کے چیف آف اسٹاف ہوں گے، ذرائع کے مطابق پٹیل جو نیشنل سیکیورٹئ کونسل کے سینئر ڈائریکٹر برائے انسداد دہشت گردی رہ چکے ہیں بھی ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔ یہ کیلیفورنیا کے نمائندے ڈیون نیونز کے ماتحت کانگریس کی انٹیلجنس کمیٹی میں کر چکے ہیں اور انکا نام گذشتہ سال یوکرین کو فوجی امداد میں تاخیر کی وجہ سے امپیچمینت انکوائری بھی سامنے آیا تھا۔ذرائع کے مطابق پٹیل کے نئے وزیر خارجہ ملر سے “انتہائی قریبی” تعلقات کار ہیں ۔
عذراکوہن وطنک کو ایڈمرل کیرنن نے قائم مقام انڈرسیکریٹری دفاع برائے سیکیورٹی اور انٹیلیجنس مقرر کیا گیا ہے کوہن وطنک نے اپنا نام یا بدنامی مارچ 2017 میں انکی مبینہ شھرت ہاؤس انٹیلیجنس کمیٹی کے اسوقت چیئرمین نیونیز کو جو یہ الزام لگا رہے تھے کہ امریکی خفیہ ادارے غیر قانونی طور پر ٹرمپ کے ساتھیوں کے نگرانی کررہے ہیں کو خفیہ معلومات فراہم کیں۔
یہ پاگل پن ہے
کئی سولین اور فوجی افسران جو پینٹاگون میں کام کررہے ہیں اسوقت کی جانے والی تبدیلیوں پر سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا ان تمام تبدیلیوں کے ساتھ اب ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے آخری چند ہفتوں میں ممکنہ طور پر پینٹاگون کو ان اقدامات جنکی وہ پہلے ہی مخالفت کررہا تھا پر رضامند کر سکتا ہے؟
ان میں سے ایک انسٹرکشن (بدامنی) ایکٹ کا نفاذ کرکے مسلحہ افواج کو کسی بھی ممکنہ احتجاج یا سے نمٹنے کے لئے استعمال کرنا ہے، ایک اور خدشہ یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ فوج کے مشورے کو نظر انداز کر جے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کو کرسمس سے پہلے واپس لا سکتا ہے۔
امریکی فوجی اہلکار خاصے عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی انخلاء صورتحال و شرائط پوری ہونے پر منحصر ہے، ان شرائط میں طالبان کا القائدہ سے ربط کا مکمل طور پر خاتمہ۔ اور طالبان کی افغان حکومت سے امن مزاکرات میں مثبت پیش رفت، یہ دونوں شرائط ابھی تک تک سری نہیں ہوئی ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے پہلے ہی افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں قابل ذکر کمی کردی ہے، اسوقت افغانستان میں صرف 4500 امریکی فوجی موجود ہیں جو 9/11 کے واقعے اور اس مہم کی ابتداء کے بعد سے کم ترین تعداد ہے۔
ملر جسے ٹرمپ نے اپنی باقی ماندہ حکومت کے دوران پینٹاگون کی قیادت کے لئے تھپکی دی ہے وہ ٹرمپ کی ایران اور حزب اللہ کے خلاف پالیسیوں کا اصل ذمہ دار ہے، اس کے علاوہ عراق اور شام میں انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی اس کا ہاتھ ہے۔
ملر ایک ریٹائیرڈ فوجی افسر ہے بطور وزارت دفاع کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری کے کام کر چکا ہے، پیر کی دوپہر کو وہ پینٹاگون جاتا دیکھا گیا اور اسکے فوری بعد اس نے وہاں پر اعلی افسران سے اہم معاملات بشمول ایٹمی کوڈز اور دنیا بھر میں امریکی فوجی سرگرمیوں پر بریفنگ کے لئے ملاقات کی ، اسوقت ملر نے انہیں بتایا کہ اس مرتبہ زیادہ تبدیلیوں لی توقع نہ رکھیں، لیکن اس کے چارج لینے کے 24 گھنٹے سے کم عرصے میں یہ اُٹھا پٹخ شروع ہو گئی۔
ایک افسر کے الفاظ میں “یہ پاگل پن ہے” اس کا کہنا یہ ہے کہ ایسپر اور دیگر اعلی افسران کو فارغ کرنے کے نتیجے میں ٹرمپ کی عبوری ٹیم انکی مہارت سے فائدہ اُٹھانے کے قابل نہیں رہے گی۔
بعض افسران یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ چاہے قائم مقام ہی سہی لیکن کیا ملر کے پاس وہ تجربہ ہے کہ وہ ایسپر کی جگہ کامیابی کے ساتھ لے سکے۔
یہ ملر کے بس کی بات نہیں ہے، ایک وجہ یہ بھی ہے بھی ہے کہ اسکا تجربہ نسبتا نچلے درجے کا افسر تھا اسکی توجہ و مہارت انسداد دہشت گردی ہے، ایک افسر نے CNN کو بتایا کہ ملر اچھا شخص ہے لیکن وہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کا ایک چھوٹا سا اوزار ہے، جسکا کام صرف اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔
واقفان حال یہ بھی کہتے ہیں کہ پینٹاگون میں کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ اصل منصوبہ کیا ہے؟ ایسپر کی برطرفی سے یہ بھی شبہ پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے اعلی سیکیورٹی افسران جو کسی وجہ سے ٹرمپ کو ناراض کر چکے ہیں وہ بھی خطرے میں ہیں۔
سی این این کے مطابق صدر ٹرمپ اور بعض دوسرے قدامت پسند اتحادی بھی سی آئی اے کی ڈائیریکٹر جینا ہاسپول سے گذشتہ شدید ناراض ہیں اور ان پر الزام لگاتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق ۲۰۱۶ کے انتخابات “ڈیپ اسٹیٹ” یا اسٹیبلشمنٹ کی ٹرمپ کی انتخابی مہم اور اوبامہ حکومت کے آخری دنوں میں انتقال اقتدار کے دوران (ٹرمپ کے خلاف) سازش کے شواہد فراہم کرنے میں تاخیر کی تھی۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر ورے نے بھی ٹرمپ کی ناراضگی کو دعوت دی ہے اس بناء پر اسکا مستقبل بھی غیر یقینی لگتا ہے۔
پس تحریر:
ٹرمپ کی ناراض بھتیجی میری ٹرمپ نے بھی ایک ٹوئیٹ کے ذریعے اپنے چچا پر Coup یا فوجی بغاوت کی کوشش کا الزام لگا یا ہے۔
اسکے ایک ٹوئیٹ کے مطابق “منتخب صدر جو بائیڈن قانونی اور فیصلہ کن طور پر جیتے ہیں۔ اب چاہے ڈونالڈ ٹرمپ اور اسکے ساتھی کتنا بھی توڑ مروڑ کر جھوٹ پھیلائیں اب کچھ نہیں بدل سکتا۔ وہ جاتے جاتے جتنی بھی توڑ پھوڑ کرسکتے ہیں کریں گے۔ ہوشیار رہیں۔۔ یہ ایک بغاوت یاCoup کی کوشش ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی اہم ہیں کہ نومنتخب صدر کو تہنیتی پیغامات و دیگر کمیونیکشن محکمہ خارجہ کے ذریعے ہوتی ہے اس میں محکمہ خارجہ سہولتیں فراہم کرتا ہے لیکن اس مرتبہ یہ سب کچھ نہیں ہورہا ہے اور اسے کسی قسم کی رسائی نہیں دی جارہی ہے۔