امریکہ میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے رائے دہی کا سلسلہ مکمل ہوئے 70 سے زائد گھنٹے گزر چکے ہیں۔ حتمی نتیجہ تو نہ جانے کیا رہے گا لیکن اب تک کی صورت حال، ڈانواں ڈول ریاستوں (Swing States) سے متعلق قیاس آرائیوں،ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان جاری نوک جھونک اور دھاندلی کے الزامات کی تکرار نے ماحول خاصا گرم کر رکھا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے قبل از وقت اپنی فتح کا نقارہ بجاکر ڈاک کے ذریعے موصول ہوئے ووٹوں کی گنتی روکنے کی استدعا کی، اور ساتھ ہی انھوں نے انتخابی نتائج تبدیل کیے جانے کی شکایت کرتے ہوئے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر دیا۔ اس سے جہاں ایک جانب امریکی نظام انتخاب پر شکوک و شبہات ابھرے ہیں، وہیں امریکہ میں کسی سیاسی بحران کے جنم لینے کے خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔
اس مرحلے پہ کوئی بڑا اپ سیٹ نہ ہوا تو ڈونلڈ ٹرمپ بظاہر کرسی صدارت سے ہاتھ دھوتے نظر آ رہے ہیں۔ ٹرمپ کی ممکنہ شکست کی وجوہات پر غور کیا جائے تو کئی عوامل سامنے آتے ہیں جن کی بدولت وہ اپنے عوام اور اشرافیہ کے دل سے اتر گئے۔ان کی ممکنہ شکست کی چند سادہ سی وجوہات یہ ہو سکتی ہیں:
ٹرمپ نے امریکی سماج میں موجود نسلی تقسیم کو مزید گہرا کردیا۔ انھوں نے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے سفیدفام تعصبات کا بھرپور استعمال کیا جس کے نتیجے میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔ امریکہ میں مقیم ایشیائی اور افریقی نژاد باشندے گزشتہ چار سال سے جس کرب اور عدم تحفظ کا شکار تھے اس کا اظہار انھوں نے بیلٹ پیپر کے ذریعے کر کے ٹرمپ کو مسترد کر دیا۔ اسی تقسیم کا ایک مظہر مذاہب کی بنیاد پر عوام کو باہم دست و گریباں کرنا بھی تھا۔ چنانچہ مسلمان جو 2016 کی انتخابی مہم کے وقت سے ٹرمپ کا خاص ہدف تھے، اس بار مکمل یک سو ہوکر جوبائیڈن کی حمایت میں اتر آئے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا کورونا کی آزمائش سے گزر رہی تھی، امریکی حکومت نے اس وبا سے اپنے عوام کو بچانے کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے۔ اب تک دو لاکھ تیس ہزار کے لگ بھگ امریکی کورونا کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترچکے ہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ کا رویہ انتہائی غیرسنجیدہ اور مضحکہ خیز رہا۔ وہ کبھی اسے چینی وائرس کا نام دیتے رہے تو کبھی خود کورونا سے متاثر ہونے کے باوجود احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے انکار کر دیا۔
ٹرمپ نے Make America Great Again کا نعرہ لگایا تو یہ گویا عوام کے دل کی آواز تھی۔ طویل جنگوں اور جانی و مالی نقصانات سے اکتائی امریکی قوم اب فرصت کے چند برس کی تلاش میں تھی۔ ٹرمپ نے قوم کی تمناؤں کو عمل کا روپ دے دیا۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور ایک خودمختار افغانستان کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی۔ امریکی عوام کی خواہشات اپنی جگہ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ عالمی پسپائی امریکی اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہیں آئی۔ گزشتہ چار برس میں کئی بار یہ بات سامنے آئی کہ مختلف خطوں میں امریکی مفادات کے تحفظ سے ہاتھ کھینچنے کے معاملے پر وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان ایک پیج پر نہیں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ شاید ٹرمپ جیسا سر پھرا صدر وائٹ ہاوس میں مزید رکھنے کی متحمل نہیں ہوپا رہی۔
اب جبکہ قصر ابیض سے ڈونلڈ ٹرمپ کی رخصتی کے امکانات بڑھ رہے ہیں تو فطری طور پر یہ سوال بھی عام ذہنوں میں ابھر رہا ہے کہ جو بائیڈن کا امریکہ دنیا بالخصوص مسلم دنیا کے لیے ٹرمپ کے امریکہ سے کتنا مختلف ہوگا۔
خیال یہ ہے کہ ٹرمپ کا جانا مشرق وسطی کے دو طاقت ور افراد محمد بن سلمان اور محمد بن زید کے لیے دھچکا ثابت ہوگا۔ گزشتہ چار سال میں سعودی عرب نے جتنے علاقائی اور مقامی محاذ کھولے ہیں ان سب کے پیچھے ایم بی ایس کا ذہن رسا تھا اور ایم بی ایس ٹرمپ کی مکمل سرپرستی کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہے تھے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل کا معاملہ چند ایک ہومیوپیتھک قسم کے بیانات کے بعد امریکہ نے کیسے داخل دفتر کر دیا تھا۔
اب ڈیموکریٹس کی وائٹ ہاوس کے اندر موجودگی میں یہ دونوں، بالخصوص بن سلمان اتنا کھل کر نہیں کھیل سکیں گے۔ سعودی شاہی خانوادے کے افراد کے خلاف جاری کریک ڈاون میں کمی آئے گی اور محمد بن نائف کو ایک بار پھر اہم کردار مل سکتا ہے۔
بائیڈن کا آنا اردوان کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا کیونکہ ظاہری نوک جھونک کے باوجود اردوان اور ٹرمپ کے تعلقات بہترین رہے۔ ڈیموکریٹ حکومتوں کی تاریخ ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ کی آزادی، انسانی حقوق کی فراہمی اور جمہوریت کے تسلسل کا بہانہ بنا کر ہمیشہ دوسرے ممالک میں دخل اندازی کرتی ہیں۔ ترکی کے حوالے سے یہ بہانہ خاصا کارگر رہے گا۔
ایران پر سے پابندیاں کم ہونے کا امکان ہے۔ ایران پر ٹرمپ کی یک لخت پابندیوں نے جہاں ایک جانب یورپ کو ناراض کر دیا تھا، وہیں امریکہ کے اندر بھی اس پر بے چینی دیکھنے کو ملی تھی۔ امکان ہے کہ اوباما کی طرح بائیڈن بھی ایران کے ساتھ صلح جو اقدامات کی جانب جائیں گے۔
جوبائیڈن کے آنے سے ہندوستان کے ہندوتوا قوم پرست بھی کسی حد تک دفاعی موڈ میں چلے جائیں گے۔ مسلم کشی کی مہم میں کمی آئے گی۔
2010 کی دہائی دنیا بھر میں پاپولسٹ حکمرانوں کی دہائی رہی۔ 2020 کی دہائی کے شروع میں ہی ٹرمپ کی شکست یہ امکان ظاہر کر رہی ہے کہ آئندہ دہائی پاپولسٹ حکمرانوں کی رخصتی کی دہائی ثابت ہونے جا رہی ہے۔ امریکہ سے اس کا آغاز ہوا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ یہ رجحان اب دنیا کے دیگر خطوں میں بھی پھیلے گا اور اگلے 3 4 سال میں پاپولسٹ حکمرانوں کیر خصتی کا عمل مکمل ہوجائے گا۔