موسیقار، ہدایت کار، کہانی کار وشال بھردواج، ہندی سنیما کا ذہین فلم ساز۔ بہت سے کام یاب لوگوں کی طرح انھوں نے ہدایت کاری کے سفر کا آغاز سطحی سی فلم بنا کر کیا۔ اس فلم کا نام بھی اب کسی کو یاد نہیں۔ پہلے وشال کی موسیقی کی دھوم ہوئی۔ پھر ان کی ہدایت کاری میں بننے والی فلمیں، ناظر و ناقد کی نظر میں کام یابی حاصل کرنے میں کام یاب ہوئیں۔ وشال کی پروڈکشن میں بنی فلمیں ‘مقبول’، ‘اوم کارا’، اور بعد ازاں ‘حیدر’ شکسپیئر کے ڈراموں سے ماخوذ ہیں۔
‘حیدر’ شکسپیئر کے ‘ہیملٹ’ سے متاثر ہے۔ یہ ایک کشمیری مسلمان لڑکے کی داستان ہے، جس کے باپ کو ہندستانی فوج اٹھا لے جاتی ہے۔ وہ مارا مارا پھرتا ہے کہ باپ کا پتا معلوم ہو، لیکن ہر جگہ سے دھتکار دیا جاتا ہے۔ آخر میں وہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتا ہے۔ ریاستی اداروں کے متشددانہ رویوں پر سوالیہ نشان لگاتی یہ فلم، ہند کے جمہوریت پسند جنتا کے سینے کا تمغا ہے۔ یہاں فلم کی کہانی سنانا مقصود نہیں۔ فلم سننے کے نہیں، دیکھنے لائق شے ہوتی ہے۔ بھارتی فوج کے ظلم، کشمیریوں کے دکھ کی یہ داستان ضرور دیکھیے گا۔ ‘حیدر’ دیکھ کر آپ ہندی سینما ہی کو نہیں، ہند سرکار کی جرات کو بھی سلام کرنے پر مجبور ہوں گے، جو اظہار رائے کی آزادی میں حائل نہیں ہوئی۔
اس فلم میں کشمیریوں کو مظلوم، اور بھارتی فوج کو سفاک دکھایا گیا ہے۔ فلم دیکھتے ذہن میں سب سے پہلا سوال یہ آتا ہے کہ کیا پاکستانی سنیما کو کبھی اتنی آزادی ملی کہ وہ ایسے موضوعات کو چھیڑ سکیں، جو ریاست کی پالیسی کے خلاف ہو؟ یہاں مجھے نجی سیکٹر کی ایک ڈراما سیریل یاد آتی ہے، جو برطانوی صحافی ایوان ریڈلے کے طالبان کے ساتھ گزارے دنوں کا احوال دکھاتی ہے۔ اس میں طالبان کو نرم خو، فراخ دل دکھایا گیا ہے، لیکن مذکور پروگرام ‘ڈبے’ کی زینت ہے۔ ایک وقت تھا کہ ریاستی ادارے پی ٹی وی نے ‘پناہ’ میں ایسے ہی افغانوں کی خوب صورت دکھائی تھی۔ اس وقت ریاست کی پالیسی جو وہی تھی، جو ‘پناہ’ میں دکھایا گیا۔ ہمارے یہاں ریاستی پالیسی کے خلاف کوئی کالم، بلاگ، کوئی پروگرام، کوئی بیان، ملک دشمنی یا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ ہندستان میں انفرادی سطح پر ایسی منفی آوازیں اٹھتی ہیں، لیکن ریاستی ادارے ان آوازوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ ریاستی اداروں کی کارکردگی پہ سوال اٹھانے والوں کو غدار کہ کر، انھیں دیوار سے تو لگایا جا سکتا ہے، عوام کے دلوں کو مسخر نہیں کیا جا سکتا۔
‘حیدر’ کے مرکزی خیال کو ایک سطر میں بیان کیا جائے، تو وہ سطر یوں ہو گی: ‘انتقام سے صرف انتقام جنم لیتا ہے۔’
فلم دیکھ کر جہاں ریاستی جبر کے شکار کشمیریوں سے ہم دردی محسوس ہوتی ہے، وہیں ہدایت کار یہ نکتہ فراموش نہیں ہونے دیتا کہ ‘جبر، جبر کو جنم دیتا ہے۔’ جبر ریاستی ہو، یا غیر ریاستی، ہر دو کی مذمت کی جانی چاہیے۔
ہند کے باسیوں کی بڑی تعداد بنیادی سہولیات مثلا: تعلیم، صحت، انصاف سے اسی طرح محروم ہے، جیسا کہ پاکستانی عوام۔ ان کی تفریحات میں سنیما بہت نمایاں مقام رکھتا ہے۔ وشال بھردواج اکیلے نہیں ہیں، بھارتیا سنیما میں اور بھی ذہین فلم ساز ہیں جو تفریح کے ذریعے، عوام کی روح کو بالیدہ کرتے ہیں۔ ‘رنگ دے بسنتی’، ‘منا بھائی ایم بی بی ایس’، ‘لگے رہو منا بھائی’، جیسی کمرشل فلمیں محض تفریحی فلمیں نہیں ہیں۔
مہذب معاشروں میں عوام کے جاننے کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ جن معاشروں میں عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم نہ کیا جاتا ہو، یا ”عظیم تر قومی مفاد” کے نام پر خبری ذرائع پہ پہرے بٹھا دیے جائیں، ان معاشروں میں خبریں عنقا اور افواہیں پھیلتی ہیں۔ میری طرح شاید آپ بھی ‘حیدر’ فلم دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچیں کہ قلم بدوشوں، ہدایت کاروں، فلم سازوں، صحافیوں پہ سینسر کی پابندی کا جبر مسلط کر کے، عوام کی حالتِ زار بہ تر نہیں بنائی جا سکتی۔ جب آپ مخالفت میں ابھرنے والی آواز کا گلا گھونٹتے ہیں، تو دل بسمل ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ آوازوں پر پہرے بٹھا دینے سے آواز ہی نہیں سانس بھی گھٹتی محسوس ہوتی ہے۔ سوال زندگی اور موت کا ہو، تو اپنی بقا کے لیے کوئی بھی متشدد ہو سکتا ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے ریاست کو پہل کرنا ہوتی ہے کہ وہ جبر سے باز آئے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ریاست سے روٹھے ہووں کو منائے۔ یہ کائناتی سچ ہے کہ فوجی مہمات مسائل کا حل نہیں ہوتیں، بل کہ مسئلوں کو جنم دیتی ہیں۔ راستہ سیاست دانوں ہی کے پاس ہے کہ وہ بات چیت سے معاملات سلجھائیں۔
‘حیدر’ پیغام دیتی کہ انتقام محض انتقام کو جنم دیتا ہے، بسمل دلوں کو اور بسمل نہ کریں، تجسس، سازشوں، اور رومان سے لب ریز ‘حیدر’ ایک بہترین کاوش ہے۔