سدھارتھ کو جس پیڑ تلے گیان حآصل ہوا، وہ برگد حسن ہاشمی کے شہر “گیا” میں تھا۔ گیا شہر کی گلیوں میں بِیتا حسن ہاشمی کا بچپن، بدھ مت کے بھکشووں کی آمد و رفت کا ناظر تھے۔ زمانہ طالب علمی میں، وہ لندن میں تھے، وہاں ان کی ایک کام ساتھی “کورا” تھی۔ نہ جانے کس دیس کی تھی، لیکن “بازی گر” میں زندہ ہو گئی۔
میں اے آر واے نیوز، کراچی میں پروڈیوسر بھرتی ہوا، تو حسن ہاشمی مجھے اکسانے لگے، کہ مذاہب کی تواریخ پر سیریز بناوں۔ میں نے عذر پیش کِیا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ کہنے لگے، میرے پاس اس موضوع پر ڈھیروں کتابیں ہیں، ان سے مدد لو۔ کتابوں کا سن کر میرے کان کھڑے ہوے۔ زرا سی دل چسپی دکھائی تو انھوں نے پیش کش کر دی، جب جی چاہے، مال بردار گاڑی لے آو، اور جتنی کتابیں سمیٹ سکو، اٹھا لے جاو۔ میں نے کئی خواب بنے۔ اب تب کرتا رہا، پر نہ جا سکا۔
جب ہم حسن ہاشمی کے جنازے سے لوٹ رہے تھے، تو میں نے یاد کیا، “حسن بھائی نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ان کی کتابوں کے ذخیرے سے۔۔۔” لبوں سے اس سے بھی کم ادا ہوا تھا، کہ شکیل عادل زادہ نے دکھ سے کہا، ” یہ وقت بھی آنا تھا، کہ ہمیں کہنا پڑ رہا ہے، کہ حسن تھے!” جیسے میں ان کے کتب خانے سے ایک بھی کتاب نہ لا سکا، ویسے ہی میرا جملہ بھی ادھورا رہ گیا۔
شکیل عادل زادہ کے دست راست جناب حسن ہاشمی۔ ان سے کہانی لکھنے کے فن کے بارے میں پوچھا، تو بہت سی معلومات دیں۔ میں نے اصرار کیا کہ جتنا ممکن ہو، لکھ کر دے دیجیے۔ انھوں نے یہ تحریر 12 اگست 2004ء کو سب رنگ ڈائجسٹ کے دفتر میں بیٹھے لکھ کر دی۔ یہ سوغات میرے پاس محفوظ ہے۔
فسانہ/ کہانی۔
تحریر: حسن ہاشمی
کہانی اگر غور کیا جاے، تو اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کہانی طویل ہوکر ناولٹ، اور اس سے بھی طویل ہوکر، ناول کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ناول وہ ہوتا ہے، جس میں رفتہ رفتہ کہانی کا پلاٹ پھیلتا رہتا ہے، اس کے کردار اور واقعات بڑھتے رہتے ہیں، سِچوایشن تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ جب کہ مختصر کہانی، یا افسانہ میں، شاذ و نادر ہی پلاٹ وُسعت اختیار کرتا ہے۔ اِس کا انداز ڈرامائی، اور اس میں جذبات کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔ افسانوں کی صِنف کچھ یوں ہے، مختصر کہانی، طویل کہانی، اور بہت ہی مختصر کہانی، جسے عرفِ عام میں افسانچے کہا جاتا ہے۔ افسانے میں، (فضول گوئی) منظر نامہ یا ڈِسکرپشن، ناول کی نسبت بہت کم ہوتا ہے۔ کہانی کار کی مہارت یہ ہوتی ہے، کہ کم سے کم الفاظ میں، وہ اپنے احساسات، کہانی کے کردار کے توسط سے، اپنے قاری تک مُنتقل کردے۔ اِس کی مثال یُوں لیجیے، کہ اگر افسانے میں، بیان کیا گیا، کہ “کلی کھِل کر پھُول بن گئی۔” تو قاری ایک دَم سے، کسی باغ میں کھڑا، کلی کو پھُول بنتے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب کہ اگر یہی بات، ناول میں بیان کرنی ہے، تو قاری بیج بَونے سے لے کر، پھُول کھِلنے تک کے، تمام مراحل سے گُزرتا ہے۔ بعض اوقات طویل افسانے، ناول کے انداز میں بھی تحریر کیے جاتے ہیں۔ ہر کہانی میں، چاہے وہ ناول ہو، ناولٹ یا افسانہ (مختصر کہانی) ایک پلاٹ ہوتا ہے۔ پلاٹ مختلف النوع ہوتے ہیں۔ رومانی، جاسوسی، ماورائی، خوف ناک، تجسس، ایڈوینچر، اِصلاحی وغیرہ۔ پلاٹ ہی وہ انداز ہے، جس کے مطابق، مصنف اپنی تحریر کا انداز طے کرتا ہے، کردار تراشتا ہے، اور اِقدار کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ جہاں تک اِقدار کا سوال ہے، تو یہ سب سے زیادہ (controversial) اختلافی ہوتا ہے۔ عام طور پر اِقدار کا یہی پہلو، کسی کہانی کی اچھائی، یا بُرائی طے کرنے میں، سب سے اہم نُکتہ ہوتا ہے۔ اِقدار کا اظہار کہانی میں، اُس کے پلاٹ، کردار، ترتیب، اور کہانی لکھنے کے انداز سے ہوتا ہے۔ اچھے کہانی نویس، اپنے خیالات کا اظہار، کہانی کے کردار کے ذریعے کرتے ہیں۔ جس کے لیے، وہ کہانی میں سِچُوایشن (Situation) پیدا کرتے ہیں۔ کہانی نویس کے یہی خیالات، اس کے مقام کا تعین کرتے ہیں۔ کہانی نویس کی تحریر میں، Sincierity اور شمولیت (Involvement) ہی ادب میں، اُسے بلند مرتبہ بناتی ہے۔ کہانی کا پلاٹ، کچھ بھی ہو، کہانی کا آغاز، اور اسے آگے بڑھانے کے لیے، مصنف کو Situation پیدا کرنا لازمی ہے۔ Situation ہی کہانی کا آغاز بھی ہوتا ہے، اور یہی کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔ یہ Situation مختلف واقعات پر مبنی ہوتا ہے۔ Situation ہی کہانی میں Crisis پیدا کرتا ہے، اور جب مصنف اس کرائسِس کا حل تلاش کرلیتا ہے، تو کہانی اپنے اِختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ مُختصر کہانی، شروع سے آخر تک، مُتحرک ہوتی ہے۔ اِس میں جمود نہیں ہوتا، اگر ایسا نہ ہو، تو کہانی اپنا تاثر کھو دیتی ہے۔ کسی نقاد کا قول ہے، کہ کہانی نویس کے لیے ضروری ہے، کہ وہ اپنے اندر موجود تمام احساسات، تمام جذبات، تمام فکر، تمام خیالات، بڑی بے رحمی سے نچوڑ کر، کاغذ پر بکھیردے۔ اُسے اپنے دِل، اور اپنے دماغ کے آخری حد تک کو، بروے کار لانا ہوگا۔ مصنف کو اتنی گہرائی تک جانا ہوگا، کہ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو، تو اُسے جِسمانی/ جِسمی اور دماغی، دونوں طرح کی تکان کا احساس ہو، اُسے ایسا محسوس ہو، جیسے اُس کا دماغ خالی ہوگیا ہے۔ اُس کی ہر سوچ، اور فِکر، دِل و دماغ سے نکل کر، کاغذ پر مُنتقل ہوگئی ہے۔ اُسے یہ بالکل محسوس نہیں ہونا چاہیے، کہ ابھی کچھ اُس کے دِل و دماغ میں باقی رہ گیا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے، کہ مصنف کا تجربہ، اور عِلم اگر محدُود ہے، تو اِس کا مطلب ہے، کہ اُس کے سوچنے، اور چیزوں کو سمجھنے کی قوت بھی محدُود ہے۔ ایسے مصنف کی تحریر بھی محدُود ہوگی، وہ تشدد Violence کو طاقت کے طور پر پیش کرے گا، اور سطحی خیالات کو، قیمتی جذبات سمجھ کر پیش کرے گا۔ اچھے کہانی نویس کے لیے، لفظوں کا اِنتخاب، بہت اَہم ہوتا ہے۔ کیوں کہ افسانہ/ کہانی چاہے طویل ہو، یا مُختصر، ناول کے مقابل بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ مُصنف کے پاس کاغذ پر، اتنی زیادہ جگہ نہیں ہوتی، کہ وہ لفظوں کا زَیاں کرسکے۔ کہانی نویس/ افسانہ نویس پر عائد یہ پا بندی ہی، اُس کی اہلیت کا پیمانہ ہوتی ہے۔ کیوں کہ چند لفظوں میں، اُسے بہت ساری باتوں کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔