لاہور میں سنار کے کام سے وابستہ تھا؛ رنگ محل آنا جانا معمول ہوا۔ جب میں پہلی بار ”استاد جی“ کے ساتھ اُس بازار کی گلی سے گزرا تو دیکھا، جوان عورتیں بالکونی میں کھڑی ہیں، کوئی دیکھے یا اشارہ کرے، تو بجائے جھجھک کر اوٹ میں ہونے کے، وہ مسکرا کر دیکھتی ہیں۔ استاد جی نے بتایا، اِس وقت ہم جس بازار سے گذر رہے ہیں، یہ ”ہیرامنڈی“ ہے۔ میں ایسے گھبرایا، جیسے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں۔
لاہور کے شہری ہوں، پھر سنار، تو ممکن نہیں ہوتا کہ آپ اس راستے سے بچ کر نکل سکیں۔ ہیرا منڈی کی گلیوں میں نشئی صورت بھی دکھائی دیے، جو سو دو سو رُپے میں، حوروں کا دیدار کروانے کی قسمیں کھاتے ہیں؛ واقف احوال کہتے ہیں، یہ آپ سے رقم لے کر، وہیں ٹھیرنے کو کہیں گے، اور آپ کا انتظار کبھی ختم نہ ہو گا۔ جناب! یہ دھوکے باز ہوتے ہیں، دلال جیسے ”معززین“ نہیں۔
میں نے طوائفوں کو فلموں ہی میں دیکھا ہے؛ ”ثریا بھوپالی“ سے ”امراو جان ادا“ اور بہت سی تصویریں (Pictures) دیکھیں؛ طوائفوں کو منٹو اور دیگر کی تحریروں میں دیکھا، لیکن حقیقت میں کسی طوائف سے واسطہ نہ پڑا؛ فلموں کی طوائفیں غیر معمولی اور منٹو کی طوائفیں عام سی عورتیں نکلیں۔
جب میرا تعلق روشنی کی دنیا سے ہوا تو جی میں آیا، ہیرا منڈی کے روز و شب کا قریب سے مشاہدہ کروں، تا کہ کبھی انھیں Paint کرنے کا موقع آئے، تو حقیقت کے قریب تر ہو (ظاہر ہے، پیشہ ورانہ تقاضے تھے، کوئی بری خواہش تو، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، مجھ میں نہیں ہو سکتی)۔ میری یہ خواہش، خواہش ہی رہی۔ اتفاق کہیے یا کچھ اور؛ پندرہ بیس سال پہلے جہاں ہیرا منڈی کی وہ شکل نہ رہی، وہیں فلم اسٹوڈیوز بھی ویران ہو کر کے رہ گئے۔
کہا جاتا ہے، کہ زمین دار کی فصل منافع دے، تو ان میں سے کچھ خوشی منانے ہیرا منڈی کا رخ کرتے تھے۔ ایسے میں مدقوق صورت فصلی بٹیروں نے ہیرا منڈی کے ان تماش بینوں کو فلم نگری کی راہ دکھائی؛ فلم میں پیسا لگاؤ، پیسا کماؤ؛ یہ فلم نگری نہیں، ”بہشت“ ہے، بہشت کی نعمتوں میں ایک نعمت ”حوریں“ ہیں۔ ان کی ایسی ہی باتوں میں آ کر کے بہت سے برباد ہوئے، کچھ یہیں کے ہو رہے۔ ایسے سالک جن کا مقصود حوریں ہوں، فنون لطیفہ کو کیا پروان چڑھاتے۔ وہ جن کی زندگی آرٹ سے منسوب تھی، یا وہ جن سے ماس کی دلالی نہ ہوئی، وہ اس صورت احوال کو دیکھ کر کنارا کر گئے۔ نتیجہ یہ نکلا، کہ فلم انڈسٹری کہیں پاتال میں جا اُتری، لیکن چمڑے کا کاروبار جاری رہا۔ ذہن نشین رہے، یہ محض ایک مثال ہے، فلم انڈسٹری ڈوبنے کی اکلوتی وجہ نہیں۔
گذشتہ دس پندرہ برس میں ٹیلے ویژن چینلوں کی بہار آئی؛ تعلیم یافتہ افراد کوملازمت ملی۔ اتنے برسوں میں نشیب و فراز عبور کرتے، یہ ٹیلے ویژن چینل بالآخر ”ریٹنگ“ کا شکار ہو گئے۔ یہ اصول تسلیم کر لیا گیا، کہ جس بالکونی کے نیچے جتنے زیادہ گاہک ہوں گے، اس حسینہ کی اتنی زیادہ بولی لگے گی؛ اس کا ”Rate“ اتنا زیادہ بڑھے گا۔ یوں بازار میں نمبر ون وہ ہے، جس کے ”دام“ سب سے بلند ہیں۔ دیکھیے صاحب! یہ بازار ہے، یہاں کی اخلاقیات منبر پر بیٹھنے والا ترتیب نہیں دیتا۔
کھڑکی تو روشنی اور تازہ ہوا کے لیے نکالی جاتی ہے؛ جھروکے کا اپنا حسن ہے؛ اگر کوئی اس جھروکے کو درشن کے لیے وقف کرے، پھر کوئی Rate طے کر کے ماس کا سودا کرے، تو اس میں بالکونی کا کیا دوش!
سیٹھ کو اپنے چینل کا ”Rate“ چاہیے؛ تماش بینوں کی توجہ درکار ہے؛ اسے ایسے ملازمین سے کوئی مطلب نہیں، جو صحافت اور فنون لطیفہ کی اخلاقیات جیسی مہمل باتیں کرتا ہو؛ سیٹھ ہو، یا نائکا، اسے مال سے غرض ہے۔ بالکونی میں اس طوائف کو جگہ ملے گی، جو زیادہ تماشائیوں کو کھینچ لائے۔ اس میں عورت مرد کی کوئی تخصیص نہیں؛ بہ قول کسے، طوائف ایک رویے کا نام ہے، کسی پیشے یا فرد کا نام نہیں۔ اگر ایک اینکر پرسن، نیوز کاسٹر، رپورٹر، مدیر، اداکار، مولوی، کھلاڑی، مسخرہ یا کوئی بھی اس بالکونی کے نیچے، زیادہ سے زیادہ تماش بینوں کو اکٹھا کر سکے؛ وہی بالکونی میں کھڑا ہونے کا حق دار قرار پائے گا۔
کیبل پر بہت سے ٹیلے ویژن چینل ہیں۔ نیشنل جیوگرافک، ڈسکوری چینل سے لے کر اسپورٹس چینل تک۔ کیا ہے، صاحب؛ ان چینلوں کے ”ریٹ“ ہی نہیں نکلتے۔ ”Rating“ ان کی High ہے، جن کی Programming انتہائی سطحی، Professionalism کا جنازہ نکالتی ہوئی۔ یہ سب تو اپنی جگہ ایک المیہ ہے، لیکن ماتم کی گھڑی وہ ہوتی ہے، جب انھی تماش بینوں میں سے کوئی ایک، روز آنکھیں ٹھنڈی کرنے آتا ہو، اور تماشا ختم ہونے پر کہے؛ کنجری ہے، سالی۔
شیخے بہ زنے فاحشہ گفتا: مستی
ہر لحظہ بہ دامِ دگرے پا بستی
گفتا: شیخا ہر آنچہ گوئی ہستم
اما تو چنانکہ می نمائی ہستی؟