آپ جاننا چاہتے ہیں، ایک فلم ساز کیسا ہونا چاہیے، تو گرو دت کے کام پر نگاہ ڈالیے۔ 9 جولائی 1925ء کو ہندی سنیما کے بہ ترین فلم ساز وسانتھ کمار شِو شنکر پوڈیکون کا جنم دن ہے۔ ان کے والد اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کا بچپن کلکتہ میں گزرا۔ بنگالی زبان میں تعلیم حاصل کی، اور بنگال کی با عزت ذات ”دت” سے متاثر ہو کر اپنے نام میں دت کا اضافہ کر لیا۔ آج دُنیا انھیں گرو دت کے نام سے جانتی ہے۔ ڈاک خانے کی معمولی ملازمت ہو، یا اودھے شنکر جیسے نام ور کے ڈانس گروپ میں معمولی رقاص کی نوکری؛ گرو دت نے فلم میں کام یابیاں سمیٹنے سے پہلے بہت مشکلات بھری زندگی گزاری۔
آپ جاننا چاہتے ہیں، وہ کیسی آوازیں ہوتی ہیں، جنھیں کاپی نہیں کیا جا سکتا؟ آپ جاننا چاہتے ہیں، وہ آوازیں جو باتیں کرتی محسوس ہوں، وہ کیسی ہوتی ہیں؟ آپ جاننا چاہتے ہیں، کہ مخملی آواز کسے کہا جاتا ہے، تو گیتا دت کو سننا مت بھولیے۔ شوخ اور المیہ گانوں کو گیتا دت سے اچھا کس نے گایا ہو گا۔ زمیں دار گھرانے سے تعلق رکھنے والی گیتا رائے چودھری 23 نومبر 1930ء فرید پور موجودہ بنگلا دیش میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین 1942ء میں کلکتہ سے بمبئے آئے۔ یہی وہ وقت تھا، جب گیتا رائے ہلکی پھلکی موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ ایک دن گیتا رائے گھر میں گنگنا رہی تھیں، کہ گھر کے باہر سے ایک میوزک ڈائریکٹر کا گزر ہوا۔ اس نے اس بچی کے والدین کو کہا، کہ وہ اسے موسیقی کی تعلیم دلوائیں، اسی میوزک ڈائریکٹر نے گیتا کو فلم دنیا میں قدم رکھنے کا موقع دیا۔ 1946ء میں گیتا کو پہلی بار فلم میں گانے کا موقع ملا۔ ابھی گیتا کے نام کا ڈنکا نہیں بجا تھا۔ اور پھر گیتا پہنچیں ایس ڈی برمن تک، جو گرو دت کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ گرو دت ”بازی” بنا رہے تھے، اور ان کی بھی پہچان نہیں تھی۔ فلم ”بازی” میں ایک گانے کی رِکارڈنگ ہو رہی تھی، کہ گیتا رائے کی ملاقات گرو دت سے ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اتنا پسند کیا، کہ رائے فیملی کی شدید مخالفت کے با وجود، ان دونوں نے 26 مئی 1953ء میں شادی کر لی۔ یوں گیتا رائے چودھری، گیتا دت کہلائیں۔ ان دونوں کے تین بچے ترن دت، ارن دت اور نینا دت ہیں۔
ٹھیریے! کہانی ختم نہیں ہوئی؛ کہانی اب شروع ہوتی ہے۔
آپ جاننا چاہتے ہیں، کہ ایک مکمل اداکارہ کسے کہتے ہیں، تو وحیدہ رحمان کے کام کو دیکھیے۔ وحیدہ رحمان نے 3 فروری 1938ء (بعض کے نزدیک 14 مئی 1936ء) تامل ناڈو کے جھینگل پتو میں دکنی مسلم گھرانے میں جنم لیا۔ کم سنی میں بھرت ناٹیم سیکھنے پہنچیں تو استاد نے اس لیے انکار کر دیا، کہ وہ مسلمان ہیں، لہاذا یہ رقص سیکھنے کی اہلیت پر پورا نہیں اُترتیں۔ اُنھوں نے ضد کی اور سیکھ کر رہیں۔ ان کے والد برٹش سرکار میں کلکٹر تھے۔ پہلے بھارتی وائسرائے کے سامنے وحیدہ رحمان اور ان کی بہن سعیدہ نے بھرت ناٹیم پیش کیا۔ ابھی یہ کم سن ہی تھیں، کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ یہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، لیکن والدہ نے کہا بہت مشکل ہے، حالات کہتے ہیں، کہ دونوں بہنیں شادی کرو، اور اپنے گھر کی ہو جاو۔ بڑی بہن سعیدہ کی شادی ہو گئی۔ وحیدہ رحمان کو تیلگو فلم کے ایک گانے میں رقص کی پیش کش ہوئی، ماں راضی نہ تھیں، لیکن کسی نا کسی طرح منا کر یہ فلم کی۔ فلم ہٹ ہو گئی۔ نصیب کی سنیے کہ گرو دت نے اس فلم میں کسی کو دیکھا تو وہ رقص کرنے والی، اکہرے بدن والی یہ سانولی تھی۔ اعلان کر دیا کہ یہی میری اگلی فلم میں کام کرے گی۔ سبھی حیران تھے، کہ یہ لڑکی فلم ہیروئن کے معیار پر پورا نہیں اترتی، لیکن گرو دت فیصلہ کر چکے تھے، کہ وہ اس لڑکی کو اداکاری کے آداب سکھائیں گے۔ کون جانتا تھا، یہی لڑکی نا صرف یہ کہ گرو دت کی ازدواجی زندگی کی تباہی کا باعث بنے گی، بل کہ اُن کی موت کا سبب بھی ہو گی۔
فلم کے میدان میں جد و جہد کی دور میں دیو آنند اور گرو دت گہرے دوست بن گئے تھے۔ انھوں نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ جو آگے بڑھا، وہ دوسرے کا ہاتھ تھامے گا۔ دیو آنند نے جب فلم ”بازی” پروڈیوس کی تو اپنا وعدہ نبھاتے گرو دت کو ہدایت کاری کا کام سونپا۔ گرو دت کی ایک کے بعد دوسری فلم ہٹ ہونے لگی، بازی، آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، پیاسا اور سی آئی ڈی۔ گرو دت نے ”سی آئی ڈی” بنائی تو دیو آنند کو ہیرو لیا، لیکن اس فلم کی ہدایت کاری نہ کی، بل کہ راج کھوسلا کو ہدایت کاری کے لیے چنا۔ یہی وہ فلم تھی، جس کی ویمپ کے لیے انھوں نے وحیدہ رحمان کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے بعد اگلی ہی فلم ”پیاسا” جو 1957ء میں ریلیز ہوئی، اس میں وحیدہ رحمان کو ”گلابو” کا یادگار کردار دیا گیا۔ اس فلم کا ہر گانا ہٹ ہوا۔ ”پیاسا” ہی وہ فلم تھی، جس میں گرو دت، وحیدہ رحمان کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے۔ شاید پہلے ہی گھائل ہو چکے تھے، دیکھنے والوں کو اب دکھائی دیا۔ اس کے بعد ”کاغذ کے پھول” بنائی تو اس میں بھی وحیدہ رحمان ہی کو ہیروئن لیا۔ ”پیاسا” کے لیے گرو دت چاہتے تھے، کہ دلیپ کمار کے ساتھ مدھو بالا، نرگس کو کاسٹ کریں، لیکن احساس ہوا کہ دلیپ کمار کے سامنے ان کی نہ چلے گی، تو آخر میں خود ہی مرکزی کردار میں آئے۔ مدھو بالا اور نرگس دونوں ہی ”گلابو” کا کردار کرنا چاہتی تھیں، اس لیے بات نہ بنی۔ گرو دت نے اپنے ساتھ مالا سنہا کو لیا، اور ”گلابو” کے کردار کے لیے وحیدہ رحمان کا قرعہ نکلا۔ 1957ء تک گرو دت نے اپنا الگ مقام بنا لیا تھا، اور سبھی ان کو مان چکے تھے، کہ یہ منفرد فلم ساز ہے۔ اس کے بعد گرو دت نے جو فلم بنائی وہ ان کی ہدایت کاری میں بننے والی آخری فلم ثابت ہوئی۔ یہ فلم ہے ”کاغذ کے پھول”۔ اس فلم کو بناتے ہوئے ان کے خیر خواہوں نے انھیں مشورہ دیا، کہ یہ فلم مت بنائیں، نہیں چلے گی، لیکن گرودت نے کہا، یہ فلم میں اپنے لیے بنا رہا ہوں۔ پھر وہی ہوا، جس کا ان کے خیر خواہوں کو ڈر تھا۔ فلم ڈیڈ فلاپ ہوئی، اور گرو دت مشکلات میں گھِر گئے۔ یہ الگ بات ہے، کہ اب یہ فلم ناقدین کی نظر میں ایک بڑی فلم مانی جاتی ہے۔
اپنے لیے یا ناقدین کے لیے فلم بنانے کا انجام اچھا نہ ہوا۔ گرو دت نے گر کر پھر اُٹھنے کی کوشش میں ناظرین کے لیے فلم ”چودھویں کا چاند” پروڈیوس کی، لیکن اس فلم کی ہدایت کاری نہ کی۔ پچھلی فلم کی نا کامی نے مالی مشکلات میں مبتلا کر دیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا، جب وحیدہ رحمان سے ان کے رومان کی خبریں عروج پر تھیں۔ ایسے میں گیتا دت اور گرو دت کے مابین جھگڑے شروع ہو چکے تھے۔ گیتا نے گرو کے لیے اپنے خاندان کی زبر دست مخالفت مول لی تھی۔ گرو دت اپنی بیوی سے بہت محبت کرتے تھے، لیکن وحیدہ تب تک دل سے ہوتی جاں تک آ گئیں تھیں۔ گیتا اور گرو کے جھگڑے کے اثرات پوری فلم انڈسٹری کے لوگوں پہ ہوئے۔ فلم والوں کا خاندان فلم والے ہی ہوتے ہیں۔ گویا خاندان میں جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ معاملہ یہ تھا، کہ گیتا گرو سے ناراض ہو کے گھر چھوڑ کر چلی گئیں، اور ہر ایک سے گرو کی بے وفائی کا شکوہ کیا۔ گرو دت انھیں منانے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ ضد پہ اڑی رہیں کہ وحیدہ کا بائیکاٹ کریں۔ گرو اس وقت مالی مشکلات میں گھرے تھے، اور ”چودھویں کے چاند” سے ساری امیدیں بندھی تھیں۔ گیتا کی حمایت میں لتا سامنے آئیں۔ انھوں نے گلوکار برادری سے کہا، کہ وہ گرو دت کی فلموں میں گانا نہیں گائیں۔ وحیدہ بھی ایسی صورت احوال میں دباو میں تھیں۔ گرو دت ایک ہی وقت میں فلمی کیریئر، اور گھر بچانے کی تگ و دو کرتے رہے۔ فلم ”چودھویں کا چاند” 1960ء میں ریلیز ہوئی، اور سپر ہٹ ثابت ہوئی، لیکن گرو دت اور گیتا کا گھر بکھر چکا تھا، اس فلم کی کام یابی پر گرو دت نے کہا، ”زندگی میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں، یا تو آپ کام یاب ہوتے ہیں، یا نا کام۔”
اس کے بعد گرو دت نے جو فلم بنائی وہ گرو دت کی سب فلموں پر بھاری ہے۔ اس فلم کا نام ہے، ”صاحب بی بی اور غلام”۔ اس فلم کی ہدایات گرو دت کے مصنف دوست ابرار علوی نے دیں، اور انھوں نے فلم فیئر ایوارڈ کا بہ ترین ہدایت کاری کا انعام پایا۔ ”صاحب بی بی اور غلام” میں وحیدہ رحمان نے اصرار کر کے کام کیا۔ گرو دت نے واضح کیا کہ اس فلم کی ہیروئن مینا کماری ہوں گی، اور سب سے پہلے مینا کماری کا نام اسکرین پر آئے گا؛ وحیدہ رحمان نے اس فلم میں سیکنڈ لِیڈ میں آنا قبول کیا۔ “چودھویں کا چاند” سے وحیدہ، گرو دت سے کھنچنا شروع ہو گئی تھیں، اور ”صاحب بی بی اور غلام” کے دوران میں یہ دوریاں بڑھتی گئیں۔ وحیدہ رحمان اپنے بعد کے انٹرویو میں گرو دت سے افیئر کی تردید کرتی آئیں، لیکن ایک تاثر یہ ہے کہ وحیدہ رحمان نے ترقی کرنے کے لیے اپنے وقت کے بہ ترین فلم ساز کا کندھا استعمال کیا۔ ”صاحب بی بی اور غلام” کے بعد ان دونوں کا ناتا ٹوٹ گیا، کچھ کا خیال ہے، وحیدہ کسی اور کی محبت میں مبتلا ہو گئیں تھیں، اور کچھ کا کہنا ہے، کہ گرو دت کے حوالے سے وہ اتنی بد نام ہو گئیں تھیں، کہ انھوں نے دُوری میں عافیت جانی۔ 1963ء وہ سال ہے، جب برلن فلم فسٹیول میں شریک یہ دونوں ستارے الگ الگ دکھائی دیے۔ کہا جاتا ہے، گرو دت نے آخری دم تک گیتا دت کو منانا چاہا، لیکن گیتا نے نہ مننے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ بیوی بچوں کا چھوڑ کر چلے جانا، وحیدہ کا قطع تعلق کر لینا، فلموں کے اتار چڑھاو نے گرو دت کو ذہنی دباو کا شکار کر دیا تھا۔ تنہائی اور بے خوابی عذاب ہو گئی، تو انھوں نے شراب کا سہارا لیا، جب شراب بھی بے خوابی کی دوا نہ ہوئی، تو شراب میں نیند کی گولیاں بڑھاتے چلے گئے۔ ایسی ہی حالت میں ایک رات انھوں نے آشا بھوسلے کو کال کی، یہ پوچھنے کے لیے کہ اُن کی روٹھی ہوئی بیوی گیتا کہیں ان کے یہاں تو نہیں۔ خیال ہے کہ آشا بھوسلے وہ آخری ہستی ہیں، جن کی گرو دت سے آخری بار بات ہوئی۔ اگلی صبح 10 اکتوبر 1964ء وہ بمبئی کے اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ 39 سال کی عمر میں موت کی وجہ شراب اور نیند کی گولیوں کی زیادتی بتائی گئی۔
ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں ایس ڈی برمن اور لتا کا جھگڑا ہوا، تو ایس ڈی برمن کی خواہش تھی، کہ ان کے نغمے گیتا گائیں۔ آشا بھوسلے کو ابھی پختہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ گیتا المیہ نغمے گائیں تو مینا کماری کی طرح ٹریجڈی کوئین، اور شوخ گانیں سنیں تو شرارت بھری آواز کی ملکہ ہیں۔ ایسے میں اوپی نیئر کی بھی یہی خواہش تھی، کہ گیتا ان کے لیے گائیں۔ ہیمنت کمار، اوپی نیئر اور ایس ڈی برمن کی موسیقی میں گیتا دت نے بہت سے لا جواب نغمے گائے ہیں، لیکن اس وقت گیتا دت کو ان کے شوہر کی موت نے توڑ کر رکھ دیا تھا؛ وہ ویسے واپسی نہ کر سکیں جیسا کہ پہلے مقام تھا۔ گیتا دت نے وحیدہ رحمان کے لیے بھی گانا رِکارڈ کرنے سے انکار کر دیا، لیکن ایک گانا ایسا ہے، جس میں دیو آنند اور وحیدہ رحمان ہیں، اور گیتا کی آواز، لیکن وہ اس شرط پر رِکارڈ کیا گیا تھا، کہ فلم میں وحیدہ کو یہ گانا گاتے نہیں دکھایا جائے گا، یوں یہ گانا پس منظر میں سنائی دیتا ہے۔ شوہر کی موت نے گیتا دت کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ انھوں نے گرو دت ہی کی طرح اپنے آپ کو شراب میں غرق کر لیا۔ 42 سال کی عمر میں بمبئی 20 جولائی 1972ء؛ یہی غم یہی شراب ان کی موت کی وجہ ہوئی۔
اس داستان کا ایک کردار وحیدہ رحمان آج بھی زندہ ہیں۔ انھوں نے دلیپ کمار سے راج کپور تک ہر ایک کے ساتھ کام کیا، لیکن گرو دت کے بہت ہی قریبی دوست دیو آنند کے ساتھ ان کی جوڑی نہایت کام یاب رہی۔ انھوں نے بہت سے شان دار فلمیں دیں، جیسا کہ ”گائیڈ”۔ وحیدہ کی ایک فلم راجیش کھنا کے ساتھ ہے، فلم کا نام ہے ”خاموشی”۔ اس کا قصہ کچھ یوں ہے۔ وحیدہ نے ہیمنت کمار سے کہا، مجھے فلم ”خاموشی” بنانی ہے؛ ہیمنت کمار نے کہا، وحیدہ یہ فلم چلے گی نہیں، تو وحیدہ رحمان نے کہا، ”کچھ فلمیں اپنے من کے لیے بھی بنانی چاہیں۔” فلم ”کاغذ کے پھول” بناتے جب ایسے ہی گرو دت کے دوستوں نے سمجھایا کہ یہ فلم نہیں چلے گی، تو گرو دت نے جواب دیا تھا، کہ ”یہ فلم میں اپنے لیے بنا رہا ہوں”۔ گرو دت نے جو فلم اپنے لیے بنائی، وہ انھیں دیوالیہ کر گئی تھی، لیکن وحیدہ رحمان کے من کی فلم، جہاں وحیدہ رحمان، راجیش کھنا کی اداکاری، گلزار کی شاعری، ہیمنت کمار کی موسیقی سے یاد رکھی جائے گی، وہیں یہ فلم باکس آفس پر انتہائی کام یاب رہی۔
وحیدہ رحمان 27 اپریل 1974ء میں ایک غیر معروف اداکار کمل جیت سے شادی کر کے بنگلور منتقل ہو گئیں۔ اُن سے دو بچے ہیں سہیل اور کشوی۔ سنہ 2000ء میں کمل جیت کے انتقال کے بعد وحیدہ رحمان ایک بار پھر بمبئی آ گئیں۔
اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں عصمت چغتائی؛ ان کا ناول ”عجیب آدمی” پڑھیے۔ یہ ناول گرو دت کی زندگی کے اس دور کا احوال کہتا ہے، جب وحیدہ رحمان ان کی زندگی میں آئیں، اور گیتا روٹھ گئیں۔