واقعہ یوں ہے کہ میں بہت دنوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کبھی کھڑکی کے جھجے پہ آ بیٹھتا، تو کبھی آنگن میں لگے پیڑ کی گھنی شاخوں میں دکھائی دیتا۔ پہلے تو میں نے توجہ نہ دی، پھر ایک دو بار چونکا بھی، کہ یہ کہاں میرے سر پہ سوار ہو رہا ہے۔ ایک دن میں گھر میں اکیلا تھا کہ اسے اپنے قریب بیٹھے پایا۔ ‘ارے اُلو؟’ بے ساختہ میرے منہ سے یہ نکلا، تو وہ جھٹ سے بولا، ‘تو کیا کبھی اُلو نہیں دیکھا؟’ یہ سُن کر میرے حواس جاتے رہے۔ کیا ایک اُلو بھی بول سکتا ہے؟
طلسماتی کہانیوں میں الو کے بولنے کا ذکر نہیں ملتا۔ ہو سکتا ہے، یہ شہ زادہ ہو، اسے کسی جادو گر نے جادو کے زور سے الو بنا دیا ہو۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی میں نے سوال کیا۔
‘تم اُلو کیسے بنے؟’
شٹ اپ!۔۔ میں اُلو بنا نہیں۔ پیدائشی اُلو ہوں۔’
مجھے شبہہ ہوا، یہ کوئی جاسوس ہے۔ ‘تم پاکستانی ہو، یا ہندُستانی؟’
‘یہ سوال بھی بے کار ہے۔ اُلو کا کوئی دیس نہیں ہوتا۔ لاو ایک سگریٹ دو۔’
‘سگریٹ؟ کیا کرو گے؟’
‘اس گھر کو پھونکوں گا۔’ اُلو بد تمیزی پہ اتر آیا۔ ‘سگریٹ کا کیا کرتے ہو، تم؟’
‘تو تم سگریٹ بھی پیتے ہو؟ دیکھو یہ شوقیہ ہے، تو چھوڑ دو۔۔ Tobacco kills۔
اُلو اپنے پنجے جھاڑتے ہوئے کسی فلسفی کی طرح بولا، ‘میاں، مغربی ممالک کے پروپگنڈے سے متاثر لگتے ہو! یہاں گٹر کی پائپ، اور پانی کی سپلائی لائن میں فرق نہیں رہا۔ آلودگی کے باعث، ہر اُلو دمے کا مریض ہوا چاہتا ہے۔ اور تم ایک سگریٹ کو رو رہے ہو؟ نہیں دینا مت دو، لیکن بہانہ تو ڈھنگ کا کرو۔’
میری بیوی سچ کہتی ہے کہ کسی اُلو سے بحث بے کار ہے۔ میں نے ڈبیا سے ایک سگریٹ نکال کر دیا۔
اُلو نے ایک لمبا سا کش لیتے، اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ایک ہی کش میں سگریٹ آدھا رہ گیا۔
‘دو نمبر ہے۔’ اُلو کو گویا کشف ہوا۔
‘کہاں؟’ میری نظریں سامنے والی چھت پہ چلی گئیں۔ اس گھر میں نئے نئے کرائے دار آئے تھے۔ ‘کہاں ہے دو نمبر؟’
اُلو نے منہ بسورا۔ ‘بہت غلیظ سوچ ہے، تمھاری۔ میں اس سگریٹ کی بات کر رہا ہوں؛ دو نمبر ہے۔’ یہ تھا اُلو سے میری پہلی ملاقات کا احوال۔
ہو سکتا ہے، آپ کو بھی کسی ایسے ویسے اُلو سے واسطہ پڑا ہو، لیکن میرے والا اُلو تو میری جان کا عذاب ہو گیا ہے۔ وہ جب دیکھتا کہ میں اکیلا ہوں، تو سگریٹ پینے چلا آتا ہے۔ اس دوران میں کوئی نا کوئی ایسی بات کرتا ہے، جو ایک سو اسی کے زاویے سے باہر ہوتی ہے۔ ایک بار کہنے لگا، یہ جو یورپ نے کم بچے خوش حال گھرانا کا سلوگن دیا ہے، یہ یہودی سازش ہے۔ میں نے پوچھا، ‘کیسے؟’ تو کہا، ‘دیکھو نا، وہاں ریاست بچے کے والدین کا کردار ادا کرتی ہے۔ جننے والی پرورش کی ذمہ دار نہیں، بلکہ ریاست کا فرض ہے، ہر بچے کو خوراک، تعلیم اور زندگی کی ضروریات کی سہولیات فراہم کرے۔ اس لیے ان کا یہ کہنا، بچے دو ہی اچھے۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ جتنے زیادہ بچے ہوں گے، ریاست پہ ان کی دیکھ بھال کا بوجھ پڑے گا۔ ہمارے یہاں کیا ہوتا ہے! یہ کہ ریاست والی وارث نہیں بنتی؛ نہ بچے کی نا ماں باپ کی۔ اب غریب کیا کرے، وہ جتنے بچے پیدا کرے گا، اتنے ہی گھر میں کمانے والے جی ہوں گے۔ ریاست نے اولڈ ہوم بنائے نہیں، تو دس بچوں میں دو تو اچھے نکلیں گے، جو بوڑھے ماں باپ کو سنبھالیں!’
میں نے اعتراض کیا، کہ دس میں سے ایک بھی ماں باپ کو نہ سنبھالے تو؟ بڑے تیقن سے جواب دیا، ‘اُمید پہ دُنیا قائم ہے، دوست۔ اُمید پہ دُنیا قائم ہے۔ اور بچے اُمید کی نشانی ہیں۔’
سچ یہ ہے، کہ کبھی کبھی میں اس کی باتوں سے اتفاق کرنے لگا۔ ایک دن کہا، ‘تم جانتے ہو، پاکستان سے اُلو کیوں کم ہو رہے ہیں؟’ میرے لیے یہ حیرت ناک اطلاع تھی۔ ‘اچھا؟ ایسا ہے؟’
‘تو اور کیا!؟ تم نہیں جانتے، کیا؟’
میرا تجسس بڑھنے لگا، ‘بتاو نا، تجسس بڑھ رہا ہے۔’
‘دیکھو بھائی’ (اب وہ بھائی کہ دیتا تھا، تو مجھے بُرا نہیں لگتا تھا)۔ برین ڈرین ہو رہا ہے؛ برین ڈرین۔ یہاں اُلو کی کتنی قدر ہے؟’
میں نے سوچے بغیر جواب دیا، ‘اُلو تو حماقت کی علامت ہے۔’
‘یہی! یہی! یہی بات۔’۔۔اُلو مسرت بھرے لہجے میں چیخا؛ ‘یہاں اُلو کو احمق سمجھا جاتا ہے، اسی لیے کسی احمق کو اُلو کہ کر کام چلایا جاتا ہے۔ جب کہ یورپ میں اُلو دانش کی پہچان ہے۔’
میرا منہ کھُلے کا کھُلا رہ گیا، ایسے میں زبان ہلائی، تو اپنی آواز ہی نہ پہچانی گئی۔ ‘تو تمھارا کہنا ہے، اُلو اس لیے بیرون ملک جا رہے ہیں، کہ وہاں ان کی زیادہ قدر ہے؟’
باتوں باتوں میں وہ میرے سگریٹ کی ڈبیا کا آخری کارتوس بھی ختم کر چکا تھا۔ ‘لیکن ایک مسئلہ ہے، یار۔’ اُلو یہ خبر دیتے دیتے اُلجھن میں گھِر گیا۔
‘ہاں سگریٹ تو ختم ہو چکے ہیں۔’ میں نے مسئلے کو سمجھتے ہوئے، تائید کی۔
‘سگریٹ کی بات کون کر رہا ہے؟’ وہ جھنجلا کر بولا، ‘یہ جو ہمارے یہاں کے اُلو باہر چلے جاتے ہیں، یہ وہاں تو دانش مند ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی پاکستان کے مسئلے پہ بات کریں گے، تو ویسے اُلو بن جائیں گے، جیسے یہاں کے اُلو، اُلو کو سمجھتے ہیں۔’
‘احمق؟” میں نے پوچھا۔
‘ہاں! یہی بات ہے۔ میں گھتی سلجھانے میں لگا ہوں، سلجھ کر نہیں دیتی؛ تم لکھنے والے ہو، شاید کوئی مدد کر سکو۔’
پہلی بار اُلو نے مجھے میری اہمیت کا احساس دلایا، تو میری انا کی تسکین ہوئی۔ ‘کیوں نہیں! میں نے تو بہت سے مذہبی، لسانی، سیاسی، ادبی مسائل چٹکیوں میں نپٹائے ہیں، بتاو کون سی گھتی ہے؟’
اُلو نے سگریٹ کی خالی ڈبیا کی طرف ہاتھ بڑھایا، تسلی کی کہ بچا کھچا کچھ رہ تو نہیں گیا؛ مایوسی سے ڈبیا کو ایک طرف اچھال کر بولا، ‘دو نمبر ہے۔’
‘کیا؟ سگریٹ؟’
‘نہیں بھائی! اُلو۔ وہ اُلو جو وہاں دانش بکھیرتے ہیں، لیکن جب گھر کی بات آئے، تو احمق بن جاتے ہیں۔’
میں اس کی بک بک سے بیزار آ چکا تھا۔ ‘ہاں! میں یہ گھتی سلجھا سکتا ہوں، لیکن۔’
‘لیکن کیا؟’۔۔ اُلو کی انکھیں چمکنے لگیں۔
‘لیکن یہ کہ اِس وقت سگریٹ ختم ہو گئے ہیں، اور میں سگریٹ کے بغیر نہیں سوچ سکتا۔’
‘لاو پیسے دو، میں بھاگ کر لے آتا ہوں۔’ اُلو نے فراخ دلانہ پیش کش کی۔
‘ایسا ہے اُلو میاں۔ بیوی میکے گئی ہے، اور میری جیب خالی ہے، تو آج تمھی۔’
اُلو نے نتھنے پھیلائے، جھٹ سے میری بات کاٹی۔ ‘دیکھو بھائی۔ میں اُلو ہوں، لیکن اُلو کا پٹھا نہیں۔ چلتا ہوں۔ پھر ملاقات ہو گی۔ یار زندہ صحبت باقی۔’
اُلو پھر سے اُڑا، اور یہ جا وہ جا۔ آپ کہتے ہوں گے، یہ ڈھلمل تحریر پڑھوا کر، میں نے آپ کا وقت ضائع کیا؟ لیکن میں سوچ رہا ہوں، اگلی بار یہ اُلو آئے، تو اسے پکڑ کر بیچ ڈالوں۔ آپ میں سے کوئی ہے، جو وطن پلٹ اس اُلو کو خریدنے میں دل چسپی رکھتا ہو؟