یہ دو چار برس کی بات نہیں۔نصف صدی کا قصہ ہے۔وہ یوں کہ جب ہم کراچی یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے رمضان کے دن تھے اور ہم روزہ رکھ کر اپنی اسپیکر شپ کی الیکشن کمپین چلا رہے تھے اور اس کے لئے ہمیں کراچی یونیورسٹی کے اس زمانے کے تقریبا تیس سے زائد شعبوں میں جانا پڑتا تھا تاکہ ہم کونسلر طلبہ و طالبات سے رابطہ کر سکیں اور ان کے ووٹ کے لیے انہیں اپنے حق میں قائل کر سکیں۔ دراصل جامعہ کراچی میں پہلی مرتبہ الیکشن ہارنے کے بعد اسلامی جمیعت طلبہ نے اپنی اسپیکر شپ کے لئے اس خاکسار کو کھڑا کیا تھا ہمارے مدمقابل جناب قیصر بنگالی والا تھے جو لبرل کی نمائندگی کر رہے تھے۔ لہذا ایک ہی دن میں جامعہ کراچی کے کئی کئی چکر لگانے پڑتے تھے وہ بھی روزے کی حالت میں۔یہ 1975 کی بات ہے۔
نتیجتا ہم الیکشن تو جیت گئے لیکن صحت ہار گئے اور ہمیں بقائی اسپتال ناظم آباد میں داخل کرنا پڑ گیا جہاں پندرہ دن ہم داخل رہے۔اس دوران جامعہ کا جو بھی پوائنٹ وہاں سے گزرتا تھا وہ بقائ اسپتال پر خالی ہوجاتاتھا۔اس صورت حال سے بقائ کی انتظامیہ سخت پریشان تھی۔لہٰزا انھوں نے کسی نہ کسی طرح ہمارا بخار اتار دیا۔ وقتی طور پر تو ہم صحت یاب ہوگئے لیکن فورا ہی دوبارہ بیمار پڑ گئے اور ہمارا بخار ایک سو سات ڈگری تک چلا گیا۔
غرض مرتا کیا نہ کرتا مجبور ہو کر ہم نے سعید کلینک آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع اسپیشلسٹ ڈاکٹر جناب نجیب صاحب سے رابطہ کیا نجیب صاحب کی تعریف زباں زد عام تھی۔ وہ ناصرف ڈاؤ میڈیکل کالج کے پروفیسر اور پرنسپل رہ چکے تھے بلکہ ڈھاکہ میڈیکل کالج اور لیاقت میڈیکل کالج کے پرنسپل بھی رہ چکے تھے مزید سونے پر سہاگا یہ کہ وہ دوسری جنگ عظیم میں برٹش آرمی کی میڈیکل کور میں بھی خدمات انجام دے چکے تھے اور کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ایک تو وہ اتنے بڑے ڈاکٹر تھے اوپر سے کرنل بھی تھے ظاہر ہے ان کا رعب اور دب دبہ سارے کلینک پر حاوی تھا زمانے کے بڑے بڑے مشہور ڈاکٹر جس میں ڈاکٹر بقائی وغیرہ بھی شامل تھے وہ سب ان کے شاگرد رہ چکے تھے چہرے پر فوجیوں والا رعب ہر وقت جاری اور طاری رہتا تھا ہم دیکھتے تھے کہ ہم جیسے مریضوں کا تو ان کو دیکھ کر ہی آدھا خون خشک ہو جاتا تھا۔
وقت کے بہت پابند تھے ایک دفعہ ان کے برابر کے ایک کلینک میں بیٹھے ڈاکٹر عبدالغنی لویا صاحب جو کہ ای این ٹی اسپیشلسٹ تھے اور ستم ظریفی یہ کے ڈاکٹر نجیب صاحب کے شاگرد بھی رہ چکے تھے اتفاق سے ایک دن وہ تاخیر سے آئے ڈاکٹر نجیب صاحب نے ان کے سیکریٹری سے کہا جیسے ہی وہ آئیں ان کو فورا ہی کرنل صاحب کے کمرے میں پیش کیا جائے۔ جیسے ہی ڈاکٹر غنی صاحب آئے ان کو کرنل صاحب کے پاس حاضری دینی پڑی اور وہ نجیب صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ سے مستفید ہوئے وہ تو شکر ہے کہ کرنل صاحب ریٹائر ہوچکے تھے ورنہ ان کا کورٹ مارشل ہی ہوجاتا۔ مگر ان کی تابعداری تھی کہ سر جھکائے خاموشی سے سنتے رہے اور آئندہ وقت کی پابندی کی یقین دھانی کراتے رہے۔ وہ بھی کیا زمانے تھے کہ استاد کو باپ سے بڑھ کر عزت دی جاتی تھی اور ان کا دل و جان سے احترام ہوتا تھا۔ اساتذہ اور طلبہ کا رشتہ بھی بہت عظیم ہوتا تھا اور احترام سے بھرپور ہوتا تھا۔
خیر آمدم بر سر مطلب۔ جب ہمارا نمبر آیا تو ہم بھی ڈاکٹر صاحب کے سامنے پیش ہو گئے پہلی دفعہ ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر تو جسم پر کپکپی طاری ہو گئی چہرے پر بہت موٹے شیشوں کی عینک لگائے ہوئے تھے اور اس کے باوجود تمام رپورٹ اور نسخے پڑھنے کے لیئے ایک اور موٹا سا عدسہ بھی استعمال کرتے تھے انہوں نے بہت اچھی طرح سے ہماری معروضات سنیں اور پھر ہمیں اچھی طرح سے ٹھوک بجا کر ربڑ کی ہتھوڑی سے چیک کیا اس کے بعد انہوں نے تمام رپورٹیں پڑھیں اور گزشتہ علاج کی ہسٹری معلوم گی پھر فرمانے لگے بیٹا ظفر تم سے تو میں بعد میں نمٹوں گا چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے فوراً ہی ڈاکٹر بقائی کو فون ملایا اور ان کی کلاس لینی شروع کر دی بولے یہ تم نے پڑھا ہے اس بچے کا کیس تم نے خراب کر دیا بالکل غلط ڈائیگنوز کیا ہے۔
پھر کراچی لیبارٹری کے ڈاکٹر عالم صاحب سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں اس بچے کو بھیج رہا ہوں آپ اس کا فوری ٹیسٹ کرکے اس کی رپورٹ دو گھنٹے کے اندر مجھے دے دیں ڈاکٹر عالم صاحب بھی ان کے شاگرد رہ چکے تھے ہم فوراً ہی ڈاکٹر عالم صاحب کے پاس پہنچ گئے انہوں نے ہمارے سینے کی ہڈی سے خون نکالا اور لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا جیسے ہی ٹیسٹ کی رپورٹ آئی وہ رپورٹ لے کر ہم ڈاکٹر نجیب صاحب کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوگئے ڈاکٹر صاحب نے رپورٹ دیکھتے ہی صحیح ڈائیگنوز کیا اور بہت معمولی سی دوائیوں سے ہمارا علاج شروع کیا اور ہمیں پرہیزی کھانا بھی بتایا اور کہا کہ آپ ہر ہفتے اپنے بلڈ کی رپورٹ دکھا دیا کریں ہم نے ایک ماہ تک ایسا ہی کیا علاج اور پرہیز بھی چلتا رہا اور رپورٹ بھی دکھائی جاتی رہی الحمدللہ ایک مہینے میں ہم بالکل تندرست ہوگئے۔
بظاہر ڈاکٹر صاحب شکل سے بہت ہی کرخت لگتے تھے مگر دل کے بہت ہی نرم تھے ہم نے ان کو کئی بار دیکھا کہ کسی غریب کا علاج کرتے ہوئے وہ جائزہ لے لیتے تھے کہ یہ شخص غریب ہے فیس اور دوا کے پیسے ادا نہیں کر سکتا وہ خاموشی سے اس کے نسخے کے ساتھ دواؤں کی رقم اندازے سے اسٹیپل کردیتے تھے اور اپنی فیس معاف کر دیتے تھے ان کے اس طرز عمل نے ہمیں بہت متاثر کیا اس کے بعد ہم اور ہمارا خاندان ان کے مستقل مریض بن گئے اور ان سے ایک محبت اور احترام کا رشتہ قائم ہو گیا۔
ہمارے علاج کے دوران انھوں نے پوچھا کہ ہم کیا جاب کرتے ہیں ہم نے عرض کیا کہ ابھی تازہ تازہ ایم ایس سی کیا ہے۔ کہنے لگے جب تک تمہاری جاب نہی ہو جاتی مین تم سے فیس نہی لونگا پھر کہنے لگے بینک میں نوکری کرو گے ہم نے کہا اندھا کیا چاہے دو آنکھیں فورا حامی بھر لی اتفاق سے وہ حبیب بینک کے چیف میڈیکل آفیسر بھی تھے انہوں نے اپنے لیٹر ہیڈ پر ایک خط حبیب بینک کے ایچ آر کے ہیڈ کو لکھا۔
یہ خط لے کر ہم حبیب بینک گئے جہاں ہمارا تحریری ٹیسٹ ہوا اور ابتدائی انٹرویو کے بعد فائنل انٹرویو ہوا گویا بینک نے ان کے لیٹر کو ریفرنس کے طور پر استعمال کیا لیکن ہمارے ساتھ کوئی فیور نہیں کیا اور ہمیں میرٹ کے سارے پروسیجر سے گزارا اور جب ہم نے میرٹ پر تمام ٹیسٹ اور انٹرویوز پاس کرلیے تو انہوں نے ہمیں اپائنٹمنٹ لیٹر دیا۔مگر اتفاق سے میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا بھی ضروری تھا بینک نے ہمیں دوبارہ کرنل صاحب کے پاس میڈیکل ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے لیٹر دیکھ کر ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا جو بادشاہ بھی بادشاہوں کے ساتھ نہی کرتے۔
. . . . کرکے دل کا شیشہ چور۔۔۔۔۔
. . . ایسے بیٹھے ہین حضور ۔۔۔۔
. . . جیسے جانتے نہی پہنچانتے نہی۔۔۔
حالانکہ ہم انہیں کے دئیے ہوئے لیٹر پر حبیب بینک گئے تھے۔ خیر انہوں نے ہمیں دوسرے تمام کینڈیڈیٹ کے ساتھ لائن سے کھڑا کر دیا اور ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں یہاں تک کہ ہماری آنکھیں اور چشمے کا نمبر دیکھ کر کہنے لگے کہ تم تو بالکل اندھے ہو اور دیوار پر لگے ایک چارٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس کو پڑھنا شروع کرو ہم نے پورا چاٹ تو پڑھ دیا لیکن آخری لائن میں کچھ گڑ بڑ کرگئے۔ کہنے لگے تم ایک طرف کھڑے ہو جاؤ تمہارا آنکھوں کا ٹیسٹ دوبارہ ہوگا سب سے آخر میں۔
ہم دم بخود ایک طرف کھڑے ہو گئے کہ پتہ نہی اب ڈاکٹر صاحب ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے ہین۔ خیر ہم نے بھی دل ہی دل میں وہ آخری لائن رٹ لی اور جیسے ہی ہمارا دوبارہ نمبر آیا ہم نے آنکھین بند کر کے وہ لائن صحیح صحیح پڑھ دی ڈاکٹر صاحب بھی حیران ہوگئے ہم نے ان کی حیرانی دور کرتے ہوئے کہا دراصل آپ کے خوف کے مارے ہمارا بلڈ پریشر ہائی ہو گیا تھا جس کی وجہ سے آنکھوں کو اضافی خون مل گیا اور ہماری آنکھوں نے آخری لائن صحیح سے پڑھ لی ثابت ہوا کہ ہم بلڈ پریشر میں زیادہ اچھی طرح سے پڑھ سکتے ہیں ڈاکٹر صاحب ہماری طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے تم نے میرے ریفرنس لیٹر کی لاج رکھ لی۔
البتہ کافی عرصے تک کمپیوٹر پروگرامنگ کرنے کے بعد ہماری آنکھ کا نبر 4 ڈگری بڑھ کر مائنس 7.5 ہوگیا۔اس دوران ہمین پھر آنکھوں کی تکلیف ہوئ۔اور ہم نے آنکھ کے اسپیشلسٹ کو دکھایا۔انہوں نے کہا کہ کہ آپ کے دو نمبر کم ہوگئے ہیں۔ہم نے حیرانگی سے پوچھا کہ اب تک تو ہم نے نمبر بڑھتے ہی دیکھے ہیں یہ کم کیسے ہوگئے۔کہنے لگے کہ کبھی کبھی ہزاروں میں ایک کیس ایسا ہوجاتاہے کہ بلڈ پریشر کی وجہ سے نسوں کو اضافی خون مل جاتا ہے اور وہ بہتر کام کرنے لگتی ہیں۔لہزا آپ کے بھی دو نمبر کم ہوگئے ہیں اور انہوں نے نئے نمبر کی عینک لگادی اور ہم صحیح صحیح دیکھنے لگ گئے۔اس سے ثابت ہوا کہ ہم نے ڈاکٹر نجیب صاحب کو جو تھیوری پیش کی تھی کئی سال بعد وہ درست ثابت ہوگئی۔اللہ کا شکر ہے جس نے عزت رکھ لی۔
خیر ڈاکٹر صاحب ہمارے خاندانی ڈاکٹر بن چکے تھے۔اسی دوران کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ہمارے بڑے بھائ مرحوم صالح صاحب کو گردن توڑ بخار ہوگیااور وہ بے ہوشی کی حالت میں سول اسپتال میں داخل کردیئے گئے وہاں اتفاق سے ڈاکٹر نجیب صاحب سے واسطہ پڑا۔انہوں نے ٹیسٹ کرائے اور بتایا کہ اس مریض کاعلاج پینسلن کے انجیکشن میں ہے مگر مریض اس سے الرجی ہے اگر پینسیلن سے علاج کیا تو مریض گردن توڑ بخار سے پہلے ہی فوت ہوجائے گا۔لہٰزا تمام ڈاکٹروں کا بورڑ بٹھایا اور انہیں مسئلہ بتایا کہ اب اس کا حل یا متبادل علاج بتائیں۔کوئ صحیح جواب نہ دے سکا۔مگر ڈاکٹر نجیب صاحب نے حل بتایا کہ سلفاڈائزین کی 24 ٹیبلیٹ لیکر پیسیں اور مریض کو منہ کے زریعے زبردستی پلائیں کیونکہ مریض بے ہوش ہے۔ بس پھر کیا تھا مریض کا علاج اسی طرح تین دن تک کیا یہاں تک کہ حالات قابو آگئے۔
اور ہمارے بھائ صاحب دس دن بعد ہوش میں آگئے۔ایسا ہزاروں میں کسی ایک مریض کے ساتھ ہوتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ہمارے والدین بھائ کے پاس دس دن صرف نمازیں۔قرآن شریف پڑھتے رہے اور وظیفے اور دعائیں کرتے رہے۔اللہ نے دوسری زندگی دی۔ اور ہمارے بھائ صاحب الحمد اللہ اس کے بعد چالیس سال سے زائد زندہ رہے اور نارمل زندگی گزاری۔اس سارے معاملے میں ڈاکٹر نجیب صاحب کے کردار کو نظر انداز نہی کیا جاسکتا۔اللہ تعالیٰ انہیں بھی اپنی جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔آمین ثمہ آمین۔