لو جی ہم چلدئیے پھالیہ۔ بھلا پھالیہ کیا ہے۔ یہ پنجاب میں ایک تاریخی شہر ہے جہاں سکندراعظم کا چھیتا گھوڑا فوت ہو کر آسودہ خاک ہے۔ اور اس کا مزار شریف بھی موجود ہے۔ پھالیہ کا نام نامی اسی گھوڑے کے نام پر ہے۔ اس سے زیادہ روشنائ ہم نہیں ڈال سکتے کہ اس مرحوم و مغفور گھوڑے کا عرس ہوتا یے یا نہیں؟ اور اب تک اس کا مجاور بن کر کوئ ایم این اے بنا یا نہیں۔ وزیر کا چانس بھی ہوسکتا ہے آزمائش شرط ہے جو لوگ دلچسپی رکھتے ہیں وہ پہلی فرصت میں پھالیہ میں گھوڑے کے مزار پر پہنچیں۔ پہلے پہنچیں اور پہلے پائیں۔
خیر آمدم برسر مطلب۔ ہم اپنے عزیز دوست عطا محمد تبسم کے ساتھ شاہ حسین ایکسپریس پکڑ کے کراچی سے لاہور پہنچے۔ جمعرات کی رات چلے اور تاخیر کے ساتھ جمعہ کی رات پہنچے۔ اسٹیشن سے ٹیکسی کے زریعے رات قیام کیلیے الخدمت فاونڈیشن کمپلیکس کی عظیم الشان عمارت میں پہنچے اور کسی 5 اسٹار ہوٹل کا لطف اٹھایا۔ قیام و طعام کا بندوبست لاہور کے رابطہ کار بھائ ملک رب نواز نے کیا۔ جناب عبدالشکور صدر الخدمت فاونڈیشن اور ان کی ٹیم نے مہمان نوازی میں کوئ کسر نہ چھوڑی۔ جس کیلیے ہم ان کے ممنون و مشکور ہیں۔ ہفتہ کی صبح ہم لاری اڈے پہنچے جہاں سے گیارہ بجے ہماری ائرکنڈیشن بس پھالیہ کیلیے روانہ ہوئی۔ بس میں لاہور اور کراچی کے شرکاء کی تعداد پچاس کے لگ بھگ تھی۔ ہم چار گھنٹے کے طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد خیر سے پھالیہ پہنچے۔ ہہنچتے ہی منتظمین نے ہمیں بہت ہی محبت اور احترام سے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بس گود لینے کی کسر رہ گئی۔ کیا پتہ کسی کو گود بھی لے لیا ہو۔
جناب ضیغم مغیرہ صاحب جو غزالی اسکولز و کالجز کے کرتا دھرتا ہیں۔ چہرہ پر بہت ہی پر کشش مسکراہٹ کے ساتھ ہر آنے والے کا استقبال کررہے تھے۔ سب سے پہلے ہماری آمد کی رجسٹریشن ہوئ۔ کانفرنس کا بیج لگایاگیا۔ ایک عدد بستہ جس میں قلم کاغز اور کانفرنس کے پروگرام کی تفصیل تھی۔ ہمارے حوالے کیا گیا۔ پھر ہم اپنا سامان وسیع وعریض قیام گاہ میں رکھ کر کھانے کے لیے طعام گاہ کے بڑے سے پنڈال پہنچے جہاں بہت ہی پر تکلف دعوت ہماری منتظر تھی۔ ہم نے بھی طعام کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ بعد ازاں چائے کا دور چلا۔ اس مصروفیت سے نکل کر ہم کانفرنس کے پنڈال میں پہنچے جہاں ریڈ کارپٹ اور خوبصورت پھولوں اور غباروں سے سجی گزرگاہ اور محرابیں ہمارے استقبال کیلیے بے چین تھیں۔ اسٹیج بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ بنایا گیا تھا۔ ہر طرح کے ملٹی میڈیا۔ فوٹو گرافرز اور فیس بک پر لائف کوریج کے انتظامات موجود تھے یہاں تک کہ ڈرون کیمرے بھی محوِ پرواز تھے۔ اس دوران ہماری اتنی تصاویر کھینچی گئیں۔ جیسے ہم بارات کے دولھا ہیں۔ اتنی تصاویر تو خود ہماری شادی میں بھی نہ لی گئی ہونگی جتنی یہاں بنائ گئیں۔
پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ؐ سے ہوا۔ جس کے بعد دائرہ کے سرپرست جناب ضیغم مغیرہ صاحب نے استقبالیہ خطاب فرمایا۔ پھر صدر دائرہ جناب احمد حاطب صدیقی صاحب نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر کما حقہُ روشنی ڈالی۔ یوں کانفرنس کا باضابطہ آغاز ہوا۔ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ ڈھائ سو لوگوں نے شرکت پر آمادگی ظاہر کی اور دوسو سے زائد خواتین و حضرات معہ بچوں کے کانفرنس میں عملاً شریک ہوئے۔ یوں کانفرنس دوسو سے زائد مندوبین اور سیکڑوں مقامی شرکاء پر مشتمل ایک بہت ہی کامیاب کانفرنس تھی۔ نوجوانوں اور طلبہ و طالبات کی بھی ایک اچھی خاصی قابل زکر تعداد شریک تھی۔
ہہلی ہی نشست میں محترم خلیل الرحمٰن چشتی صاحب نے ” تعمیری ادب کے تشکیلی عناصر” پر معلومات سے بھر پور اور بہت ہی ہر مغز خطاب فرمایا اور حاضرین نے دل کھول کر پزیرائ کی۔
دوسری نشست میں ” تعمیری ادب کا فروغ کیسے ہو؟” کے موضوع پر ایک بہت ہی دلچسپ مزاکرہ ہوا۔ جس میں ڈاکٹر فخر الاسلام پشاور۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر راولاکوٹ۔ شیخ فرید کوئٹہ۔ ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم فیصل آباد اور محمد افضل رائید کراچی نے حصہ لیا اور اپنے اعلٰی خیالات سے شرکاء کو مستفید کیا۔ نظامت کے فرائض ہمارے ہم رکاب کراچی کے جناب عطا محمد تبسم نے نہایت خوبصورتی سے انجام دئیے۔
اس کے بعد علامہ اقبال کی مشہور نظم ” شکوہ ” کی بصری پیشکش محترم عبید اللہ کیہر صاحب نے شرکاء کو دکھائ۔ جس میں پاکستان کی ٹیناثانی نے اردو اور مصر کی ام کلثوم نے عربی میں ترجمہ سناکر حاضرین کو مسحور کردیا۔ اور بہت داد وصول کی۔
بعد نماز عشاء ایک بہت ہی پرتکلف عشائیہ ہوا۔ اور پھر ایک بہت ہی شاندار اور جاندار کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا۔ جس میں اسی کے قریب شعراء نے اس شرط کے ساتھ کلام سنایا کہ صرف تین شعر پڑھنے کی اجازت ہے ورنہ یی محفل صبح تک چلی جائے گا جبکہ دوسرے دن بھی کانفرنس ہوناتھی۔ مگر وہ شاعر ہی کیا جو تین اشعار کی پابندی کرے لہٰزا اکثر شعراء نے تین سے زائد اشعار سنائے۔ خواتین شعراء نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پچاس شعراء تو وہ نوجوان تھے جن کا تعلق پھالیہ اور اس کے قرب و جوار سے تھا۔ آخر میں جب رات بھیگ چلی تھی صدر مشاعرہ جناب عباس تابش نے مشاعرہ لوٹ لیا۔ ان کا ایک بہت ہی خوبصورت شعر حاضر ہے جس نے سامعین کی آنکھیں نم کردیں۔
۔۔۔ ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
۔۔۔ میں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے۔
بھیگی بھیگی رات اور بھیگی بھیگی آنکھوں کے ساتھ یہ مشاعرہ رات ایک بجے اختتام پزیر ہوا۔
خیر نیند سے مخمور آنکھوں اور تھکن سے چور بدن کے ساتھ شرکاء نیند کی آغوش میں چلے گئے تاکہ ایک نئی سہانی صبح کے ساتھ کانفرنس کے دوسرے دن کے پروگرامات سے محظوظ ہوسکیں۔
جناب ضیغم مغیرہ صاحب نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ دوسرے دن ناشتہ میں چھتیس ڈشیں ہونگی۔ ہم گن تو نہ سکے مگر اتنی ڈشیں ضرور تھیں کہ اگر ہر ایک سے ایک نوالہ بھی لیا جائے تو طبیعت سیر ہوجائے۔ میزبانوں نے ہمیں کھلا کھلا کر مارنے کا پورا بند و بست کیا تھا لیکن ہم بھی ڈھیٹ نکلے۔ ان کے کھانوں سے تو نہ مرے مگر ان کی محبتوں نے ہمیں مار ڈالا۔
۔۔۔ ہائے ہائے ظالم مار ڈالا۔ مار ڈالا
ناشتے کے بعد ہم دوبارہ بسوں میں سوار ہوکر بسم اللہ شادی ہال پہنچے جہاں ایک بہت بڑے ائرکنڈیشنڈ ہال میں بہت ہی خوبصورت اور سحر آفریں ماحول میں ہمیں لایاگیا۔ اسٹیج بھی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ صوفوں اور کرسیوں کے ساتھ حسین ٹیبل لیمپس رکھے تھے جن کی رنگ برنگی مسحورکن روشنی نے ایک سماں باندہ دیاتھا۔ یہاں بھی میڈیا۔ ملٹی میڈیا فوٹو گرافی اور ڈرون کیمروں کا بھرپور استعمال دیکھنے میں آیا۔ پوری کانفرنس کی لائف کوریج فیس بک پر جاری تھی۔
دوسرے دن کی پہلی نشست اور کانفرنس کی چوتھی نشست میں سب سے پہلے جناب کرنل اشفاق حسین کی صدارت میں ایک نثری نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں سب سے پہلے اس خاکسار یعنی ظفر عالم طلعت بقلم خود کو دعوت دی گئی کہ بزبان خود اپنی گدگداتی تحریر پیش کروں۔ حکم حاکم مرگ مفاجات۔ تعمیل کے علاوہ چارہ نہ تھا۔ خیر ہم نے بھی ایک مضمون بعنوان
” پرس ” پیش کیا تاکہ پرس کی وجہ سے خواتین بھی لطف اندوز ہوں اور مرد حضرات خواتین کو دیکھ کر دل سے پرس کو پزیرائ بخشیں۔ امید ہے پسند آیا ہوگا۔ آپ لوگوں کی رائے بتائے گی۔
ہمارے بعد محترم جناب عامر بشیر صاحب (جو کہ صاحب کتاب بھی ہیں) نے اپنا مضمون ” لوٹا ” پیش کیا جس کو سن کر سب ہی لوٹ پوٹ ہوگئے۔ اور خوب داد دی۔ آخر میں صاحب صدر جناب کرنل اشفاق حسین صاحب نے اپنی کتاب سے کچھ اقتباسات پیش کئے جس سے ہم سب بہت محظوظ ہوئے اور دل کھول کر داد دی۔
چوتھی نشست بعنوان “ادب اطفال۔عصری تقاضے” کے عنوان سے منعقد ہوئ۔ جس میں محترم اشفاق احمد خان اور ڈاکٹر محمد افضل حمید نے اپنے تحقیقی مقالے پڑھے اور بچوں کے ادب اور اس کی موجودہ ضروریات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ جس میں صدر محفل ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
بعد ازاں پانچویں نشست “ادب کی گمشدہ کہکشان” منعقد ہوئ۔ جس میں ڈاکٹر ساجد خاکوانی اور جناب ضیغم مغیرہ صاحب نے تفصیلی اظہار خیال کیا اور صاحب صدر جناب خلیل الرحمٰن چشتی صاحب نے موضوع کو بہت خوبصورتی سے سمیٹا۔
اس کے بعد ظہرانہ ہوا۔ اور حسب معمول میزبانوں نے کھانے پر اتنا زور دیا کہ کچھ شرکاء کو کہنا پڑا کہ یہ اہل قلم سے زیادہ اہل شکم کانفرنس لگتی ہے۔ ناشتہ اور کھانے کے درمیان پھلوں اور چائے سے بھی تواضع چلتی رہی۔
ظہرانے کے بعد اختتامی نشست منعقد ہوئ جس میں چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے نمائندوں کو موقع دیا گیا کہ وہ کانفرنس اور اس کے مقاصد اور انتظامات کے حوالے سے اظہار خیال کریں۔ تاثرات اور تجاویز سے مستفید کریں۔ تاکہ آئندہ کانفرنس کو مزید بہتر بنایا جائے۔ اس موقع پر اس خاکسار ظفرعالم طلعت نے بھی سندھ کی نمائندگی کرتے ہوئے اظہار خیال کیا۔
اختتامی نشست کی صدارت ڈاکٹر انیس احمد صاحب کو کرنی تھی مگر ایوان وزیراعظم سے ان کا بلاوا آگیا جس کی وجہ سے وہ شرکت نہ کرسکے۔ لہٰزا اعجاز شفیع گیلانی صاحب کو ہی صدر مجلس بنادیا گیا۔ اس محفل میں جناب ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی صاحب ( چیئر مین گیلپ پاکستان) نے کلیدی خطاب بعنوان ” پاکستانی معاشرے کے مسائل اور اہل قلم کا کردار ” کیا۔ قبل ازیں مہمان خصوصی جناب عبدالشکور صاحب ( صدر الخدمت فاونڈیشن پاکستان) نے خطاب کیا۔ جس کے بعد ضیغم مغیرہ صاحب نے حاظرین کا شکریہ ادا کیا اور دعا پر اس کانفرنس کا اختتام کیا۔
یوں اس خوبصورت کانفرنس کا اختتام ہوا سب شرکاء ایک دوسرے سے گلے ملے اور وعدہ فردا پر آنکھوں میں آنسو لیے اور دلوں میں محبتوں کا زمزم بھرے بادل ناخوستہ رخصت ہوئے۔ ان شاء اللہ یار زندہ صحبت باقی۔ رہے نام اللہ کا۔