ہمارے دوست مرحوم بیدل جونپوری صاحب بہت پہلے فرماگئے ہیں کہ مکھن ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
اس بات پر تو سب ہی متفق ہیں کہ دنیا کا ہر ناممکن کام مکھن کے استعمال سے ممکن ہوجاتا ہے۔ اگر آپ کے بچے کا داخلہ نہ ہورہا ہو تو استاد کو مکھن لگائیے اور فوراً ہی فیض پائیے۔ اگر آپ کی ترقی رکی ہوئ ہے تو افسران بالا کو مکھن لگائیے آپ کا پرموشن لیٹر آپ کے قدموں میں۔ قدموں سے یاد آیا کہ اگر مکھن کا صحیح اور بر وقت استعمال ہو تو محبوب بھی معہ بزرگوں کے آپ کے قدموں میں ڈھیر ہوسکتا ہے۔ یہ تو معدودے چند مثالیں تھیں مکھن کی افادیت پر ورنہ تو شاید ہی کوئ کام ایسا ہو جو مکھن سے نہ ہو۔ مگر مکھن کے استعمال کا طریقہ کار درست بروقت اور بر محل ہونا چاہیے ورنہ یہ وظیفہ الٹا بھی ہو سکتا ہے۔
اس پر ہمیں یاد آیا کہ ہمارے ایک دوست عین بقرعید سے چند دن پہلے اپنے بگ باس کے پاس ایک عدد تندرست بکرا لیکر گئے اور ہدیہ کرتے ہوئے بولے کہ سر یہ عید پر قربانی کیلیے میں اپنے گاوں سے خصوصی طور پر آپ کیلیے لایا ہوں۔ مگر رد عمل میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ باس کا پارہ ایک دم سوا سو ڈگری پر پہنچ گیا۔ باس نے چیختے ہوئے کہا اس بکرے کی تو قربانی ہی جائز نہیں ہے۔ یہ تو خصی ہے۔ یہ صاحب منہ لٹکا کر واپس آگئے۔ دراصل ایسے معاملات میں ہوم ورک مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ ان کو معلوم ہی نہ تھا کہ باس کے مسلک میں خصی بکرے کی قربانی جائز نہیں ہے۔
اسی طرح ایک اور صاحب کا قصہ مشہور ہے کہ وہ تھری پیس زنانہ سوٹ لیکر گئے باس کو دینے کہ بھابھی کیلیے لایا ہوں۔ اب ان غریب کو پتہ ہی نہ تھا کہ صاحب تو دوسال سے رنڈوے بیٹھے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو دوست کا کہ اس نے بات بگڑنے سے پہلے ہی سنبھال لی کہ سر یہ جانے والی نہیں بلکہ آنے والی بھابھی کیلیے ہے۔ صاحب کے چہرے پر غصہ کی جگہ مسکراہٹ آگئی اور انہوں نے تحفہ قبول کرلیا۔ یوں مس فائر سے بچ نکلے۔
اب اگر آپ کو مس فائر سے بچنا ہے تو کسی کو بھی مکھن لگانے سے پہلے اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں۔ ویسے اس میں قسمت کا بھی بڑا دخل ہے۔ اگر قسمت مائل بہ پرواز ہو تو سب کام سیدھے ہوجاتے ہیں۔ یہ کام بھی ہر کسی کے بس کا نہیں ہے۔ ہر ایک کی طبیعت اور مزاج مختلف ہوتا ہے۔ ہر کوئ آسانی سے اور خوبصورتی سے مکھن نہیں لگاسکتا۔ یہ بھی ایک بہت بڑا فن ہے اور ہمارے پرفیشنل اداروں میں اس کو بھی پڑھانا چاہیے خالی خولی متعلقہ مضمون پڑھانا ہی کافی نہیں ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ “شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر ” جیسی کتابوں میں بھی اس پر کوئ روشنائ نہیں ڈالی جاسکی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد بھی لوگ ترقی نہیں کرپاتے کیونکہ مکھن لگانے کے فن سے نا بلد ہوتے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں چونے کی طرف۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کوئ صاحب پان کھا کر چلانا شروع ہوجاتے ہیں کہ ہائے ظالم چونا لگادیا۔ پان والا کہتا ہے صاحب جی میں نے تو ہلکا سا ہی لگایا تھا۔ اکثر آپ نے پان کی دوکان پر دیکھاہوگا کہ لوگ کہتے ہیں بھائ پان والے چونا زرا ہلکا ہی رکھنا۔ یہ تو بات ہے حقیقی چونے کی ورنہ محاورتاً تو اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں نے فلاں کو چونا لگایا۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اول الزکر نے دوسرے کو نقصان پہنچا کر اپنا الو سیدھا کیا۔ یعنی فلاں نے فلاں کو الو بنایا۔ یہاں الو بھی بڑے کام کی چیز ہے۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی نے کسی کو طوطا بنایا یا چڑیا بنایا۔ یہ تو الو کی اعلٰی ظرفی ہے کہ وہ نظر انداز کردیتا ہے کہ مجھے بے وقوفی کی علامت کے طور پر کیوں استعمال کیا گیا۔ لہٰزا لوگ الو کی اسی صفت سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو الو بناتے رہتے ہیں۔
اب تو پاندان کا رواج خال خال ہی رہ گیا ہے ورنہ گھروں میں اکثر سننے کو ملتا تھا کہ خالہ چونا زرا کم ہی لگائیو۔ اور خالہ کہتیں۔ اے بیٹا میں کہاں چونا لگاتی ہوں۔ چونا لگا نا تو کوئ ہماری نند سے سیکھے۔ ایسی صفائ سے چونا لگاتی تھیں کہ اگلا مسوس کے رہ جاتا ہے اور پلٹ کے کچھ کہنے سے بھی جاتا ہے۔ چونے کا کچھ اچھا استعمال بھی ہے۔ اکثر عیدین میں لوگ چونے سے عیدگاہ میں صفیں بناتے ہیں۔ قربانی کے بعد خون اور آلائیشوں پر چونا چھڑکتے ہیں تاکہ جراثیم مر جائیں۔ اکثر در و دیوار پر بھی چونا کاری کی جاتی ہے جس سے دیواریں صاف اور خوبصورت لگتی ہیں۔ پہلے زمانے میں تو بڑی بڑی تاریخی تعمیرات میں گارے کے ساتھ ساتھ چونا بھی لگایا جاتا تھا۔ جس سے عمارت صاف اور خوبصورت دکھائ دیتی تھی اور برسوں چلتی تھی۔
اب یہ عالم ہے کہ لوگ چونے کے اچھے استعمال کو ترک کرکے بے دھڑک دوسروں کو چونا لگاتے چلے جاتے ہیں اور ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اکثر اپنی ایک بوٹی کی خاطر دوسرے کا پورا بکرا حلال کردیتے ہیں۔ اسی طرح لوگ ایک دوسرے کو مکھن لگاتے رہتے ہیں اور ترقی کا زینہ چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ آپ نے ہمیشہ یہی دو الفاظ سنے ہوں گے کہ فلاں نے فلاں کو مکھن لگایا۔ یا فلاں نے فلاں کو چونا لگایا۔ یعنی مکھن اور چونا ہی کام کی چیز ہیں جہان تگ و دو میں۔ کبھی کوئ یہ نہیں کہتا کہ فلاں نے فلاں کو گلے سے لگایا۔ فلاں نے فلاں کو خوشبو لگائ۔ سب کا زور مکھن اور چونا لگانے پر ہی ہے۔ مجبوراً ہم بھی یہی کہیں گے کہ ہمیشہ ایک ہاتھ میں مکھن اور دوسرے میں چونا رکھیں۔ اور موقع کی مناسبت سے لگاتے جائیں۔ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔