یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب آتش جواں تھا اور حبیب بنک پلازہ میں آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں بحیثیت پروگرامر کام کرتا تھا۔ جو لوگ بھی بینکنگ اور آئی ٹی کے کام سے واقف ہیں وہ یقیناً اس بات سے بھی واقف ہونگے کہ اس کام میں دفتر جانے کا تو وقت مقرر ہوتا ہے مگر واپسی کا پتہ نہیں ہوتا۔ نکلنے کو ہاتھی نکل جائے اور پھنسنے کو ایک نکتہ ہی کافی ہے۔ اسی بات کو شاعر نے کچھ یوں کہا ہے۔
ایک نکتے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا
ہم دعا کرتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
تو جناب کمپیوٹر کے کام میں اکثر یہ ہوتا تھا کہ کوئی نہ کوئی نکتہ اٹک جاتا اور ہماری ساری رات اس کو ڈھونڈھنے اور اس کا حل نکالنے میں گزر جاتی تھی۔ اکثر رات دیر گئے گھر واپسی ہوتی تھی۔ ظاہر ہے جب رات دو ڈھائی بجے آپ حبیب بنک پلازہ سے نکلیں گے تو ایک ہو حق کا عالم ہوگا۔ ایسے میں کوئی معقول سواری ملنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن تھا۔ ایسے میں لے دیکر ایک ڈبلیو گیارہ منی بس کا آسرا رہ جاتا تھا۔ جو رات دن چوبیس گھنٹے چلتی رہتی ہے۔ جو کہ کراچی جیسے شہر میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس کا روٹ بھی طویل ترین ہے۔ یہ گودی سے شروع ہوکر بیچ شہر سے بزریعہ بندر روڈ اور پھر شاہراہ پاکستان سے ہوتی ہوئی نیو کراچی کے آخری کونے یعنی خدا کی بستی پر ختم ہوتی ہے۔
یہ سنہ 1985-86 کی بات ہے کہ ایک دفعہ ہمیں بہت دیر ہوگئی اور رات کے تین بج گئے خیر مرتا کیا نہ کرتا ہم ڈبلیو گیارہ میں سوار ہوگئے۔ پہلے تو خاصا انتظار کرنا پڑا کہ بس مسافروں سے لبالب لبریز ہوجائے۔ اس کے بغیر ڈرائیور یعنی پائلٹ کو مزہ ہی نہیں آتا۔ ہم نے پائلٹ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ اس منی بس پر اکثر ایف سکسٹین لکھا ہوتا ہے بلکہ ایف سکسٹین بنا بھی ہوتا ہے۔ اور ڈرائیور بھی اس کو ایسی رفتار سے لہرا لہرا کے چلاتا ہے کہ ہوائی سفر اس کے سامنے ہیچ ہے۔ منی بس اندر اور باہر سے بہت سجی ہوتی ہے اور ہار پھول سے لدی ہوتی ہے جیسے کسی دولھا کی سواری ہو۔
جب بس مسافروں سے بھر جاتی تو کنڈکٹر سیٹی بجا کر چلاتا۔ ” ڈبل ہے۔ جانے دو استاد” ۔ اور استاد شاید اسی صور اسرافیل کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ وہ ایکسیلیٹر پر پورا زور ڈالر کر اس پر ایک پتھر رکھ دیتے ہیں۔ اور خود آلتی پالتی مار کر سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اب بس جانے۔ مسافر جانیں اور ملک ا لموت۔ مسافروں کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے۔ اب پائلٹ صاحب ایک بہت ہی پرانا اور ہزاروں مرتبہ کا بجایا ہوا گھسا پٹا کیسٹ لگا دیتے ہیں جس کی بھرآئ ہوئ آواز میں مشرکانہ قسم کی عاشقی سے بھر پور قوالیاں بجنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک طرف مسافر دم سادھے کلمہ کا ورد کررہے ہوتے ہیں کہ
۔۔ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
دوسری طرف کیسٹ میں قوالی لگی ہوتی کہ
۔۔ میں خواجہ کی دیوانی خواجہ سے میرا لین دین ہے
ادھر ہم سوچ میں گم کہ ہمارے نام میں بھی خواجہ لگا ہوا ہے مگر یاد نہیں پڑتا کہ کیا لین دین ہے اور کب سے ہے اور اب تک کل رقم کتنی واجب الآدا ہے۔
ابھی ہم اسی حساب کتاب میں غرق ہوتے ہیں کہ اچانک بس ایک شدید جھٹکے سے رک جاتی ہے اور کچھ پچھلے مسافر اگلوں سے بغل گیر ہوجاتے ہیں۔ پتہ چلتا ہے کہ راستے میں کسی اور مسافر کو چڑھانا تھا۔ اکثر ان منی بسوں کی چھت پر بھی لوگ سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تاکہ کھلی ہوا اور کھلی فضاء میں سانس لے سکیں۔ یہ ایک اضافی سہولت ہے جو ہر مسافر کو میسر نہیں۔ کیونکہ اس کیلیے بس کی چھت پر چڑھنا ہوتا ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں تا وقتہ کہ اس نے سرکس میں کام نہ کیا ہو۔
بعض مسافر تو اتنے تھکے ہوتے ہیں کہ بس میں بیٹھتے ہی ایک دوسرے کے کاندھے پر سر رکھ کر سو جاتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے اکثر اپنی منزل مقصود سے آگے نکل جاتے ہیں۔ کبھی کبھی بس میں کوئ چورن بیچنے والا بھی چڑھ جاتا ہے اور آواز لگاتا ہے کہ ” بھائیوں! ہر مرض کی دوا۔ دو گولی سلیمانی چورن۔ ان شاء اللہ گولی اندر دم باہر” ۔ ظاہر ہے ایسے میں کون چورن کی گولی خریدے گا۔ مایوس ہوکر بے چارہ اگلے ہی اسٹاپ پر بس سے اتر جاتا ہے۔ اور مسافر حضرات شکر ادا کرتے ہیں کہ جان بچی سو لاکھوں پائے۔
ہر حکومت با عزت پبلک ٹرانسپورٹ کا وعدہ تو کرتی ہے مگر اس بس کی مقبولیت کے آگے بے بس معلوم ہوتی ہے۔
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔۔۔
اور وہ قرضہ ہی کیا جو ادا ہوگیا
یہی وجہ ہے کہ آج تک نہ تو سرکلر ریلوے چل سکی اور نہ ہی گرین بسیں۔ کیونکہ حکومت عوام کی فکر میں دبلی ہورہی ہے کہ اتنی اچھی اچھی منی بسوں اور چنچی رکشوں کے ہوتے ہوئے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کیوں مہیا کرے۔ ظاہر ہے جو لطف ان سواریوں میں دھکے کھانے اور مفت میں ہاضمہ درست کرنے میں ہے وہ اور سواریوں میں کہاں۔ پھر کراچی کی سڑکوں پر ان کے علاوہ دوسری کوئ اور سواری چل ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ ڈبلیو گیارہ ہی واحد سواری ہے جو سڑک اور کھڈوں سے بے نیاز ہوکر مائل بہ پرواز ہے۔ اسی لیے اس کو ایف سکسٹین کہا جاتا ہے بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ اگر اس کی ایف سکسٹین سے ریس لگوادی جائے تو یقیناً یہ پہلے نمبر پر آئے گی اور ہمارے مایہ ناز پائلٹ بے چارے منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔