سواری کالفظ سنتے ہی بے شمار سواریوں کے نام ذہن میں آجاتے ہیں۔ مثلاً کار۔ بس۔ ہوائی جہاز پانی کا جہاز اسکوٹر۔ بائیک۔ سائیکل۔ چنچی۔ رکشہ وغیرہ وغیرہ۔ اب اس میں کچھ سواریاں تو اڑنے والی آسمانی سواریاں ہیں۔ کچھ سمندر یا دریا پر تیرنے والی ہیں باقی سب زمین پر چلنے والی سواریاں ہیں۔ جہاں تک ہوائی سواری کا تعلق ہے وہ اکثر لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ اسی طرح پانی پر چلنے والی سواریاں بھی کم ہی استعمال ہوتی ہیں۔ زیادہ تر کارگو کیلیے۔
ہاں البتہ زمین پر چلنے والی سواریاں لا تعداد وبے شمار ہیں۔ ان کا استعمال بھی سب سے زیادہ ہے۔ زمینی سواریوں پر آج ہم گفتگو کریں گے ایک ایسی سواری کا جو سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ سب سے آسان بھی ہے۔ اور سب سے سستی ہونے کے ناطے ہر کس و ناکس کی دسترس میں بھی ہے۔ ہم جب بھی سڑک پر نکلتے ہیں تو سب سے زیادہ اسی سواری سے واسطہ پڑتا ہے۔ اکثر اس سواری کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید ہم موت کے کنویں یا موت کے گولے کا منظر دیکھ رہے ہیں۔
اور آنکھوں کے سامنے “موت کا منظر” اور “مرنے کے بعد کیا ہوگا” جیسی کتابوں کے حوالے گھومنے لگتے ہیں۔ آنکھوں کی پتلیاں پتھرانے لگتی ہیں کہ نہ جانے کب کیا ہوجائے۔ سٹی گم ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس سواری کا پائلٹ بالکل بے فکر ہو جا تا ہے۔ کبھی ناگن کی طرح بل کھاتا ہے اور ہم اپنی سواری ایک طرف کرلیتے ہیں کہ کہیں یہ ہمیں ہی نہ ڈس لے۔ کبھی گاڑی کے پیچھے سے کِس کا خطرہ ہوتا ہے۔ کبھی چلتی گاڑی کے سامنے سے ایسے اوور ٹیک کرتے ہیں کہ اب ٹکر ہوئ کہ جب ٹکر ہوئ۔ بعض اوقات تو ان کا بس نہی چلتا کہ گاڑی کے اوپر یا نیچے سے نکل جائیں۔ اکثر ہمارے گاڑی کے سائڈ مرر انہی لوگوں کی اعلٰی کارکردگی کا نشانہ بن جاتے ہیں اور ہم منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہی سکتے۔ اور اگر غلطی سے کچھ کہہ دیا تو دو باتیں ہونگی یا تو اگر پائلٹ صاحب کوئی شریف آدمی ہوئے تو انگریز کو دعا دیتے ہوئے سوری کہہ کر نکل لیں گے۔ چاہے ان کی سوری کی وجہ سے ہمارا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ بصورت دیگر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے وہ ہم پر ہی چڑھائی کردیتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ ایسے موقع پر ان کی قبیل کے سارے لوگ ان کی حمایت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اور مجبوراً خون کے گھونٹ پی کر اپنی ہی غلطی مان کر جان چھڑانے میں عافیت ہوتی ہے۔
بعض اوقات تو یہ لوگ اتنی اسپیڈ میں ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ ان کے پیچھے پولیس لگی ہوئی ہے اور یہ کوئی سنگین جرم کرکے بھاگ رہے ہیں۔ حالانکہ جو کچھ یہ کررہے ہوتے ہیں وہ کسی بھی طرح کسی بھی سنگین اور رنگین جرم سے کم نہیں ہوتا۔ اکثر تو عمر اور قد میں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ یا تو ان کی ٹانگیں ہوا میں معلق ہوتی ہیں یا ان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تو در کنار شناختی کارڈ بھی نہی ہوتا۔ بیشتر کے پاس تو دیگر کاغذات بھی نہی ہوتے۔ بہت سے تو اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ گماں ہوتا ہے کہ ان کی پیدائش بھی اسی سواری پر ہوئ ہے۔ اگر کبھی ان کے والدین سے شکایت کی جائے تو والدین ایسی کمال بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ جس سے شک ہوتا ہے کہ یہ اس بچے کے والدین بھی ہیں یا نہیں۔ مگر جب خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے اور یہی بچہ موت و زندگی کی کشمکش میں کسی اسپتال میں زیر علاج ہو تو سر پکڑ کر روتے ہیں۔ مگر اب کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم ٹی وی پر مرحوم ڈاکٹر میر محمد علی شاہ کا انٹرویو دیکھ رہے تھے جو کہ ہڈیوں کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر تھے اور اے او کلینک کے مالک بھی۔ کہنے لگے کہ ” ایسے جتنے بھی مریض میرے پاس آتے ہیں تو میں شفایاب ہونے کے بعد ان کا انٹرویو کرتا ہوں اور ہمیشہ مجھ سے 95 فی صد سے زیادہ مریض یہ اعتراف کرتے ہیں کہ غلطی ان ہی کی تھی۔ کوئی کہتا ہے وہ ون وھیلنگ کررہاتھا۔ کوئی اعتراف کرتا ہے کہ وہ رونگ سائڈ تھا۔ کوئی اوور اسپیڈ کا رونا روتا ہے تو کوئی زگ زیگ چلانے کی کہانی سناتا ہے۔ اکثریت تو سگنل توڑنے کی مرتکب پائی جاتی ہے”۔
البتہ ایک بڑی زبردست خوبی اس میں یہ ہے کہ یہ ملٹی پرپز سواری ہے۔ آپ اس پر سنگل ڈبل ٹرپل بلکہ اس سے بھی زیادہ سواریاں بٹھا سکتے ہیں۔ اکثر دودھ والے اس کے چاروں طرف دودھ کے کنسٹر لٹکا کر چلتے نظر آتے ہیں۔ عید قربان پر اکثر دیکھا گیا کہ قربانی کا جانور بھی اس سواری کا مزہ لے رہا ہوتا ہے۔ یہاں تک ہم ایک ایسا منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ جب ہم نے بھائی لوگوں کو اس پر اونٹ لیجاتے دیکھا۔ کئی دفعہ آنکھین ملیں اور اپنے ہی چیکوٹی کاٹی مگر منظر نہ بدلا لہٰذا یقین کرتے ہی بن پڑی۔ کبھی کوئی منجی رکھے لے جارہا ہوتا ہے۔ تو کوئی لمبی سے سیڑھی گھسیٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ بعض اوقات تو اس پر اتنی ساری چیزیں چاروں طرف لدی ہوتی ہیں کہ اصل سواری کا ہی پتہ نہی چلتا۔
اصل مزہ تو جب آتا ہے جب حضرت اپنی ہی بیگم کو بمعہ چھ عدد بچوں کے لیکر سسرال عیدی لینے جارہے ہوتے ہیں۔ اکثر مختلف حکومتی پریڈ یا تقریبات میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کا ایک مینار سا اس پر سواری کررہا ہوتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ کرتب بھی دکھارہا ہوتا ہے۔ اکثر میلوں میں اس کو موت کے گولے یا موت کے کنویں میں بھی اٹھکھیلیاں کرتے دیکھا جاسکتا ہے مگر جب اسی کا ایکشن ری پلے نوجوانوں کو سڑکوں پر کرتا دیکھتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
ایک اور خوبی یا نفسیات ان لوگوں کی یہ ہوتی ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کو کہیں بھی۔ کبھی بھی اور کسی بھی حالت میں اپنی سواری کو روکنا نہ پڑے چاہے اس طرح کسی دوسری گاڑی کو ٹکر ہی کیوں نہ ماردیں۔ ان کا دل کرتا ہے کہ گھر سے روانہ ہونے سے لیکر واپسی تک یا منزل مقصود تک سواری کو بریک نہ لگانا پڑے بھلے اس چکر میں یہ خود یا کسی دوسرے کو اسپتال ہی کیوں نہ پہنچادیں۔ دیگر یہ کہ اگر سواری بند ہوجائے تو کبھی بھی سائڈ میں نہی کریں گے بلکہ ہمیشہ ڈھیٹ بنے وہیں کھڑے کھڑے ککیں مار کر اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے چاہے اس طرح پورے شہر کا ٹریفک جام ہی کیوں نہ ہوجائے۔ ایسے میں دیگر لوگ صبر اور خون کے گھونٹ پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس خاکسار نے اس سواری کو نہ صرف خود کبھی استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس سے دور رکھا۔ اور آئندہ نسلوں کو بھی وصیت کردی کہ بیٹا جہاز اڑا لینا مگر اس بے پیندے کے لوٹے سے پرہیز کرنا۔ البتہ یہ خوبی تو اس میں ہے کہ یہ پیٹرول سونگھ کر چلتی ہے اسی لیے کم خرچ اور بالا نشین ہے۔ بلکہ اب تو پلوشن سے پاک۔ یعنی نہ دھواں نہ ہی شور۔ الیکٹرک سے چلنے والی بھی مارکیٹ میں آگئیں ہیں۔ کہنے کو تو یہ غریبوں کی سواری ہے مگر اس نے ہمیشہ امیروں کو مات دی ہے۔ اب اس سے زیادہ کارکردگی کون سی سواری دکھاسکتی ہے۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ خاکسار نے ساری جزیات اور تفصیلات بیان کردیں مگر سواری کا نام نہیں بتایا۔ تو میرے بھولے قارئین کچھ کام خود بھی کرلیا کریں سارا ملبہ ہم پر نہ ڈا لیں۔ ویسے بھی اس مضمون پر ہمارے صاحبزادہْ خرد نے شرط لگائ تھی کہ ایسا لکھیں کہ سواری کا نام نہ آنے پائے کیونکہ آپ کو بھی سڑک پر نکلنا ہے اور ہم آپ کو کسی آزمائش میں نہی ڈالنا چاہتے۔ لہٰزا اب فیصلہ آپ پر ہے کہ ہماری کوشش کس حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ آپ چاہیں تو ہمیں سو فی صد نمبر دیکر بیٹے کی نظر میں سرخ رو کرسکتے ہیں
کراچی شہر جو کہ ایک جنگل کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اسے عمارتوں کا جنگل بھی کہتے ہیں۔ کنکریٹ کا جنگل بھی کہتے ہیں۔ بعض لوگ جرائم کا جنگل بھی کہتے ہیں۔ لیکن یہ موقع ان سارے جنگلوں پر گفتگو کا نہی ہے۔ اس کو ہم محکمہ جنگلات پر چھوڑتے ہیں۔ ہم یہاں گفتگو کریں گے ٹریفک کے جنگل پر۔ یہ شہر ہر طرح کی سواریوں کا جنگل بن چکا ہے اور ہماری منظور نظر سواری کیلیے یہ جنگل میں منگل کا درجہ رکھتا ہے۔
یہاں کی گاڑیوں کی اصل تعداد رجسٹرڈ گاڑیوں سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تمام سواریاں بنکوں سے لیزنگ پر مل رہی ہیں اور پھر سونے پہ سہاگہ کہ چائنا نے ہر مال اتنا سستا کردیا ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔
ہماری سواری اس جنگل سے خوب فائدہ اٹھاتی ہے۔ کیونکہ یہاں ٹریفک کا کوئی قانون اور قائدہ لاگو نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہماری یہ سواری ٹریفک کا ہر قانون توڑنے اور من مانی کرنے میں پوری طرح آزاد ہے۔ چونکہ ٹریفک کنٹرول کرنا اور اس کو ضابطہ میں رکھنا اور اس پر شیر کی نظر رکھنا ٹریفک پولیس کا کام ہے مگر وہ تو کچھ اور ہی دھندھوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ ان کی شیر کی نظر ٹریفک کے دوسری طرف لوگوں کی جیب پر ہوتی ہے اور وہ سونے کا نوالہ کھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ کی قلم اجازت نہی دیتا کیونکہ یہ دست اندازی پولیس کے مترادف ہے۔ اس مقام آہ و فغاں پر ہم صرف اپنا قلم کان میں لگانے اور دم دبا کر اپنی عزت نفس بچانے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں کہ مبادہ ہمارا خود کا گھر بیٹھے چالان نہ ہوجائے۔ کیونکہ چالان تو صرف گھر پر ہوتا ہے سڑکوں پر تو صرف مک مکا کا رواج ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔
ایک سیانے کا قول ہے کہ
“It is better to late then never ”
یعنی یہ بہتر ہے کہ آپ منزل پر تاخیر سے پہنچیں بہ نسبت اس کے کہ آپ کبھی پہنچیں ہی نہیں۔
جب سے ہمیں اس قول کا علم ہوا ہے ہم نے گرہ سے باندھ لیا ہے کہ چاہے کتنی ہی دیر کیوں نہ ہوجائے ہم منزل پر پہنچ کر ہی دم لیں گے یعنی صبر کا دامن ہاتھ سے نہی چھوڑیں گے۔ لہٰزا اب حال یہ ہے کہ جب تک پچھلی گاڑی ہارن نہ دے ہم آگے بڑھ کر نہی دیتے خاص طور پر اس وقت جب کہ پچھلی گاڑی کوئ خاتون چلارہی ہوں۔ کیونکہ خاتون سے ٹکرانا جان سے جانا ہے۔ ایک تو سارے لوگ فوراً بھائ بن کر ان کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دوسرے خاتون سے ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ جس طرف مڑنے کا اشارہ دیں کہیں اسی طرف نہ مڑجائیں۔ ویسے ہم جیسے شرفاء آج تک عورت کا اشارہ نہی سمجھ سکے اور اسی میں ساری عمر ضائع کردی۔ کاش کہ ہم نے شروع میں ہی اشاروں کی زبان سیکھ لی ہوتی تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا اور ہم بھی تیز ترین ڈرائور ہوتے۔ خیر یہ اپنی اپنی قسمت ہے اور قسمت تو کاتب تقدیر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
چلتے چلتے ایک لطیفہ بھی سنتے جائیں۔ اللہ بھلا کرے گا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک صاحب ریس لگاتے ہوئے دو ٹرالروں کے بیچ سے انتہائی خطرناک داوُں پیچ کرتے ہوئے آگے نکل گئے اور پلٹ کر ٹرالر کے ڈرائوروں سے فرمایا۔ ” کیوں بے مرنا ہے کیا؟”۔