جب میں نے خاکے لکھنے کی شروعات کی تو میری بیگم اور بچوں نے مجھ پر زور دیا کہ میں اپنے والد محترم پر بھی لکھوں۔ مگر میں ہمت نہیں پاتا تھا کہ ان پر کچھ لکھ سکوں۔ ایک تو احتراماً اس سے بچنا چاہتا تھا کہ لکھنے میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اور ان کے ادب واحترام میں کوئ کمی نہ رہ جائے۔ دوسرے ان کی داستان غم اتنی طویل اور آزماشوں سے بھر پور تھی کہ میں ڈرتا تھا کہ کہیں راستے میں میری اپنی ہی سانس نہ اکھڑ جائے۔ مگر جب سب کا اصرار بڑھا تو مجبوراً قلم اٹھانا پڑا۔ اب اللہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اس کی ہمت دے۔ آمین
یوں تو ہر ایک کے والدین خود اس کے لیے اسپیشل اور قیمتی ہوتے ہیں مگر ہمارے والد صاحب شروع سے ہی اسپیشل اور اہم تھے والد صاحب کا بچپن برما کے شہر رنگون میں گزرا۔ پیدائش سے پہلے ہی ان کے والد وفات پا چکے تھے اور پیدائش کے بعد ان کی والدہ محترمہ بھی چل بسیں یوں والد صاحب بچپن سے ہی یتیم و یسیر ہو کر رہ گئے۔ ابا جان کا نام یحییٰ ان کے چچا نے ر کھا۔ چچا کچھ تو مزاجاً سخت تھے دوسرے لاوارث ہونے کی وجہ سے والد صاحب پر بھی سخت نظر رکھتے تھے اسی دوران والد صاحب کو پرائمری اسکول میں داخل کردیا گیا
یہاں اتفاق سے والد صاحب کو ایک بہت ہی شفیق انسان استاد کی شکل میں میسر آگئے۔ ان کا نام صالح تھا وہ صرف نام کے ہی صالح نہ تھے بلکہ حقیقت میں بھی بہت صالح انسان تھے ان کو والد صاحب سے اور والد صاحب کو ان سے بہت محبت تھی اس محبت کے باوجود صالح صاحب والد صاحب پر شیر کی نظر رکھتے تھے خود ہی فرماتے تھے:
“تو یتیم و یسیر ہے تیرے سر پہ ماں باپ کا سایہ نہیں ہے میں ہی تیرا باپ ہوں اور میں ہی تیری ماں”۔
ہمیں یہ شرف حاصل ہے کہ ہم نے والد صاحب کے اسکول کے استاد صالح صاحب کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ کچھ وقت ان کی صحبت میں بھی گزارا ہے۔ ہم دیکھتے تھے کہ والد صاحب استاد محترم کیلیے بچھے جاتے تھے۔ بالکل اپنے سگے باپ کی طرح ان کی عزت کرتے تھے۔ صالح صاحب اکثر سعودآباد میں ہمارے گھر آتے رہتے تھے۔ پاکستان پہنچ کر انہوں نے ریڈیو پاکستان میں ملازمت کرلی اور برما کیلیے برمی زبان میں خبریں پڑھتے اور برمی زبان میں دیگر پروگرام بھی کرتے تھے۔ استاد محترم سے ملاقات ہمارے لیے بہت ہی خوشگوار تجربہ تھا۔
خیر لشتم پشتم والد صاحب نے میٹرک کر لیا والد صاحب کے دیگر رشتے دار فیض آباد لکھنوُ میں رہائش پذیر تھے۔ والد صاحب کی پیدائش تو 1919 میں ہوئی یو ں آپ 16- 17 سال کی عمر میں بابری مسجد کے علاقے میں واپس آئے کیوں کہ ساری زندگی برما میں گزری تھی لہذا برما کی خواتین اور لڑکیوں کو دیکھ رکھا تھا۔ وہاں کا پہناوا بھی۔ مگر جب ایودھیا آئے اور یوپی کا حسن اور پہناوا دیکھا تو حیران رہ گئے ہماری والدہ وغیرہ ان کی کزن ہوتی تھیں۔ گو کہ اس زمانے میں پردے کا رواج بہت سخت تھا مگر پھر بھی نظر پڑ ھی جاتی تھی۔ پہلی مرتبہ ان بچیوں کو دیکھ کر والد صاحب کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ یہ کیا پریاں ہیں۔ ( یہ بات والدہ صاحبہ نے خود ہمیں بتائ ) بزرگوں نے بتایا کہ بیٹا یہ پریاں نہیں ہیں تمہاری رشتے کی بہنیں ہیں۔ پھر بزرگوں نے ہمارے والد صاحب کی ہماری والدہ سے شادی کرادی جبکہ والد صاحب 17 سال کے تھے اور والدہ صاحبہ 14 سال کی تھیں۔ اس دوران والد صاحب نے چند سال فیض آباد ایودھیا میں ہی گزارے اور سرکاری ملازمت کر لی۔
کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی انگریز کا دور تھا انہوں نے فوج میں بھرتی شروع کردی والد صاحب ماشاء اللہ جسمانی اور ذہنی طور پر بہت ہی موزوں تھے۔ لہذا باآسانی فوج میں بھرتی ہو گئے۔ فوج کی ملازمت کے دوران ہی ایک اور واقعہ پیش آیا۔ والد صاحب فٹبال کے شوقین تھے اور اچھے کھلاڑی تھے۔ لہٰزا انگریز فوج میں ہونے والے فٹبال کے کھیلوں میں بھی حصہ لینے لگے۔ ایک دفعہ ایک میچ جو کہ گوروں کی ٹیم اور انڈینز کی ٹیم کے درمیان تھا۔ والد صاحب نے اچھی کار کردگی دکھائی اور کئی گول داغ دیئے جس پر انگریز کھلاڑی والد صاحب کے دشمن بن گئے۔ اور ایک انگریز کھلاڑی نے والد صاحب کے دائیں ہاتھ پر ایک زوردار لات ماری جس سے والد صاحب کو شدید چوٹ لگی اور آپ کھیل سے دستبردار ہوگئے۔ اس وقت تو خیر جوانی تھی۔ کسی نہ کسی طرح برداشت کرگئے لیکن کئی سالوں کے بعد آپ کی دائین کلائی کی ہڈی میں ناقابل برداشت تکلیف رہنے لگی پتہ چلا کہ اس چوٹ کی وجہ سے کلائی کی ہڈی میں بال آگیا تھا وہ اب اندر ہی اندر گل گئی تھی خیر کراچی میں آپریشن ہوا اور اس ہڈی کو کاٹ کر نکال دیا گیا اور کولہے کی اضافی ہڈی کاٹ کر اس جگہ لگادی گئی۔ اس سے آرام تو آگیا مگر دائیں ہاتھ کی حرکت رک گئی مگر والد صاحب نے جلد ہی دائیں اور بائیں ہاتھ سے لکھنے میں مہارت حاصل کرلی۔ اور دوبارہ سے اپنے معمولات زندگی شروع کردیئے۔
اتفاق سے انگریز کی فوج میں بھرتی ہونے کے بعد ہی والد صاحب کو رنگون بھیج دیا گیا غالباً والد صاحب کا ماضی دیکھتے ہوئے فوجی افسران نے فیصلہ کیا ہوگا والد صاحب بتاتے تھے کے جاپانی رنگون تک پہنچ گئے تھے اور انہوں نے اپنی کرنسی بھی جاری کر دی تھی اسی زمانے کا ایک دس روپے کا نوٹ جو جاپانیوں نے برما پر قبضے کے دوران جاری کیا تھا والد صاحب کے پاس تھا جس کی و یسے تو کوئی قیمت نہ تھی مگر تاریخی اہمیت بہت تھی افسوس کے میں نوٹ کی حفاظت نہ کر سکا اور نقل مکانی کے دوران وہ کہیں کھو گیا جس کا مجھے آج تک ملال ہے۔
خیر جنگ عظیم زوروں پر تھی اور آئے دن خوفناک خبریں آتی رہتی تھیں۔ جس کی وجہ سے والدہ بہت فکرمند تھیں۔ اور انہوں نے منت مانی کہ اگر والد صاحب خیریت سے واپس آ گئے تو وہ بابری مسجد میں گھی کے چراغ چلائیں گئی اور شکرانے کے نوافل ادا کریں گی۔ خیر 1945 میں جنگ ختم ہوئی اور والد صاحب واپس آگئے۔ ہم اکثر اس بات کو یاد کرتے ہیں تو انڈیا کی بہت ہی پرانی فلم کا گانا یاد آجاتا ہے۔ جس کے بول یہ ہیں جو بچپن میں سنے تھے۔
۔۔۔میرے پیا گئے رنگون وہاں سے آیا ٹیلیفون
اسی دوران تقسیم ہند کے معاملات سر اٹھانے لگے اور ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے ساتھ ہی بابری مسجد کا معاملہ بھی گرم ہوگیا جو انگریز کے زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ کیونکہ ہمارا ننہال بابری مسجد کے محلے میں ہی رہائش پذیر تھے لہذا وہ بابری مسجد کی حفاظت کے لیے ہر اول دستے کا کام دیتے تھے۔ ہماری نانی کا یہ معمول تھا کہ جب بھی بابری مسجد پر ہندووں کا حملہ ہوتا تھا وہ اپنے ساتوں بیٹوں کو صافہ باندھ کر گھر میں موجود ہتھیاروں کے ساتھ گھر سے نکال کر بابری مسجد بھیج دیتیں کہ ” جاؤ بیٹا بابری مسجد کی حفاظت کرو۔”
ادھر والد صاحب جنگ عظیم کے اختتام پر اپنے وطن فیض آباد آگئے اور کسٹم میں ملازمت کرلی۔ اور انتہائی ایمانداری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی اسمگلر گرفتار کئے اور اسمگلنگ کی کئی کوششیں ناکام بنادیں۔ جس کی وجہ سے اسمگلر مافیا دشمن ہوگیا اور انہوں نے والد صاحب کو راستے سے ہٹانے کیلیے ان پر کئی قاتلانہ حملے کئے مگر اللہ نے بچایا۔ بار بار قاتلانہ حملوں کی وجہ سے خاندان کے دیگر لوگوں نے ہمارے والد صاحب اور ماموں صاحب کو زبردستی مہاجروں کی اس ٹرین میں بٹھایا جو مہاجروں کو لے کر ڈھا کہ مشرقی پاکستان جا رہی تھی۔
غرض مہاجروں کا یہ قافلہ ہجرت کر کے مشرقی پاکستان کے ڈھاکہ ریلوے اسٹیشن پر اترا جہاں بنگالی نوجوانوں نے بہت زبردست استقبال کیا اور دل و جان سے آؤ بھگت کی۔ اور لٹے پٹے مہاجروں کو آباد کیا۔ بنگالیوں کے اس جذبے کو دیکھ کر آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیوں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ کاش کہ ہم نے ان کو ان کا جائز حق دے دیا ہوتا۔
پا کستان کی تاریخ کا وہ ایک بہت ہی منہوس دن تھا۔ جب پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا۔ اس دن پورے مشرقی پاکستان میں بہت ہی گھمبیر سوگ کی فضا قائم تھی۔ انتہائی سخت کرفیو نافذ کیا جا چکا تھا پھر بھی بنگالی عوام سڑکوں پر ماتم کرنا چاہتے تھے تاکہ لیاقت علی خان کا غم منایا جا سکے۔ مگر اس کی اجازت نہ دی گئی۔ اس واقعہ نے ہمارے والد صاحب کے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا۔ اور انہوں نے مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان ایک اور ہجرت کا فیصلہ کر لیا۔ اور بالآخر ڈھاکا سے کراچی منتقل ہوگئے۔
۔۔۔کُون ہَنستے ہوئے ہَجرت پر _ہوا ہے رَاضی؟
۔۔۔لَوگ آسانی سے گَھر چَھوڑ کر کب جاتےہیں!!
والد صاحب شروع میں کراچی پولیس ہیڈ آفس آئی آئی چندریگر روڈ کے قریب ایک معمولی سی رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے لیکن پھر ہمارے پھوپھا اور پھوپھی ہمیں جیکب لائینز ایریا کے اپنے مکان نمبر 45 میں لے آئے جہاں خاکسار کی پیدائش ہوئی۔ جس کی سب نے بہت خوشی منائ کیونکہ یہ خوشی نہ صرف ہجرت کے کئی صدمات کے بعد ملی تھی بلکہ ہم سے پہلے ہمارے چار بہن بھائی بہت چھوٹی عمروں میں انتقال کر چکے تھے اس لیے بھی بہت خوشی منائی گئی۔ ہمارے والدین کے کل گیارہ بچے ہوئے جن میں سے صرف چار زندہ رہ پائے۔ سب سے پہلی آمنہ خاتون پھر صالح بھائ اور پھر صالحہ خاتون۔ اور آخیر میں یہ خاکسار۔ ظفر عالم۔
ہمارے والد خواجہ سید تھے اور والدہ کا شجرہ حضرت امام زین العابدین رح سے ملتا تھا۔ لہٰذا ہم نجیب الطرفین سید ہوئے۔ والد کی طرف سے خواجہ اور والدہ کی طرف سے زینی کہلائے۔
خیر یہ تو ایک بات یاد آگئی تو ہم نے بتادی ورنہ شجروں میں کیا رکھا ہے بلکہ اگر اعمال درست نہ ہوں تو مزید سخت پکڑ کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔
۔۔۔جن کے رتبے سوا ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ان کی آزمائش بھی سوا ہوتی ہے۔
خیر آمدم برسر مطلب۔ کچھ عرصے بعد ہی سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سعود نے مہاجرین کی آباد کاری کیلیے خطیر رقم ہدیہ کی۔ جس سے ملیر کے بعد ایک بستی سعودآباد کے نام سے قائم ہوئی جس کا انتظام سعودآباد ٹرسٹ نے انجام دیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے والد صاحب کو بھی ایک گھر سعودآباد میں الاٹ ہوگیا اور ہم لوگ اس گھر میں منتقل ہوگئے۔ غرض یہ کہ ہمارا بچپن اور ابتدائی تعلیم سعودآباد میں ہی ہوئی۔ جلد والد صاحب نے اس بستی میں اپنا ایک مقام بنالیا۔ کوئ بھی خواجہ صاحب کا نام لیکر ہمارے گھر تک پہنچ سکتا تھا۔ روزآنہ بعد مغرب ہمارے گھر پر احباب کی محفلیں ہونے لگیں۔ اور ہمارا گھر سعودآباد میں سماجی ثقافتی اور سیاسی حوالے سے مرکزی حیثیت اختیار کرگیا۔
یہاں تک کہ محترمہ فاطمہ جناح بھی ایک موقع پر مہاجرین سے ملنے اور ان کے مسائل جاننے کیلیے سعودآباد تشریف لائیں تو ہمارے گھر کو رونق بخشی اور ہماری والدہ اور دیگر خواتین نے ان کا استقبال کیا۔ اس وقت ہماری والدہ نے سپاس نامہ پیش کیا۔ اور مہاجرین کے مسائل سے آگاہ کیا۔ اس تقریب نے ہماری بہت عزت افزائی کی اور خواجہ صاحب کا گھر مرکز نگاہ بن گیا۔
اس زمانے میں چونکہ سارے لوگ ہجرت کرکے آئے تھے۔ لہٰذا ہجرت کی آزمائشوں اور اس کے تجربات سے گزر رہے تھے۔ سب ہی اپنے آباو اجداد کی قبریں۔ یادگاریں اور خونی رشتوں کو تڑپتا چھوڑ کر آئے تھے۔ سب ھی آگ اور خون کا دریا عبور کر کے آئے تھے یہی وجہ تھی کہ پاکستان آنے کے بعد سارے لوگ ایک بستی میں اس طرح رہتے تھے جیسے تسبیح میں دانے۔ حالانکہ کوئی یوپی۔ کوئی حیدرآباد دکن۔ کوئی بہار اور کوئی راجھستان سے آیا مگر سب لوگ اس طرح شیرو شکر ہو کر رہتے تھے جہاں ایک کا پسینہ بہتا تھا دوسرا اپنا خون بہانے کے لیے تیار رہتا تھا۔ غربت اور کسمپرسی کے باوجود ایک دوسرے کی مدد سے زندگی بہت خوشگوار گزر رہی تھی۔
اسی دوران ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا اور اس کے لئے انتخابات کروائے سعود آباد سے ہمارے والد صاحب بھی آزاد حیثیت سے ان انتخابات میں کھڑے ہوئے دوسری طرف ایوب خان کی کنونشن لیگ نے اپنا امیدوار بھی کھڑا کردیا ساتھ ہی کونسل مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے مل کر ایک مشترکہ امیدوار کھڑا کیا والد صاحب کی پوزیشن کافی مضبوط تھی مگر سعود آباد کے اکابرین نے اس ڈر سے کہ ووٹ تقسیم نہ ہو جائیں اور کنونشن لیگ الیکشن نہ جیت جائے والد صاحب کو دستبردار ہونے پر مجبور کیا جسے سب بزرگوں کے مشورے سے والد صاحب نے قبول کرلیا تاکہ ایک بڑے مقصد کو حاصل کیا جا سکے مگر افسوس کہ کونسل مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے مشترکہ امیدوار نے الیکشن جیتتے ہی چند سکوں کے عوض اپنے ضمیر کا سودا کر لیا اور الیکشن میں فاطمہ جناح کے بجائے ایوب خان کو ووٹ دے دیا۔
اس کے بعد ایوب خان اور فاطمہ جناح کے صدارتی انتخابات ہوئے جو ایوب خان نے بھرپور دھاندلی کے ذریعے جیت لیے مگر کراچی کے مہاجروں نے ہر حال میں کراچی سے فاطمہ جناح کو کامیاب کرا دیا۔ ان دنوں ہمارے گھر پر بزرگوں کی بیٹھک ہوتی تھی کراچی میں ٹی وی شروع نہ ہوا تھا سب لوگ ہمارے گھر پر ہمارے مرفی ریڈیو پر انتخابات کے نتائج سن رہے تھے اسی دوران ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ہمارے والد صاحب کے ایک دوست جو فاطمہ جناح کے بہت ہی زبردست حامی تھے ریڈیو پاکستان سے جاری ہونے والے دھاندلی زدہ نتائج سن کر جذباتی ہوگئے اور انہوں نے جوتا پھینک کر ریڈیو کو مارا اور کہا کہ “سالا جھوٹ بولتا ہے۔ “
سعود آباد کی اس بستی میں شروع شروع میں نماز باجماعت کے لئے کوئی مسجد نہ تھی ہمارے والد صاحب اور ان کے احباب نے مل کر چٹائیوں اور دریوں کی مدد سے جھونپڑی نما دو مساجد کی بنیاد رکھی بعد ازاں یہ دونوں مساجد فاروقی مسجد اور طیبہ مسجد کے نام سے مشہور ہوئیں۔ آج بھی یہ دونوں مساجد اس علاقے کی عظیم الشان جامعہ مسجد کے طور پر جانی اور مانی جاتی ہیں۔ اسی دوران ایک عیدگاہ کی بنیاد بھی رکھی گئی ہمارے گھر کے سامنے جو کنویں والا میدان تھا۔ اس میدان میں ہمارے گھر سے ایک تخت گیا جس پر کھڑے ہوکر امام نے پہلا عید کا خطبہ دیا یوں عید کی پہلی با جماعت نماز ادا کی گئی آج بھی یہ میدان سعودآباد میں عید گاہ میدان کے طور پر مشہور ہے۔
سن 65 کی پاک بھارت جنگ بھی انہی دونوں ہوئی۔ جس میں پوری قوم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہمارے گھر میں حسب معمول روزانہ بیٹھک ہوتی تھی اور محلے کے بزرگ حضرات اور والد صاحب کے دوست احباب اس محفل میں ریڈیو پر جنگ کی خبریں سنا کرتے تھے۔ اس بیٹھک کا ایک اور دلچسپ واقعہ بھی قابل ذکر ہے ہم چونکہ بچپن میں بہت ہی ذہین و فطین اور شرارتی تھے۔ لہذا ایک دن ہماری شرارت کو دیکھتے ہوئے والد صاحب کے ایک دوست جن کا نام بقاء اللہ شاہ تھا ہمارے والد سے کہنے لگے۔
“اماں یار خواجہ! یہ نالائق اپنی ماں کے پیٹ میں نو مہینے کیسے رہ گیا”۔
ان کی اس بات پر احباب نے ایک فلک شگاف قہقہ لگایا اور معنی خیز نظروں سےہمیں گھورنے لگے۔ ایسے موقع پر ہم فوراً رفو چکر ہوگئے تاکہ بات مزید آگے نہ بڑھے۔
ان ہی دنوں والد صاحب نے بڑے بھائی صاحب کی شادی کردی مگر شادی کے فورا بعد ہی بھائی صاحب علیحدہ زندگی کے خواب دیکھنے لگے جس کو بھانپتے ہوئے والد صاحب نے بھائی صاحب کو پیش کش کی کہ ہمارے بہنوئی جمیل احمد جمالی کے گھر منتقل ہوجائیں۔ یوں وہ علٰحدہ ہونے کے باوجود والدین کے قریب رہیں گے۔ یہ گھر خالی تھا اور قریب ہی واقع تھا جمالی صاحب اپنے اہل خاندان کے ساتھ گھارو منتقل ہو چکے تھے مگر بھائی صاحب نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔ اور ایک دن خاموشی سے اپنا سامان لے کر اپنی سسرال منتقل ہوگئے جبکہ بھابھی صاحبہ پہلے ہی جا چکی تھیں۔
اس بات سے ہمارے والدین کو سخت صدمہ پہنچا۔ بات بھی صدمہ کی تھی کہ جس بڑے بیٹے کو نامساعد حالات اور ہجرت کی آزمائشوں کے باوجود پڑھایا لکھایا۔ اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور شادی کرکے گھر بسایا۔ اب وقت تھا کہ وہ باپ کا دست و بازو بنتا مگر وہ یوں چھوڑ کر چلاگیا۔ گو کہ بعد ازاں بھائ صاحب نے والد صاحب کے پیروں میں گر کر معافی مانگ لی تھی اور ہم سب کے اصرار پر والد صاحب نے معاف بھی کردیا تھا مگر اس کے باوجود والدین کے دل سے اس صدمے کے اثرات ختم نہ ہوئے اور آخر وقت تک باقی رہے۔ اس واقعہ نے والد صاحب کی کمر توڑ دی۔ بحیثیت خواجہ صاحب والد صاحب کو سعودآباد میں ایک مرکزی مقام حاصل تھا۔ مگر اب والد صاحب کا دل اکھڑ گیا تھا۔ با لآ خر والد صاحب ایک دن دوست احباب اور سعودآباد کی فضاء کو سوگورا چھوڑ کر عزیزآباد منتقل ہوگئے۔ یہ سنہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کا زمانہ تھا۔
عزیزآباد میں پہلے تو کرائے پر رہائش اختیار کی بعد میں ایک پلاٹ خرید کر اس پر مکان تعمیر کرایا اور اس مکان میں منتقل ہوگئے۔ والد صاحب نے مکان کے گیٹ پر ایک تختی لگا ئی جس پر لکھا تھا “نشانِ اوٙدھ ” جو لوگوں کو ہندوستان یوپی میں قائم ریاست اور نواب آف اوٙدھ کی یاد دلاتی تھی۔ مگر کچھ انجان لوگوں نے جہالت اور کم علمی کی وجہ سے نشان اُودھ پڑھنا شروع کردیا۔ ہمیں لگا کہ جیسے یہ لوگ خود اُودھ بلاوُ ہیں۔ خیر اردو زبان بھی آتے آتے آتی ہے۔
ابھی عزیزآباد میں آئے چند سال ہی ہوئے تھے کہ ہمارے بہنوئ جمیل احمد جمالی (سعودآباد سے بی ڈی ممبر بھی رہ چکے تھے) جو کہ گھارو منتقل ہوچکے تھے اور سندھ میں ان کا ایک نام و مقام تھا۔ کونسل مسلم لیگ جو کہ فاطمہ جناح کی ہامی تھی۔ اندرون سندھ اس کے کرتا دھرتا تھے اور مشرقی پاکستان مین مسلم لیگ کے آخری اجلاس منعقدہ ڈھاکہ میں شرکت کرچکے تھے سنہ 1970 کے الیکشن میں ٹھٹھہ سے امیدوار بھی تھے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ظالموں نے ان کو شہید کر ڈالا۔ نتیجتاً ہماری بڑی بہن بیوہ ہوگئیں اور اپنے چھ معصوم بچوں کے ساتھ والد صاحب کی سرپرستی میں دوبارہ آگئیں۔
یوں والد صاحب پر ایک اور آزمائش آگئی۔ نہ صرف بیوہ بیٹی اور اس کے چھ یتیم بچوں کا خیال رکھنا تھا بلکہ مرحوم جمالی صاحب کی وراثت کو بھی سنبھالنا تھا۔ اور اسے زمانے کی دستبرد سے بچانا تھا بلکہ ان سب کی گزر اوقات کا بندوبست بھی کرناتھا۔ خود والد صاحب کی ملازمت تو کراچی میں تھی مگر ان سب معاملات کیلیے گھارو اور ٹھٹھہ جانا آنا پڑتا تھا۔ چند جائیدادوں کیلیے مقدمہ بازی بھی کرنی پڑی اور لوگوں کی دشمنی کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر یتیموں کے مال پر حرف نہ آنے دیا۔ لیکن یہ سلسلہ کب تک چلتا لہٰزا گھارو کے معاملات کو لپیٹ اور سمیٹ کر بہن اور بچوں کو کراچی منتقل کیا۔ جس کی وجہ سے دوبارہ سعودآباد میں بہن کیلیے گھر لینا پڑا۔ اور ان کی سرپرستی کی وجہ سے ہم لوگوں کو بھی عزیزآباد سے دوبارہ سعودآباد منتقل ہونا پڑا۔ دو تین سال سعودآباد میں رہائش کے بعد بہن کا مکان فروخت کر کے اور مزید رقم ملا کر بہن کیلیے عزیز آباد میں ایک گھر لے لیا اور سب لوگ 1975 میں دوبارہ عزیزآباد منتقل ہوگئے۔
اسی دوران ایک اور آزمائش سے دوچار ہوگئے۔ ہوا یوں کہ بڑے بھائی صاحب کو گردن توڑ بخار ہوگیا اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ بھائی صاحب بقائی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ ہمارے والدین نے ساری ناراضگی بھلا کر بھائی کے اسپتال میں ڈیرہ ڈال لیا۔ دونوں بھائی کے پیتیانے بیٹھ کر مسلسل قرآن پڑھتے۔ نمازوں۔ وظائف اور دعاوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ دم بھی کرتے رہتے تھے۔ الحمد اللہ دس دن بعد بھائ صاحب ہوش میں آگئے۔
یہاں سعودآباد کی دوسری رہائش میں والد صاحب کو ایک اور آزمائش سے گزرنا پڑا۔ ان کی چھوٹی بیٹی کی شادی بظاہر ایک معقول شخص سے کردی گئی۔ مگر وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ یہ شادی کامیاب ہونے والی نہی۔ بہت سی نا گفتہ بہ باتوں سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا کہوں گا کہ کئی مشکلات اور تھانہ کچہری کے معاملات سے گزرتے ہوئے بالآخر یہ شادی خلع پر ختم ہوئ۔
ان ہی دنوں یہ خاکسار بھی اسلامی جمیعت طلبہ کے رکن۔ جامعہ کراچی کی انجمن طلبہ کےمنتخب اسپیکر اور ناظم جامعہ کراچی اور کراچی کی اسٹوڈینٹس کونسل کے لیڈر کی حیثیت سے کافی متحرک تھا۔ اور کئی طلبہ تحریکوں اور قومی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاتھا۔ جن میں ختم نبوت ص کی تحریک۔ بنگلہ دیش نا منظور تحریک۔ کوٹہ سسٹم نا منظور تحریک۔ بنگلہ دیش سے پاکستانیوں جنھیں عرف عام میں بیہاری کہاجاتاتھا کی واپسی کی تحریک۔ اردو زبان کے نفاز کی تحریک وغیرہ قابل زکر ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا پورا گھرانہ خصوصاً والد صاحب بہت آزمائش سے دوچار ہوئے۔ بار بار کے چھاپے اور ہماری روپوشی ان کیلیے درد سر بن گئی۔
جب کہ ہم خود تمام گزشتہ حالات کے پیش نظر والد صاحب کیلیے امید کی آخری کرن تھے۔ کیونکہ بڑے بھائ چھوڑ کر جاچکے تھے۔ ایک بہن چھ بچوں سمیت بیوہ ہوکر گھر میں بیٹھی تھیں تو دوسری خلع لیکر بیٹھی تھیں۔ ظاہر ہے ایسے میں ہمارے معاملات کی وجہ سے بھی اہل خانہ خصوصاً والد صاحب بہت پریشان تھے۔ انہی دنوں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک بھی چل پڑی۔ جو بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمے اور ضیاءالحق کے مارشل لاء پر اختتام پزیر ہوئ۔ ہم اس میں بھی بہت متحرک رہے۔ بالآخر ہمارا دور طالب علمی ختم ہوا۔ اور والد صاحب کو بھی ان حالات کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ ملازمت سے بھی ریٹائر ہوگئے۔
ہم نے بھی والد صاحب کی گرتی ہوئی صحت کو دیکھتے ہوئے تمام معاملات سے کنارہ کشی اختیار کر کے والدین کی خدمت کو مقدم رکھا۔ اور والدین کی مرضی سے ایک مشرقی لڑکے کی طرح گھر بسا لیا۔ اور ایک بڑے بنک میں ملازمت کرلی۔ ہماری پہلی بیٹی کو والد صاحب نے اپنی گودوں میں کھلایا اور اپنی گزشتہ کلفتوں کو بھلانے کا زریعہ بنا لیا۔ مگر افسوس کہ والد صاحب کو یہاں بھی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ ہوا یوں کہ والدصاحب اپنی چھوٹی بیٹی کے گھر جاتے ہوئے گر پڑے جس کی وجہ سے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ نتیجتاً سول ہسپتال کے ہڈی وارڈ میں داخل کیا جہاں ہمارے جاننے والے جمیعت کے بہت سے ڈاکٹر حضرات تھے جنھوں نے بہت خیال رکھا اور جلد از جلد آپریشن کرکے کولہے میں پلیٹ اور راڈ لگادی اور چند ہفتوں میں اسپتال سے رخصت کردیا۔ ایک طرف والد صاحب بیساکھی پر آگئے اور دوسری طرف دل کے دورے کے بعد دل کے مریض تو تھے ہی مگر ساتھ ہی وہ گٹھیا یعنی جوڑوں کے درد کے بھی کافی پرانے مریض تھے۔ جو اب بہت ناقابل برداشت ہو چکا تھا۔
ڈاکٹر پروفیسر رب صاحب کو دکھایا۔ مگر ان کی مسکن اور تیزابی دوائیوں سے والد صاحب کی حالت مزید خراب ہوگئی۔ یہاں تک کہ منہ سے خون آگیا اور جسم کے اندر بھی خون بہنا شروع ہوگیا۔ اس موقع پر ہماری بیگم نے والد صاحب کی بہت خدمت کی۔ جس کی وجہ سے اپنے انتقال سے ایک ہفتہ پہلے جب کہ ہم دفتر گئے ہوئے تھے والد صاحب نے ہماری والدہ اور بہنوں کے سامنے ہماری بیگم کو بلاکر کہا کہ
” بیٹا ہم تم سے بہت خوش ہیں۔ تم نے ہماری بہت خدمت کی ہے۔ اللہ بھی تمہیں خوش رکھے”۔
یہ بات ہماری بہنوں اور والدہ نے ہمیں بعد میں بتائی۔ آخری دن جب کہ ہم دفتر میں تھے والد صاحب کو فالج ہوگیا اور ان کی زبان بھی بند ہوگئی۔ ہم نے فوراً ہی اسپتال میں داخل کرایا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے اور دوسرے دن فجر سے پہلے اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی وفات بہت تکلیف دہ تھی کیونکہ فالج کی وجہ سے بول نہ سکے۔ نہ جانے جاتے جاتے کیا کچھ کہنا چاہتے ہوں مگر نہ کہہ سکے۔ یہ 3 مارچ 1983 کا دن تھا۔
ہمیں ہمیشہ یہ دکھ رہے گا اور دل کی خلش تنگ کرتی رہے گی کہ والد صاحب جنھوں نے ساری زندگی صرف آزمائشین ہی دیکھیں۔ پیدا ہوتے ہی یتیم و یسیر ہوگئے۔ بچپن کسمپرسی میں گزرا۔ جوانی بھی جنگ عظیم دوم میں حصہ لینے کی وجہ سے خطرات سے گھری رہی۔ اور پاکستان بننے کے بعد فسادات کی وجہ سے پہلی ہجرت مشرقی پاکستان کرنی پڑی پھر لیاقت علیخان کی شہادت کے بعد دوسری ہجرت ڈھاکہ سے کراچی کرنی پڑی۔ بڑے بھائی۔ بڑی بہن اور چھوٹی بہن کے معاملات کی وجہ سے مسلسل آزمائشوں اور مصیبتوں میں گھرے رہے۔ اور اپنے دل کے دورے۔ گٹھیا اور کولہے کی ہڈی ٹوٹنے جیسی وجوہات کی وجہ سے چین اور سکون کا ایک بھی لمحہ میسر نہی آیا۔
آپ کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ نظر شیر کی رکھی مگر نوالہ حلال کھلایا۔ ریٹائر منٹ اور میری شادی کے بعد جب آرام وسکون کے دن آنے والے تھے اور جب وہ میرے بچوں سے دل بہلاتے اور میں انہیں حج اور عمرہ کراتا اور ان کی کوئ خدمت کر پاتا کہ وہ انتقال کرگئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں سنہ 2005 میں والد صاحب کا حج بدل کرنے کا موقع دیا۔ اور اس کے علاوہ بھی ہم نے ان کی طرف سے کئی مرتبہ عمرے کئے۔ اللہ قبول فرمائے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ان کو جنت الفردوس میں اعلٰی سے اعلٰی مقام عطا فرمائے۔ اور دنیا کی ساری آزمائشوں۔ کلفتوں اور مصیبتوں اور ہجرتوں کا بہترین بدلہ عطا کرے اور آخرت میں ہم سب کو اپنی جنتوں میں جمع کرے۔ آمین ثمہ آمین۔