جیسے ہی یہ میگزین بھائی شبیر ابن عادل نے ہمین بھیجا ساتھ ہی فرمائش بھی داغ دی کہ ہم اس میگزین کو پڑھ کر اس پر تبصرہ کریں۔ گو کہ یہ بہت ہی مشکل کام ہے پہلے تو چالیس پچاس صفحات کے میگزین کو پورا پڑھنا ہی ایک جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے مگر مرتا کیا نہ کرتا بھائی شبیر ابن عادل سے ہماری دوستی تعلقات اور محبت کا رشتہ پچاس سالوں پر محیط ہے۔ جب شبیر بھائی شرف آباد سرکلر ریلوے کراسنگ کے قریب رہاکرتے تھے۔ بھلا ایسے میں ہم انکار کیسے کر سکتے تھے لہذا حامی بھر لی اور اب سر پکڑ کر یعنی اپنا ہی سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ گوکہ طبعیت ناساز ہے اور بندہ حقیر فقیر پر تقصیر کافی جالساز ہے اور اللہ رب العزت بہت ہی مہربان اور کارساز ہے لہذا ہمت پکڑ لی کہ جب “میبل اور میں” لکھا جا سکتا ہے تو بغیر پڑھے تبصرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
پھر بھی ہم نے عزت بچانے کے لئے ایک سرسری سی نظر ڈالنے کی کوشش ضرور کی ہے مگر ماشااللہ اس میگزین میں ایسے ایسے شاعر اور ادیب ہیں اور ایسے ایسے لکھاری حضرات کی تحریریں ہیں جن پر روشنائ ڈالنا تو دور کی بات اگر قلم توڑ دیا جائے اور دوات الٹ دی جائے تو بھی تبصرہ کا حق ادا نہ ہو سکے گا۔ ان لکھاری حضرات کی فہرست میں سب سے پہلا اور نمایاں نام تو اس خاکسار کا ہے اب اپنے منہ میاں مٹھو بننا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لہذا اپنے کالم کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم دوسرے حضرات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
مرحومین پر لکھنا قدرے آسان ہے زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا روز قیامت وہ ہمارا گریبان پکڑ لیں گے اور ہم اپنی جان چھڑانے کے لئے اپنا کرتا اتارا کر ان کے حوالے کریں گے مگر اصل خطرہ تو زندہ لکھاریوں سے ہے کہ اس میں دست اندازی پولیس کا خطرہ ہے۔ ذرا سی بھی کوئی غلطی ہوئی تو ازالہْ حیثیت عرفی کا اندیشہ ہے۔ مگر صاحبوں حکم عادل مرگ مفاجات۔ کچھ نہ کچھ تو لکھنا ہی پڑے گا ورنہ ہوسکتا ہے عادل بھائ پہلے کی طرح ہمیں پھر اپنے گروپ سے نکال باہر نہ کردیں۔
لہٰزا تمام لکھاری حضرات سانس روک کر بیٹھیں کہ کب ہم ان پر تنقید و تبصرے کے تیر برساتے ہیں۔ مگر یہ کام ہے بہت مشکل۔ اور ہمارا دل بہت ہی نرم اور محبت سے لبالب لبریز ہے۔ بلکہ محبت کا زم زم چاروں طرف بہہ رہا ہے۔ اس لیے ہم اپنے ہی کانوں کو پکڑ کر دست بستہ پیشگی معافی کے طلب گار ہیں۔ امید ہے اتنی مروت تو آپ لوگوں میں بھی ہوگی۔ اگر کوئ بات ناگوار خاطر ہو تو در گزر سے کام لیجیے گا۔ تو بھائیوں دل تھام کے بیٹھو کہ اب تبصرہ و تنقید یعنی پوسٹ مارٹم شروع ہوتا ہے۔
سب سے پہلے تو میگزین کے ٹائٹل سے شروعات کر تے ہیں۔ ٹائٹل کو دیکھ کر ایک خوف سا طاری ہو جاتا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ لائبریری نظر آتی ہے مگر اس کی ہیئت ترکیبی ایسی ہے کہ کسی سرنگ کا سا گمان ہوتا ہے سرنگ بھی ایسی جس کی ابتدا تو نظر آ رہی ہے مگر انتہا کا پتہ نہی اور یہی اس ٹائٹل کا پیغام ہے کہ علم کے سمندر کی ابتدا تو ہے مگر انتہا کوئی نہی۔
اب ہم آتے ہیں مجلس ادارت کی طرف کہ جس میں ایسے ایسے ہیرے جوہرات جڑے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہم ایک لمحے کو ٹھٹک گئے کہ ان خواتین و حضرات کے ہوتے ہوئے ہم نے یہ جرات کیسے کی کہ ہم اس پر کوئ تبصرہ کریں مگر دل کڑا کرکے ہمت کر ہی ڈالی کہ جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو دھمک سے کیا ڈر۔
فہرست مضامین دیکھ کر سر چکرا گیا کہ 60 صفحات پر مشتمل تمام مضامین کو پڑھ کر تبصرہ کرنا وہ بھی ایسے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ناممکن نہی تو کم از کم مشکل ضرور ہے۔ تو صاحبوں آپ سے معزرت کے ساتھ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ چند چیدہ چیدہ مضامین پر تبصرہ کریں گے اور پیچیدہ مضامین سے صرف نظر کریں گے کہ اسی میں سب کی بھلائ ہے۔ اب جن پر تبصرہ کرونگا ان سے التجا ہے کہ روز قیامت درگزر سے کام لیں اور جن پر تبصرہ نہ کرسکوں وہ چین کی بنسی بجائیں اور اس حقیر فقیر پر تقصیر کے حق میں دعائے خیر کریں۔ یار زندہ صحبت باقی۔ ان شاء اللہ پھر کبھی سہی۔
بزرگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم محترم جناب ڈاکٹر پروفیسر رئیس احمد صمدانی صاحب کے مضمون “میری کتاب بینی۔ میری زندگی پر مطالعہ کے اثرات ” سے شروعات کرتے ہوئے کچھ کہنے کی جسارت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جس شخص نے ساری زندگی کتابوں کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہو۔ کتابوں اور کتب خانوں کو سجایا ہو۔ سنوارا ہو نکھارا ہو ہزاروں طلباء کو کتب بینی کا چسکہ لگایا ہو کتابوں سے محبت اور عشق کرنا سکھایا ہو جس کا انگ انگ کتابوں اور کاغذ کی خوشبوؤں میں رچا بسا ہو اس کی کتب بینی کا کیا عالم ہوگا ہم صرف اس کا تصور ہی کر سکتے ہیں۔
اور جو اس عمر میں بھی جب لوگ ہاتھ پیر توڑ کر گھر میں بیٹھ جاتے ہیں نہ صرف لائیبریریوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں بلکہ کتاب کی محبت میں دامے درہمے سخنے اپنے عمل سے علم کے چراغ روشن کرتے رہتے ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد 46 اور مضامین تقریباً ایک ہزار ہیں۔
انہوں نے اپنے خاندانی پس منظر کا بہت ہی دلچسپ اور سبق آموز طریقہ سے زکر خیر کیا ہے۔ ان کے پر دادا شیخ محمد ابراہیم آزاد بھی صاحب کلام شاعر تھے اور بیکانیر راجھستان ہائ کورٹ کے چیف جسٹس بھی تھے۔ مگر والد ہجرت کی وجہ سے کراچی کی ایک مہاجر بستی آگرہ تاج کالونی لیاری میں انتہائ نامسائد حالات میں عزت نفس کے ساتھ گزراوقات کررہےتھے۔ اس ماحول میں ڈاکٹر صاحب نے سرکاری اسکولوں سے پرائمری اور سیکنڈری کی تعلیم حاصل کی اردو آرٹس کالج کہ جس کے پرنسپل جناب کوہاٹی صاحب تھے۔ انٹر کیا اور بعد ازاں عبداللہ ہارون کالج سے گریجویشن کیا جبکہ اس کے پرنسپل جناب فیض احمد فیض صاحب تھے۔ ظاہر ہے ایسے نابغہ روزگار اساتزہ کی شاگردی کا نتیجہ تھا کہ طبیعت کتب بینی کی طرف مائل ہوتی چلی گئی۔
اس کے بعد جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس میں درجہ اول میں ماسٹرز کیا۔ اپنے تحقیقی مقالے کیلیے کراچی جیسے بڑے شہر کی شاید ہی کوئ لائبریری چھوڑی ہو جہاں سے کتابوں کی خاک نہ چھانی ہو۔ پھر اسی شوق نے مجبور کیا تو ملازمت یعنی پروفیسری کے ساتھ ساتھ اور دیگر گھریلو زمہ داریوں کے باوجود پی ایچ ڈی بھی کر ڈالی۔ جب کہ عمر ساٹھ سال تھی اور ریٹائرمنٹ سر پر تھی۔ ظاہر ہے اس عمر میں پی ایچ ڈی کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ جنون ہو۔ کتابوں سے عشق ہو۔ غرض یہ کہ آپ کی پوری زندگی کتابوں سے عشق کی داستان پر مشتمل ہے اور ہم سب کیلیے مشعل راہ۔
اب ہم آتے ہیں اپنے بہت ہی پرانے اور عزیز دوست جناب عطا محمد تبسم کے افسانے “ماسک” کی طرف۔ ہم چونکہ خود کرونہ کا شکار ہوچکے ہیں اور اسپتال کے کرونہ وارڈ اور آکسیجن سیلینڈر وغیرہ کے معاملات سے گزر چکے ہیں۔ تو یقین جانیے اس افسانے کا جو مزہ ہم نے لیا ہے شاید ہی کسی نے لیا ہو۔ کہنے کو تو یہ افسانہ ہے مگر حقیقت کے عین مطابق۔ ماسک کی کیفیات۔ ماسک کا استعمال اور اس کے مضمرات۔ ماسک نہ ہونے کے نقصانات اور مسائل۔ ماسک ہونے کی الجھنیں۔ ماسک سے پیدا شدہ معاشرتی مسائل۔ پھر کرونہ ہونے کے بعد مریض کی کیفیات اور موت کا خوف اور ساتھ ہی وصیت کی تیاری۔ اور پھر کرونہ کےاسپتال کے گرد وپیش کی منظر کشی اور قیامت کے مناظر اور نفسا نفسی اور انسان کی کسمپرسی۔ غرض شاید ہی کوئ کیفیت ہو جو بیان ہونے سے رہ گئی ہو۔ مجھ جیسا کرونہ کا مریض جو ان سارے معاملات کو بھگت چکا ہو وہ بھی شاید اتنی اچھی منظر کشی نہ کرسکے جو نہ صرف عطا بھائ نے کی ہے بلکہ اپنے مشاہدے۔ مطالعہ اور تجربہ کا ثبوت بھی دیا ہے۔
لیجیے سر پکڑ کر بیٹھیے کہ اب باری ہے جناب سید عارف مصطفٰے صاحب کی جو فی الوقت نہ صرف طنزومزاح کے روشن چراغ ہیں بلکہ بزم ظرافت کے بے تاج بادشاہ بھی ہیں۔
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔
اب جب کہ مشتاق یوسفی اور ابن انشاء جیسے طنزومزاح کے شہسوار اس دنیائے فانی سے کوچ کرچکے ہیں تو صاحبو مصطفٰے بھائ کے دم کو غنیمت جانو اور یقین جانو کہ اگر یہ نہ ہوتے تو شاید ہم ہنستی مسکراتی کھلکھلاتی اور چٹکیاں لیتی تحریروں سے محروم ہی رہ جاتے۔ یہاں بھی آپ نے “کتاب زندگی ہے” میں کتب بینی کتب فروشی کتب رونمائی وغیرہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ لوگوں سے کتابوں کے گلے شکوے۔ کتابوں کے گردپوش لباسوں اور بے لباس کتابوں پر حتی الامکان روشنی ڈالی ہے۔ یہاں بھی کتابوں کی ناقدری۔ کمیابی اور مہنگائ کا رونا رویا ہے مگر ہنستے ہنستے۔ کیونکہ جن کو کتابیں دستیاب ہیں وہ اپنے ڈرائنگ روم کی میچنگ کے ساتھ اس کی پزیرائ کرتے پائے جاتے ہیں۔ شاید کتابیں اب اسٹیٹس سمبل بن گئی ہیں۔ اکثر گھروں کی لائبریری یا ڈرائنگ رومز یا ریڈنگ رومز میں رکھی کتابیں بتاتی ہیں کہ وہ اب تک کنواری ہیں اور کسی نے بھی اب تک انہیں کھول کر دیکھنا بھی گورا نہی کیا۔ بھائیون مصطفٰے بھائ نے آخیر میں اسی کا رونا رویا ہے مگر پھر بھی کتاب کو زندگی کہا ہے۔ یہ انہی کا حوصلہ ہے۔
خالد میر صاحب یوں تو فارماسیوٹیکل انڈسٹری سے وابستہ ایک بڑا نام ہیں۔ مگر شعروسخن کے حوالے سے وہ اس سے بھی نامور شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی جو نظم اس شمارے میں شائع ہوئ ہے ” ابھی کچھ لوگ باقی ہیں” اس میں دراصل وہ اس دنیا اور اس میں بسنے والے انسانوں کو جیسا سوچتے ہیں اور جیسا دیکھنا چاہتے ہیں اس کی بہت ہی خوبصورت پیرائے میں منظر کشی کی ہے۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خود خالد میر صاحب کی شخصیت اور اس کے مختلف پہلو اس نظم کے زریعے ہم تک پہنچے ہیں کم از کم ہم جب بھی ان سے ملے ہیں ہم نے انہیں ایسا ہی خوبصورت۔ نفیس اور محبت کرنے اور مجبت بانٹنے والا پایا۔ گویا آپ خود اپنی ہی شاعری کا عکس ہیں۔
اب ہم آتے ہیں۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی کتاب ” تاریخ معتزلہ۔ ایک مطالعہ” اور معروف و مایہ ناز سیاح و مصنف جناب عبید اللہ کیہر صاحب کی کتاب ” بچپن سے پچپن تک” ۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ بزات خود ان کتابوں پر تبصرہ ہے اب یہ بڑی عجیب سی بات لگتی ہے کہ تبصرے پر تبصرہ کیا جائے۔ اگر ہم اس پر تبصرہ کرتے ہیں تو کل کوئ اور ہمارے تبصرے پر تبصرہ کردے گا اور یوں ایک نا ختم ہونے والا لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا جس کا کوئ انت نہ ہوگا۔ لہٰزا ہم اس کو یہیں ختم کرتے ہیں۔ اور باعزت طریقہ سے اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہوتے ہیں۔
میرے پیارے قارئیں۔ ویسے یہ میگزین کسی گلدستہ کے مانند ہے جس میں ہر رنگ قوس وقزع کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ اور اس کی خو شبو ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہے۔ کہیں شعر و شاعری ہے۔ نظمیں اور غزلیں ہیں۔ تو کہیں افسانے۔ کہیں طنزومزاح ہے تو کہیں انتہائ سنجیدہ و رنجیدہ دقیق مضامین ہیں۔ کہیں پیارومحبت کی دلگداز کہانیاں ہیں تو کہیں کتاب چہرہ لوگوں کی داستانیں۔ کہیں حمد و نعت ہے تو کہیں دینی معلومات۔ کہیں مشہور و معروف ڈرامہ نویس خواجہ معین الدین کے حوالے سے معلوماتی کوئز ہے تو کہیں علم دوست کی رپورٹ۔ کہیں لائبریریون کا تعارف ہے تو کہیں کتابوں پر تبصرے ہیں۔
یہاں تک کہ وفیات کے عنوان سے بچھڑنے والی علم دوست شخصیات کی تعزیت بھی میگزین کی زینت ہے۔ اب اور آپ لوگوں کو کیا چاہیے وہ بھی مفت۔ کاش کے یہ میگزین الیکٹرانک کے ساتھ ساتھ قرطاس پر شائع ہوتا تو کم از کم اتنے خوبصورت میگزین کو ہم لائبریریوں اور گھروں کی زینت تو بناسکتے اور کاغز کی خوشبو اور لمس کو محسوس تو کرسکتے۔
اب ہم اپنے تبصرے کا اختتام اس مہکتی تحریر پر کرتے ہیں۔ جو مکہ مکرمہ کے محمد عامل عثمانی صاحب نے مہکتا مضمون ” طائف کا گلاب ” کے عنوان سے بھیجا ہے۔ پڑھ کر ذہن خود بخود صدیوں پیچھے چلا گیا۔ جب ہم سب کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام کی تبلیغ کے لیے طائف تشریف لے گئے تھے اور کافروں نے پتھر مار مار کے آپ کو زخمی کر دیا تھا اور سرخ سرخ خون بہہ کر ایڑیوں اور جوتوں میں جم گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اسی مقدس خون کا صدقہ ہے کہ آج طائف گلاب کے پھولوں سے مہک رہا ہے اور ہر طرف اسی خون کی سرخی گلاب کی چادر اوڑھے پھیلی ہوئ ہے۔ ماشاء اللہ اس خوبصورت مضمون میں طائف میں گلاب کے پھولوں۔ ان کے باغات۔ گلاب کی قسموں اور اس سے عطر اور پرفیوم کشید کرنے کے طریقوں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ انہی گلابوں سے بنا یا ہوا عرق گلاب خانہ کعبہ کے غسل میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا عطر اور پرفیوم بھی نہ صرف شاہی خاندان استعمال کرتا ہے بلکہ دنیا بھر میں لاکھوں ڈالر میں برآمد کیا جاتا ہے۔ طائف کے چاروں طرف کی سر زمین پر میلوں تک پھیلے گلاب کے سینکڑوں باغات رسول اللہ ص کی انہی زخمی اور لہو لہان ایڑیوں کا صدقہ ہیں۔