آج میں آپ کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتانے لگا ہوں جو دیکھنے میں تو ایک بالکل سادہ سا اور عام سا انسان لگتا ہے مگر نہ جانے کیوں اس کی طرف دل خود بخود کھنچتا چلا جاتا ہے۔ چہرے پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سجی ہوئی۔ آنکھوں میں شرم و حیا کی لالی اور سرمہ کی سیاہی پھیلی ہوئی۔ گندمی رنگ۔ بل کھاتی ہوئی زلفیں۔ ہونٹون پر تبسم اور اس میں سے جھانکتے ہوئے خوبصورت موتی جیسے دانت۔ چہرہ نورً علٰی نور کی تفسیر۔ خواہ مخواہ دوست بنانے کو دل چاہتا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق دوست اس کو بناؤ جس کو دیکھ کر خدا کی یاد آئے تو صاحب ہم نے بھی ان صاجب کو دوست بنا لیا۔
یہ غریب اور معصوم سا انسان ہمارے محلے میں حجام کی دکان کرتا تھا جو اس کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ تھی ہم بھی بال بنوانے اس کی دکان پر جاتے رہے اور اپنے پوتوں کی پیدائش پر اسی حجام سے بچوں کے عقیقے کے بال بھی اترواتے رہے۔ اکثر وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنایا کرتا تھا خود بھی پابند صوم و صلوٰ ۃ تھا اور دوسروں کو بھی تبلیغ اور تلقین کرتا رہتا تھا دین کے بارے میں بھی اس کی معلومات بہت اچھی تھیں حالانکہ وہ بہت پڑھا لکھا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ خیر اس طرح ہم بھی اس کے خطبوں سے فیض یاب ہوتے رہتے تھے۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ احباب اس بات سے اتفاق نہ کریں مگر اس حجام کا اصول یہ تھا کہ وہ صرف بال بناتا تھا اور داڑھی کا خط۔ مگر داڑھی مونڈنے کے لئے تیار نہ تھا کہتا تھا جس کو کلین شیو کرانا ہے وہ میری دکان پر نہ آئے کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم نے داڑھی منڈانے سے منع فرمایا ہے لہذا میں کسی اور کی داڑھی مونڈھ کر اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتا خیر یہ اس کا اصول تھا اور اس اصول پر وہ آخر وقت تک قائم رہا یہاں تک کہ ایک دن جب میں اس کی دکان پر گیا تو میں نے اس کی دکان بند دیکھی لوگوں سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دکان ختم کرکے جا چکا ہے مجھے بڑی حیرت اور تشویش ہوئی۔
بالآخر ایک دن میری اس سے ملاقات سر راہ ہوگئی میں نے معلوم کیا تو اس نے بتایا کے محلے کے کچھ داداگیر قسم کے لوگ جو ایک سیاسی پارٹی سے وا بستہ تھے اس کے پاس کلین شیو کرانے آئے مگر اس نے اپنے اصول کے مطابق ان کی کلین شیو کرنے سے منع کردیا۔ ان کو یہ بات ناگوار گزری انہوں نے دھمکیاں دینی شروع کر دیں اور بالآخر اتنا تنگ کیا کہ وہ دکان بند کرنے پر مجبور ہو گیا۔ کچھ دن بیچارا مارا مارا پھرتا رہا۔ پھر ایک مدرسہ میں ملازم ہو گیا۔ کسی طرح اس کی گزر بسر کا انتظام ہو گیا۔ اب اس سے ہماری ملاقاتیں کبھی کبھار اتفاقاً ہونے لگیں۔ وہ بھی ہمارا علاقہ چھوڑ کر کراچی کی ایک دور افتادہ کچی بستی میں منتقل ہوگیا۔
یہ سن 2012 کی بات ہے۔ اس میں دین کی خدمت اور تبلیغ کا جذبہ تو موجود تھا ہی لہذا اس نے اسی کچی بستی میں چھوٹے سے گھر میں چھوٹے پیمانے پر اپنی ذاتی آمدن سے مدرسہ کا آغاز کیا۔ شروع شروع میں محلے کے چند بچوں نے ناظرہ پڑھنا شروع کیا اپنے مدرسے کو مکمل وقت دینے کے لیے اس نے دوسرے مدرسے کی نوکری بھی چھوڑ دی اور اس کار خیر میں ہمہ تن مشغول ہو گیا۔ جب اللہ کا بندہ اللہ کی رضا کے لئے اس کے دین کا کام شروع کرتا ہے تو اللہ بھی برکت دیتا ہے۔ لہٰزا ہم جیسے کچھ گناہ گاروں نے اس کے کام میں حسب توفیق تعاون کرنا شروع کر دیا اس کا مدرسہ بھی ترقی کرتا چلا گیا اس کی بیوی بھی اس کام میں ہاتھ بٹانے لگی۔
اسی دوران اسے ایک رسالے میں اچھی نوکری مل گئی جہاں سے معقول آمدن شروع ہوگئی۔ اب یہ مدرسہ کے جی سے لے کر پانچ جماعت تک کے اسکول میں تبدیل ہو چکا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ناظرہ قرآن کی تعلیم بھی جاری ہے۔ اس طرح کے جی میں داخلہ لینے والا بچہ پانچویں کلاس پاس کرتے کرتے پورا قرآن شریف ناظرہ مکمل کر لیتا ہے۔ اس وقت تقریبا 60 بچے بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ 4 خاتون اساتذہ اور دو قاری حضرات کی ٹیم کے ساتھ ہمارے دوست اس مدرسے کو بہت خوبصورتی سے چلا رہے ہیں یہ بستی چونکہ بہت ہی غریب لوگوں کی بستی ہے اور کچی آبادی ہے۔ زیادہ تر لوگ محنت مزدوری کرنے والے ہیں لہذا بچوں کے والدین بچوں کو مدرسے میں چھوڑ کر کام پر چلے جاتے ہیں اور شام کو چار پانچ بجے تک اپنے بچے آ کر واپس لے جاتے ہیں ظاہر ہے اتنا لمبا عرصہ تک بچے اسکول کا وقت ختم ہونے کے بعد مدرسے میں رہتے ہیں تو ان کے لئے ایک وقت کے کھانے کا بھی انتظام ہے اس مدرسے کی تعلیم بالکل مفت ہے یہاں تک کہ کاپیاں اور اسٹیشنری مدرسہ ہی دیتا ہے۔
تقریبا آٹھ سال سے زائد ہو چکے ہیں گزشتہ دنوں اپنے دوست سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اسکول کا سالانہ فنکشن ہے جس میں بچوں کو اسناد دی جائیں گی اور ساتھ ہی پوزیشن والے بچوں کو انعامات بھی دیے جائیں گے اور ہمیں دعوت دی کہ تعاون کرنے والے اور لوگوں کے ساتھ آپ بھی تشریف لائیں اور اس فنکشن میں شریک ہوں ہم اس فنکشن میں اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے البتہ کچھ ضروری تعاون ضرور کر دیا۔ الحمدللہ فنکشن بہت اچھا رہا اور ہماری فرمائش پر ہمارے دوست نے فنکشن کی تصاویر بھی ہمیں بھیجیں دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔
ایک بندہ خدا نے تن تنہا صرف اللہ پر بھروسہ کر کے کام کی ابتدا کی آج وہ مدرسہ اس پوری کچی آبادی جہاں تقریبا تین ہزار سے زائد خاندان آباد ہیں علم کی شمع جلا رہا ہے۔ اس کا صلہ تو ان کو اس دنیا ہی میں مل گیا ان کا ایک بچہ حافظ قرآن بننے والا ہے اور ساتھ ہی عالم دین بھی۔ بچی عالمہ کا کورس کر رہی ہے باقی چھوٹے بچے اسی مدرسے میں زیر تعلیم ہین۔ان شاء اللہ آخرت کا ثواب بھی پکا ہے۔ البتہ ان کی محنت کو محفوظ بنانے کیلیے ہم نے انہیں مدرسہ کا ٹرسٹ بنانے اور اسے رجسٹر کرانے کی تجویز دی ہے جس پر کام جاری ہے تاکہ ان کے فی سبیل اللہ قائم کردہ مدرسہ کو کسی کی نظر نہ لگے۔ کیونکہ اکثر کاروباری زہنیت والے لوگ دوسروں کی محنت کو ہڑپ کرجاتے ہیں اور فی سبیل اللہ مدرسوں کو کاروبار میں تبدیل کرکے زاتی مفادات اور سیاسی فائدے کا زریعہ بنا لیتے ہیں۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اس مدرسہ کو ایسے لوگوں سے محفوظ رکھے اور دن دونی اور رات چوگنی ترقی نصیب کرے۔ آمین ثمہ آمین۔