آج جب ہم نے کراچی کے حقوق کیلیے نکالی جانے والی ریلی کو دیکھا تو دل خوشی سے جھوم اٹھا مگر ساتھ ہی دل سے ایک ہوک سی اٹھی کہ کاش بھائ حافظ نعیم الرحمٰن اب سے چالیس سال پہلے امیر جماعت کراچی ہوتے۔ کیونکہ کراچی کے جن مسائل پر آج یہ تحریک چل رہی ہے اس کی جڑیں کم از کم پچاس سال یا اس سے بھی پہلے کی ہیں۔ خود ہم بھی شرمندہ ہیں کہ ہم نے ایسا کیوں نہ کیا جب کہ ہم تو خود اس دور سے گزر رہے تھے اور اس ظلم و نا انصافی کے اولین مظلوموں میں شامل تھے۔ نہ صرف چشم دید گواہ تھے بلکہاردو سندھی کے لسانی بل۔کوٹہ سسٹم۔ بہاریوں کی واپسی۔ بنگلہ دیش نامنظور تحریک۔ مردم شماری میں گڑ بڑ۔ مہاجروں کے خلاف ہونے والی حق تلفیوں۔ اور متروکہ سندھ سے مہاجروں کی محرومی پر چلنے والی تحریکوں کے ہراول دستہ اور قیادت میں شامل تھے۔ لیکن جماعت کے پالیسی سازوں میں نہ تھے۔ اس وقت کے حالات اور معاملات کا اگر احاطہ کروں تو شاید یہ کالم اس کا متحمل نہ ہوسکے۔ ہمارے پاس اس حوالے سے اتنا زیادہ مواد ہے۔ دلائل کے انبار ہیں۔ اعدادوشمار کا ڈھیر ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ ہم مختصراً کوشش کرتے ہیں کہ چند اہم معاملات پر روشنی ڈال سکیں اور تاریخ کی گرد اڑا کر ان امور کو دن کی روشنی میں لاسکیں۔
یہ ساٹھ کی دھائ کی بات ہے کہ جب ایوب خان نے پہلا مارشل لاء لگایا۔ اور دارالحکومت اسلام آباد لے گئے۔ جس سے نہ صرف کراچی والوں کا نقصان ہوا بلکہ بنگالی بھائیوں کو بھی شکایت ہوئ کہ وہ بنگال سے بحری جہاز کے زریعے کم خرچ پر کراچی آسکتے تھے مگر اب ان کیلیے دارالحکومت بھی خواب و خیال ہوگیا۔ ساتھ ہی بنگالیوں کو کراچی میں زبان کا مسئلہ نہ تھا کیونکہ اردو رابطہ کا کام دیتی تھی مگر اسلام آباد میں ان کیلیے اجنبیت تھی۔
ایوب خان نے ایک اور ظلم کیا کہ مہاجربیوروکریٹس کی ایک بڑی تعداد کو بیک جنمبش قلم سرکاری ملازمت سے فارغ کردیا۔ اس کے علاوہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرایا جس کی وجہ سے بنگالیوں اور کراچی والوں کو یکساں تکلیف ہوئ۔ بنگالیوں سے تو خیر فاطمہ جناح کی حمایت کا بدلہ لینا اتنا آسان نہ تھا مگر کراچی والوں سے انتقام لیا گیا اور ایوب خان کے بیٹے اور عمر ایوب کے والد گوہر ایوب نے کراچی کو عموماً اور لیاقت آباد کو خصوصاً آگ اور خون میں نہلا دیا۔ کیونکہ لالوکھیت ان دنوں تمام جمہوری سیاسی اور معاشرتی تحریکوں کا گڑھ تھا۔ جس کی اس نے بھاری قیمت بھی چکائ۔
خود مشرقی پاکستانی بھائیوں کا حصہ سول اور ملیٹری بیوروکریسی میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ بہرحال ان ساری پالیسیوں اور محرومیوں اور ناانصافیوں کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ظاہر ہوا۔
اس کے بعد بھٹو صاحب تشریف لائے۔ بھٹو بظاہر جمہوری لیڈر مشہور تھے مگر وہ بھی ایوب خان کو ڈیڈی کہتے ہوئے اس مقام تک پہنچے تھے ساتھ ہی وہ ایک جاگیردارانہ پس منظر بھی رکھتے تھے لہذا انہوں نے آتے ہی چند انتہائی متعصبانہ اقدامات کیے۔
سندھ میں سندھی زبان رائج کی اور اردو کو اس کے جائز حق سے محروم کیا۔ سندھی اور مہاجر کی تقسیم کی لکیر کھینچ دی اور ظالمانہ کوٹہ سسٹم نافذ کردیا۔ انہوں نے بھی بیوروکریسی سے چھانٹ چھانٹ کر مہاجر افسران کو نکال دیا یا کھڈے لائن لگا دیا۔ اسی طرح انہوں نے بنگلہ دیش میں رہ جانے والے ڈھائ لاکھ بہاریوں کو پاکستان میں واپس لینے سے انکار کر دیا۔ لیکن قدرت کا انتقام دیکھئے کہ اس نے سندھ میں ہی لاکھوں افغانیوں کو لا بسایا۔ انہی کے دور میں سب سے پہلے اردو اور سندھی کا جھگڑا پیدا ہوا جس میں درجنوں لوگ مارے گئے۔
ا سی زمانے میں رئیس امروہی کی لکھی ہوئی نظم ” اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے ” زبان زد عام ہو گئی۔ بھٹو کے نافذ کئے ہوئے کوٹہ سسٹم کے خلاف شہری علاقوں کے لوگوں نے تحریک چلائی۔ لیاقت آباد کی پرانی بلدیاتی مارکیٹ کو سندھ کانسٹیبلری سے تباہ کرادیا گیا جس میں درجنوں دوکاندار اور گاہک شہید ہو گئے جن کے مزارات آج بھی 10 نمبر لالوکھیت پر شہدائے اردو قبرستان میں موجود ہیں۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہمیں اس ظلم کی اطلاع ملی تو ہم جامعہ کی پوائنٹ کی بسوں میں موقع واردات پر پہنچے۔ شہدائے اردو کی لاشیں لائ جارہی تھیں اور تدفین کا عمل جاری تھا۔ حالات قابو سے باہر تھے فوج بلائ جاچکی تھی اور شام 5 بجے سے کرفیو لگ چکا تھا ایسے میں ہم نے مغرب کے وقت جبکہ 7 بج رہے تھے مظلوم عوام سے خطاب کیا اور انکے جزبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور پر امن رہنے اور صبر سے کام لینے کی تلقین کی حالانکہ اس وقت ہم خود نشانے پر تھے۔ الحمد اللہ لوگوں نے ہماری بات مانی اور رد عمل میں مزید کوئ قتل و غارت گری نہ ہوئ۔ یہ ہماری زندگی کی یادگار تقریر تھی کہ جس کیلیے ہم نے اپنے والد سے اجازت لی کیونکہ وہ بھی موقع پر موجود تھے۔ والد صاحب ہی کیا ایک عظیم جم غفیر تھا اور جزبات بہت بھڑکے ہوِئے تھے اور کچھ بھی ہوسکتا تھا۔
انہی دنوں ہفت روزہ رسالے ” تکبیر ” کے ایڈیٹر جناب صلاح الدین شہید نے تکبیر میں ایک معرکۃ الآراء مضمون لکھا جس کا عنوان تھا۔
“کوٹہ سسٹم دو دھاری تلوار” اس میں انہوں نے ثابت کیا کہ ایک طرف کوٹہ سسٹم شہری نوجوانوں کے لیے حق تلفی کا باعث ہے تو دوسری طرف اندرون سندھ کے نوجوانوں کے لیے بھی لولی پاپ یا افیم کا کام دے رہا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے ایسا ہی ہوا کہ سندھی نوجوانوں نے تعلیمی میدان میں جدوجہد ترک کر دی کیونکہ انہیں کوٹہ سسٹم کے ذریعے کم نمبروں پر بھی میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلہ مل جاتا تھا مگر جب یہی نوجوان عملی زندگی میں آتے تھے تو سوائے سرکاری نوکریوں کے کچھ اور کرنے کے قابل نہیں رہتے تھے نجی اداروں اور بیرونی ممالک میں ان کی کھپت کم ہوگئی۔
یہ صورت حال ویسے بھی سندھ کے جاگیرداروں کے حق میں تھی کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ ہاری کا بچہ پڑھ لکھ کر ان کے برابر نہ آجائے۔ اس کوٹہ سسٹم سے ہاریوں کو اتنا فائدہ نہ ہوا جتنا جاگیرداروں کی اولادوں کو۔ کیونکہ وہ تعلیم شہروں میں حاصل کرتے تھے اور ڈومیسائل کی بنیاد پر کوٹہ سسٹم سے فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ دوسری طرف ہاری کا بچہ نہ صرف بنیادی ضروریات زندگی سے محروم تھا بلکہ گاوں کے تباہ حال اسکولوں سے پڑھنے پر مجبور تھا۔ اور اس ظالمانہ تعلیمی نظام کو آج بھی اندرون سندھ میں بر قرار رکھا گیا ہے۔ اندرون سندھ تعلیمی اداروں کا جو حال ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ جہاں آج بھی اسکولوں میں وڈیروں کی اوطاق ہے یا جانوروں کا باڑا۔
دوسری طرف شہری نوجوان جدوجہد کرکے میرٹ کی بنیاد پر میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں آنے لگے مگر ایک بڑی تعداد محرومیوں کا شکار ہوگئی انہوں نے سرکاری اداروں سے مایوس ہو کر پرائیویٹ اداروں کا رخ کیا اور ملک سے باہر بھی قسمت آزمائی کی۔ یہ احساس محرومی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔ اور بالآخر ایم کیو ایم کی شکل میں پھٹ پڑا۔ اور اس سیلاب میں جماعت کے ووٹر اور سپورٹر سب ہی بہہ گئے۔
مشرقی پاکستان سے بہاریوں کو نہ بلانے
کوٹہ سسٹم کو نافذ کرنے
اردو سندھی کی تقسیم کرنے اور
مردم شماری میں ڈنڈی مارنے
کی وجہ سے شہری نوجوانوں خصوصاً مہاجروں میں احساس محرومی میں اضافہ ہوا اس موقع پر جمیعت نے خصوصاً اور جماعت اسلامی نے عموماً اس کے خلاف آواز اٹھائی اور کسی حد تک تحریک بھی چلائی جمیعت اور جماعت جس کا سندھ کے شہری علاقوں اور تعلیمی اداروں میں کافی اثرو رسوخ تھا اور وہ ان علاقوں میں سیاسی نمائندگی بھی رکھتی تھیں۔ بلدیات اور مئیر شپ اور قومی اور صوبائ اسمبلیوں میں نمائندگی کے روپ میں بھی موجود تھیں۔ مگر ان کی جدوجہد مزہبی مخمصے کا شکار ہوکر دم توڑ گئی۔
یہ وہ موقع تھا کہ شہری علاقوں کے نوجوانوں کے لیے بھرپور مہم چلاتے مگر ایک تو مزہبی مخمصے کا شکار ہوگئے کہ سندھ کے شہری علاقوں کے جائز حقوق کے لئے سوال اٹھانا متعصبانہ فعل ہے اور دوسری طرف انہیں اندرون سندھ رد عمل کا بھی ڈر تھا لہذا جمیعت اور جماعت نے آہستہ آہستہ شہری علاقوں کے لوگوں کے جائز حقوق کی تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ مگر حقائق سے منہ موڑ لینے سے حقیقت تو مٹی میں دفن نہیں ہو سکتی لہذا یہ لاوہ اندر ہی اندر پکتا رہا۔ جس کو الطاف حسین اور ان کے ہم خیال ساتھیوں نے بہت مہارت سے کیش کیا اور پہلے اے پی ایم ایس او بعد ازاں مہاجر قومی موومنٹ اور آگے چل کر متحدہ قومی موومنٹ کی شکل اختیار کر لی۔
بھٹو صاحب پھانسی پا چکے تھے۔ ضیاء الحق کا دور تھا ضیاء الحق نے بھٹو کی پھانسی سے سندھیوں کے بھڑکتے ہوئے جزبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کوٹہ سسٹم کو مزید دس سال کے لیے بڑھا دیا اور جی ایم سید جو سندھو دیش بنانا چاہتے تھے۔ ان کی عیادت کی اور پھولوں کا گلدستہ بھی پیش کیا۔ اور دوسری طرف مذہبی جماعتیں جو بوجہ ضیاءالحق کے خلاف تھیں۔ ان کا زور توڑنے کے لیے ایم کیو ایم پر ہاتھ رکھ دیا۔
ضیاء الحق کے بعد بےنظیر وزیراعظم بنیں تو انہوں نے بھی دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اور میرٹ کو فروغ دینے کے بجائے تعصب کا راستہ اختیار کیا ظاہر ہے بھٹو نے جو سندھ کی تقسیم کی لکیر کھینچی تھی وہ مزید خونی اور گہری ہوتی چلی گئی۔ اپنے پہلے دور حکومت میں جب بے نظیر کی توجہ مظلوم بہاریوں کو پاکستان لانے کی طرف دلائ گئی تو انہوں نے کہا کہ اس طرح تو سندھی اقلیت میں چلے جائیں گے۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس وقت پورے سندھ کی آبادی ڈھائ کروڑ تھی جبکہ بہاریوں کی تعداد محض ڈھائ لاکھ۔ یعنی اس وقت بھی شہری اور دہی کوٹے کی تقسیم غلط تھی یعنی 40-60 فی صد۔ لہٰزا بے نظیر کے بیان کے مطابق یہ تقسیم 49-51 ہونی چاہیے تھی۔ ثابت ہوا کہ کوٹہ سسٹم کا نفاز ہی غلط نہ تھا بلکہ مردم شماری کی طرح شہری اور دہی کے کوٹے میں بھی ڈنڈی ماری گئی تھی۔ اور جس کو درست کرنے کی فوری ضرورت تھی جب کہ اب تو یہ ریشو الٹی ہو چکی ہے۔ اور اگر صحیح مردم شماری ہوجائے تو سندھ میں حکومت ہی الٹ جائے اور وڈیروں کا تختہ ہوجائے۔ دوسری طرف مذہبی جماعتوں نے شہری علاقوں کے سلگتے مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے اور اسے تعصب سمجھتے ہوئے شرعی طور پر شجر ممنوعہ قرار دے دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں میں مزید مضبوط ہوگئی اور مذہبی جماعتوں کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی۔
افسوس دوسری طرف جلد ہی کیو ایم اپنی ناتجربہ کاری اور لالچ کی بھینٹ چڑھ گئی اور پٹڑی سے اتر گئی۔ جس کے نتیجے میں سندھ کے شہری علاقوں نے قتل و غارت گری۔ لوٹ مار۔ دہشت گردی۔ تباہی اور بربادی کا نہ ختم ہونے والا ایسا دور دیکھا جو کم ازکم تین دہائیوں پر محیط تھا گوکہ اس میں افغان جہاد اور افغان مہاجرین کی آمد اور کلاشنکوف کلچر کے فروغ کا بھی ہاتھ تھا اور بھی کئی وجوہات تھیں۔ جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہی ہے۔
ان سارے معاملات میں سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ایک اور بڑا ظلم بھی ہوتا رہا جو ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک جاری اور ساری ہے۔ وہ مردم شماری میں ڈنڈی مارنا ہے جس کی وجہ سے شہری علاقے اپنے جائز حقوق و اختیارات اور اسمبلیون میں نمائندگی اور مالی فنڈز کی دستیابی سے محروم چلے آرہے ہین۔
ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ حال ہی میں بننے والی پی ڈی ایم اور کراچی سے صوبائی اور قومی اسمبلیو ں کی نشستیں جیتنے والی پی ٹی آئی نے اس شہر سے فائدہ تو اٹھایا لیکن ان تمام مسائل کے حل میں شہریوں کو بری طرح مایوس بھی کیا اب جبکہ ناصرف پلوں کے نیچے سے بلکہ اوپر سے بھی کافی پانی گزر چکا ہے۔ شہری علاقے تباہ ہو چکے ہیں اور اپنے تمام جائز بنیادی حقوق سے محروم کر دئے گئے ہیں تو خدا خدا کر کے جماعت اسلامی کی موجودہ شہری قیادت نے ان معاملات پر نا صرف آواز اٹھائی ہے بلکہ تحریک بھی چلا رہی ہے۔
اب جماعت اسلامی کو دوبارہ سے شہری علاقوں میں اپنی ساکھ بحال کرنے اور لوگوں کا دل جیتنے کیلیے بہت محنت کرنی پڑے گی۔ گو کہ جماعت اسلامی خدمت خلق کے حوالے سے بہت کام کر رہی ہے لیکن الیکشن کی ڈائنامکس کچھ اور ہوتی ہیں اس کا ادراک بہت ضروری ہے ہمارے سامنے ستار ایدھی جیسے انسانیت دوست اور خدمت خلق کے چیمپئن کی مثال موجود ہے کہ جن کی ساری زندگی خدمت خلق کرنے میں گزر گئی اس کے باوجود ایدھی صاحب اپنے ہی علاقے سے محض کونسلر تک کا الیکشن ہار گئے ثابت ہوا کہ لوگ خدمت خلق کے لئے نوٹ تو دے سکتے ہیں مگر ووٹ نہیں۔
یہاں میں ایک بہت ہی اہم نکتہ کی طرف بھی سب کی توجہ مبزول کراوں گا۔ وہ یہ کہ اگر کسی کو بھوک لگی ہو تو ہمیں اس کی بھوک مٹانی ہوگی۔ بھلے وہ اپنی شناخت کچھ بھی بتائے۔ تب تو مسئلہ حل ہوگا۔ لیکن اگر ہم اس کی شناخت کو قبول یا رد کرنے میں لگ گئے اور اسے فتوے دیکر غدار ی اور تعصب کی سند جاری کرنے لگے تو اصل مسائل سے توجہ ہٹ کر شرعی اور قانونی موشگافیوں کی نزر ہو جائے گی۔ مثلا اگر کوئ اپنی شناخت ” مہاجر ” کراتاہے تو اس میں کون سی غلط بات ہے۔ اگر کوئ سندھی ہوسکتا ہے۔ بنگالی ہوسکتا ہے۔ بلوچی اور سرائیکی ہوسکتا ہے۔ پٹھان ہوسکتا ہے پنجابی ہوسکتا ہے اور اس حوالے سے اپنی شناخت کراسکتا ہے۔ اپنی ثقافت کے دن منا سکتا ہے اور فوجی پریڈ میں اپنے فلوٹ اپنی شناخت اور ثقافت کے ساتھ نکال سکتا ہے تو مہاجر بے چارے کو یہ حق کیوں نہی۔
اس میں کیا قباحت ہے۔ کیا ساری شریعت۔ حب الوطنی اور قانون قائدہ صرف مہاجرون کیلیے رہ گیا ہے۔ حالانکہ سب بخوبی واقف ہیں کہ سندھ کے شہری علاقوں کی ساری محرومیاں شروع ہی سے مہاجروں (اردو بولنے والوں ) کو ہدف بنا کر کی گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ چالیس پچاس سالوں میں دوسرے علاقوں سے آکر بس جانے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی ان پالیسیوں کی زد میں آچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نوکری کے اشتہار میں سندھ کے شہری علاقوں کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اداروں میں انٹرویو کے وقت پوچھا جاتا ہے کہ تم کہاں سے آئے۔ جب دوسری نسل آتی ہے تو پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا باپ کہاں سے آیا اور جب تیسری نسل آتی ہے تو بات دادا اور پر دادا تک چلی جاتی ہے۔ مگر یہی سوالات دوسرے لوگوں سے نہی کئے جاتے۔
اگر کوئ بھوکا روٹی کا مطالبہ کرے تو کوئ اس سے اس کا نام اور شجرہ نہی پوچھتا ہے اور نہ ہی اسے اپنا نام شناخت یا شجرہ بدلنے کا مشورہ دیتا ہے۔ بلکہ عدل و انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کی جائز ضرورت پوری کی جائے نہ کہ کفر اور غداری کی سند بانٹی جائے۔ یہاں طوالت کی وجہ سے اپنی بات کو ایک تاریخی مثال پر ختم کرتا ہوں ورنہ کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ تلخ حقائق ہیں۔ مثال یہ ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے ہزاروں جہازوں سے بمباری کرکے لندن کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور برطانیہ تباہی اور مٹنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اس وقت کسی صحافی نے وزیر اعظم چرچل سے پوچھا کہ کیا ان حالات میں ہمارا ملک بچ جائے گا۔ تو چرچل نے سنہری حروف سے لکھا جانے والا تاریخی جملہ بولا کہ کیا ہماری عدالتیں لوگوں کو انصاف دے رہی ہیں۔ صحافی نے جواب دیا۔ ہاں۔
تو چرچل نے کہا پھر ہمیں کوئ خطرہ نہی۔ ظاہر ہے ملکوں اور قوموں کی بقاء کا انحصار صرف عدل و انصاف پر ہے ظلم پر نہی۔
اس تلخ حقیقت کو سامنے رکھ کر اور گزشتہ غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہوگا۔ جناب حافظ نعیم الرحمن نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک بہت اچھی ابتدا کی ہے۔ مگر ابھی مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ لہذا جلد بازی میں کوئ قدم اٹھانے سے پہلے انتہائی سوچ بچار کے ساتھ آئندہ کی پالیسیاں بنانی ہونگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ جدوجہد اور تحریک کو آگے بڑھانا ہوگا۔
فوری نتیجہ کی توقع نہ رکھیں کیوں کہ معاملات اس قدر بگڑ چکے ہیں اور ان کی جڑیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ اس میں بہت وقت لگے گا کاش کہ حافظ نعیم الرحمن اسی کے عشرے میں ہوتے اور انہی مسائل پر یہی تحریک برپا کرتے تو ایم کیو ایم کا وجود نہ ہوتا اور یہ تحریک بھی جلد ہی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتی۔ ایک اور بات توجہ طلب ہے کہ ان سارے مطالبات کا نچوڑ اور حل اگر ایک نکتے میں سمونا ہو تو ہمیں جلد یا بدیر شہری صوبے کی بات کرنی پڑے گی۔ کیونکہ جب تک ہم جڑ کو چھوڑ کر شاخوں کو کترتے رہیں گے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔
اور ہم ٹرانسپورٹ۔ تعلیم۔ ملازمتوں۔ پینے کے صاف پانی۔ سیوریج کے نظام۔ سڑکوں۔ بلدیاتی اور دیگر ترقیاتی کاموں۔ فنڈز کی عدم دستیابی۔ اختیارات کی غیر مجودگی۔ کوٹہ سسٹم کی ستم ظریفی۔ کے سلیکٹرک کی لوٹ مار کا رونا روتے رہیں گے اور نتیجہ وہی ڈہاک کے تین پات رہے گا۔
ہم اگر اسی طرح قسطوں میں مسائل کا حل ڈھونڑتے رہے۔ قسطوں میں تحریکیں چلاتے رہے۔ قسطوں میں ریلیاں اور دھرنے کرتے رہے۔ اور قسطوں میں مار کھاتے رہے گرفتاریاں بھگتے رہے۔ تو ہم کبھی بھی اپنے مسائل کا جامع۔ منصفانہ اور حقیقت پسندانہ حل نہی نکال پائیں گے۔
حقیقی تبدیلی اور ظلم و نا انصافی کے خاتمے کیلیے نیا صوبہ بنانا پڑے گا۔ یہی حل دیگر علاقوں کے مسائل کا بھی ہے کہ نئے صوبے بنائے جائیں۔ اور ایسی بہت سی مثالیں موجودہ دور میں نہ صرف ہمارے ہمسائے ملکوں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی ملتی ہیں۔ انہوں نے اپنے سارے مسائل اسی طرح حل کئے ہیں۔ اس طرح اختیارات صحیح معنوں میں نچلی سطح تک منتقل ہوتے ہیں۔ اور احساس محرومی کا خاتمہ ہوتا ہے اور ملک اور قومیں مضبوط ہوتی ہیں۔
خیر دیر آید درست آید۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا قوموں کی زندگی میں ایسی آزمائشیں آتی رہتی ہیں۔ انشاءاللہ حق کی جیت ہوگی ظلم اور نا انصافی کا خاتمہ ہوگا میرٹ کا بول بالا ہو گا اور دشمن کا منہ کالا ہوگا۔
ہم نے یہ ساری معروضات اپنے علم۔ تجربہ۔ اور براہ راست مشاہدات کی بنیاد پر تحریر کی ہیں
ہم نے بہت ہی حساس معاملے پر قلم اٹھایا ہے۔ ہوسکتا ہے ہمارے کچھ دوست اور احباب ناراض بھی ہوں۔ اور بہت سے حلقے ہم پر تنقید بھی کریں۔ سر آنکھوں پر ہم خیر مقدم کریں گے۔ مگر امید کرتے ہیں کہ لوگ زاتی اور غیر اخلاقی تنقید کی بجائے دلائل۔ اعداد و شمار وغیرہ کے ساتھ معروضی اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بحث کریں تاکہ ایک دوستانہ اور صحت مند ماحول میں اس گفتگو کو آگے بڑھایا جاسکے اور کسی منصفانہ۔ عادلانہ اور مستقل حل کی طرف پیش قدمی کی جاسکے۔
تاکہ ہمارا ملک اور ہمارے علاقے امن و امان۔ عدل و انصاف اور ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بن سکیں۔ آمین ثمہ آمین۔ واللہ اس تحریر سے کسی کی بھی دل آزاری مقصود نہی۔
میرا پیغام ہے محبت جہاں تک پہنچے