یوں تو ہر ایک کو حق حاصل ہے کے وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا پورا پورا بدلہ لے لہٰذا ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا جب سے کورونا کی وباء شروع ہوئی ہے ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ کرونا کو آڑے ہاتھوں لیا اس بری طرح سے اس غریب کا پوسٹ مارٹم کیا کہ اللہ دے اور بندہ لے دھڑا دھڑ ایک کے بعد ایک کالم کورونا پر لکھ مارے بہرحال کورونا کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو عزت نفس تو ہر ایک کی ہوتی ہے کبھی کبھی ایک چیونٹی بھی ہاتھی کے لئے کافی ہو جاتی ہے جب ہمارے کالم کرونہ کی برداشت سے باہر ہوئے تو اس نے کہا
بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی
ایک نہ ایک دن تو چھری کے نیچے آئے گی
شروع شروع میں تو پتہ ہی نہ چلا کہ کرو نہ کب کیسے اور کہاں سے ہم پر حملہ آور ہو گیا۔ پہلے پہل تو بخار ہوا بدن میں درد ہوا ٹھنڈ کی کیفیت طاری ہوئی پھر جنرل فیزیشن سے مدد لی علاج کرایا اور دو چار دن میں بظاہر ٹھیک ہو گئے مگر کمزوری تھی کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی کئی ٹیسٹ وغیرہ بھی کروائے مگر افاقہ نہ ہوا آہستہ آہستہ سانس پھولنا شروع ہوگئی اور بالآخر سانس اکھڑنا شروع ہوئی اور ہم آہستہ آہستہ ڈھیر ہوتے چلے گئے۔
کورونا نے کہا کہ بچو۔ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔
اب جو حالات قابو سے باہر ہوئے تو رات تین بجے ڈاو یونیورسٹی کی ایمرجنسی میں داخل کئے گئے۔ انہوں نے فوری آکسیجن لگائی تمام ضروری اقدامات کئے۔ اور کئی گھنٹوں کے بعد صورت حال کو کنٹرول کرلیا۔ مگر انہوں نے اپنے کورونا کے اسپتال میں داخل کرنے کو کہا۔ مگر سچی بات ہے کہ سرکاری اسپتال جاتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں۔ لہذا اہل خانہ راضی نہ ہوئے اورگھر پر آکسیجن کا انتظام کیا گیا مگر مزید مسائل بڑھتے چلے گئے اور بالآخر مرتا کیا نہ کرتا دوسرے دن ہی ہمیں داخل ہونا پڑ گیا۔
منگل کی رات ڈاو یونیورسٹی نے ضروری کارروائی کرنے کے بعد نیپا چورنگی کراچی پر واقع کورونا ہاسپٹل میں داخل کردیا یہ تین منزلہ بلڈنگ ہے اور کورونا کے ابتدائی دنوں میں چند مہینوں میں تیار کی گئی تھی اس میں ہر فلور پر سو بیڈ ہیں 70 75 بیڈ ہائی ڈیپینڈینسی یونٹ ہیں اور پچیس تیس بیڈ آئی سی یو کے لیے مخصوص ہیں۔ اس طرح تین منزلوں پر کل ملا کر ایک تہائی آئی سی یو اور دو تہائی ایچ ڈی یو بیڈ ہیں۔ کل تین سو بیڈز کا اسپتال ہے۔
ہمیں پہلی منزل پر ہائی ڈیپنڈینسی یونٹ بیڈ نمبر 128 پر داخل کردیا گیا یہاں کا انتظام دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ عام طور پر سرکاری اسپتالوں کے بارے میں تاثر اچھا نہیں ہے مگر یہاں تمام انتظامات بہت ہی معیاری ہیں۔ عملہ اور ڈاکٹر حضرات بھی مریضوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ہر طرح کی مشینیں اور مانیٹرنگ سسٹم موجود ہے۔ صفائی کا بھی بہترین انتظام ہے۔ سرکاری اسپتال میں پورا علاج وی آئی پی انداز میں ہوا مریض کو داخل کرنے کے بعد گھر والے قطعی بری ذمہ ہو جاتے ہیں اور شروع سے آخر تک تمام ذمہ داری اسپتال کی ہوتی ہے اس میں آپ کا علاج معالجہ۔ آکسیجن۔ دوائیاں۔ کھانا پینا سب کچھ مفت ہے مریض کو وارڈ میں قرنطائن کر دیا جاتا ہے ہمیں بھی وارڈ میں بند کر دیا گیا۔ گھر والوں سے صرف فون پر رابطہ تھا
فوری آکسیجن لگائی گئی۔ ایمینیوٹی بڑھانے کے لئے اسٹیرائڈ کے انجکشن دیئے گئے اسٹیرائیڈ لائف سیونگ ڈرگس ہوتی ہیں اس کے سائیڈ ایفیکٹ بھی ہوتے ہیں اسٹیرائیڈ کا انجکشن لگتے ہی ہمارا بلڈپریشر دوسو تک پہنچ گیا اور شوگر بھی ہائی ہوگئی بہرحال دوسری دوائیوں سے شوگر اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کیا گیا ساتھ ہی خون کو پتلا کرنے کے لیے آنٹی کوآگلونٹ انجیکشن اور انسولین کے انجکشن پیٹ میں لگائے گئے مسلسل بلڈ پریشر اور پلس اور آکسیجن لیول وغیرہ کی مانیٹرنگ جاری رہی الحمدللہ تین چار دن کے اندر سارے معاملات کنٹرول کر لیے گئے۔ ڈاکٹر رانیہ ڈاکٹر اقصٰی اور ڈاکٹر خالد کی ٹیم ہمارا علاج کر رہی تھی پھیپھڑوں میں انفیکشن تھا جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری تھی بحر الحال صورتحال قابو کرلی گئی پھر ڈاکٹر نے سانس کی ورزشیں کرائیں اور آہستہ آہستہ پھیپھڑوں کو اس قابل کیا کہ وہ اپنے بل بوتے پر چل سکیں اور آکسیجن کی ضرورت نہ رہے بالآخر آکسیجن ہٹا کر دو سے تین دن مزید مانیٹر کیا گیا اس دوران کھانا بھی میعاری دیا جاتا رہا۔
پھر ڈاکٹروں نے ہمیں پیدل چلنے کی تلقین کی ہم وارڈ میں دس پندرہ منٹ چلتے رہے۔ ایک دن کوریڈور کا دروازہ کھلا اور ہم نے کوریڈور دیکھا ایک ہفتے سے بند رہنے کی وجہ سے قدم خود بخود کوریڈور کی طرف چل پڑے کچھ ہی دور گئے تھے کہ نرس چلائی مریض وارڈ سے باہر آگیا سب نے فوراٰ ہمیں واپس وارڈ میں داخل دفتر کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ سر آپ وارڈ سے باہر نہ نکلیں۔ اس دوران مریض کی صورتحال بتانے کے لئے روزانہ ڈاکٹر حضرات مریض کے گھر والوں کے ساتھ کونسلنگ کرتے تھے تاکہ اہل خانہ مطمئن رہیں۔ ڈاکٹر بینش روزآنہ میرے بیٹے طارق ظفر کو ہماری تازہ ترین صورت حال سے آگاہ رکھتی تھیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس قابل ہو گئے کہ گھر منتقل ہو سکیں۔
خیر ڈاکٹروں نے دعاوں اور محبتوں کے ساتھ رخصت کیا اور اپنے حق میں ہم سے بھی دعا کرائی جو ہم نے بڑے دل و جان سے کی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ باہر کی دنیا میں ہمارے بارے میں بڑی غلط باتیں مشہور ہو گئی ہیں مگر آپ یقین کریں جب کوئی ہمارا مریض صحت یاب ہو کر گھر جاتا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں کوئی اور خوشی نصیب نہیں ہوتی۔ اللہ تمام طبی عملے کو اپنے حفظ و اماں میں رکھے اور انکی خدمات پر انہیں جزائے خیر عطا کرے۔ آنین ثمہ آمین۔
اس دوران ایک اور مسئلہ در پیش ہوا صورتحال کی سنگینی کی وجہ سے نماز پڑھنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس سلسلے میں علماء نے فتوی دیا مٹی پر تیمم کر کے فرض نمازیں پڑھ لیں۔ مگر وارڈ میں مٹی تو آ نہیں سکتی تو ہمیں اس کا ایک حل یاد آیا ہمارے ہم زلف پروفیسر اختر حسن صاحب جوکہ اسلامیہ کالج میں پرنسپل بھی تھے اور انگلش کے پروفیسر بھی تھے بائی پاس کے آپریشن کے لیے اسپتال میں داخل تھے ہم نے دیکھا کہ وہ ٹیلکم پاؤڈر سے مٹی کا کام لیتے ہوئے تیمم کر رہے ہیں اللہ مغفرت فرمائے اسی بائی پاس آپریشن میں ان کا انتقال ہوگیا مگر وہ جاتے جاتے ہمیں ایک راستہ دکھاگئے ہم نے بھی ٹیلکم پاؤڈر سے تیمم کر کے نماز پڑھنی شروع کردی یہ بات ہم نے لوگوں کی رہنمائی کے لئے بیان کر دی ورنہ یہ تو بندے اور اللہ کا معاملہ ہے۔
اسپتال میں قرنطینہ سے ایک فائدہ اور ہوا ایسا محسوس ہوا کہ ہم اعتکاف میں بیٹھ گئے ہیں اور دنیا اور مافیہا سے قطع تعلق کر کے اللہ سے لو لگا لی ہے اکثر رات کی تنہائی میں اور ماحول کے سناٹے میں جب کوئی ایمبولینس آتی تھی اور اس کا سائرن سنائی دیتا تھا تو بے اختیار آ نے والے مریض کے لیے ہاتھ اٹھ جاتے تھے اسی طرح اپنے سے زیادہ بری حالت میں دوسرے مریضوں کو جب دیکھتے تھے دل نرم پڑ جاتے تھے اپنے غم کو بھول کر دوسروں کے لیے دعا کرتے تھے۔ ہم نے ہر نماز کا معمول بنایا کہ سورہ یٰسین اور سورہ رحمٰن پڑھنی شروع کردیں جس سے بڑا سکون اور ڈھارس ملی اور سکینت حاصل ہوئی۔
یہاں ان تمام لوگوں کو جنہوں نے اس اسپتال کا انتظام چلایا ہوا ہے دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ سرکاری شعبے میں انتہائی اعلی معیار کا علاج ہو رہا ہے اگر یہی علاج کسی پرائیویٹ ہسپتال میں کرایا جاتا تو یقینا لاکھوں روپئے خرچ ہوتے اور شاید پھر بھی بھاگ دوڑ الگ کرنی پڑتی۔ لہٰذا یہ ہسپتال علاقے کے عوام کے لئے بڑا تحفہ ہے اور کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ایسے مزید اسپتالوں کی ضرورت ہے عوام کی ایک بڑی تعداد کو ابھی اس کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ وہ تو بھلا ہو محترم ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی بھائی کا کہ انہوں نے ہمیں اس طرف رہنمائی کی ہم بھی اس کالم کے ذریعے عوام کو مطلع کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں کا علاج پورے اعتماد کے ساتھ اسپتال میں کروائیں۔ اپنے تجربات و مشاہدات عوام کی بھلائ کیلیے لکھ دئیے ہیں مگر ہر مریض کا معاملہ اور کیفیت مختلف ہوتی ہے۔
الحمدللہ اب ہم اپنے گھر پر بخیروعافیت ہیں آکسیجن اسٹینڈبائی پر ہے گھر پر بھی قرنطینہ میں رہنے کی پابندی ہے کورونا کا پیریڈ تقریبا چالیس دن کا ہوتا ہے لہٰذا شروع ہونے سے لے کر گھر آنے کے بعد پیریڈ مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے بعد میں بھی لمبے عرصے تک احتیاط اور علاج چلتا رہتا ہے۔ چونکہ احباب نے فیس بک پر پوسٹ ڈال دی تھی لہٰذا خیریت کے لیے فون بھی آتے رہے۔کراچی سے کشمیر تک۔ کوئٹہ سے اسلام آباد تک فون کالز آتی رہین۔ اور یون محسوس ہوا۔ جیسے۔ ۔ ۔
ان کے آنے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے