1970 کی وہ سرد رات جب ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی بادل چھائے ہوئے تھے اور گھارو کے قرب و جوار میں ایک خاموش اندھیری رات چھائی ہوئی تھی رات کے گیارہ بج چکے تھے کہ میں ایک لوڈنگ ٹرک کے ذریعے گھارو پہنچا۔ گھارو ان دنوں مین قومی شاہرہ پر کراچی سے تقریبا 40 میل پر واقع ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ مین روڈ پر دونوں طرف کچی پکی دکانیں اور ہوٹل وغیرہ واقع تھے اور ایک دو مسافر خانے بھی تھے جہاں مسافر کچھ دیر کے لئے رکتے تھے اور شکم پری کرکے سستانے کے بعد اپنی اگلی منزلوں کو روانہ ہو جاتے تھے انہیں میں کچھ دکانیں اور ایک مسافر خانہ جو کہ گھارو مسافر خانے اور گھارو ہوٹل کے نام سے موسوم تھا۔ ہمارے دولھا بھائی کی ملکیت تھا۔ دولہا بھائی ہمیں اسی مسافر خانے پر بیٹھے ہوئے مل گئے سلام دعا اور خیر خیریت کے بعد دولہا بھائی نے ہم سے کہا کہ منے میان تم گھر جاؤ اور آرام کرو میں بھی کچھ دیر کے بعد گھر آتا ہوں۔ وہ ہمیشہ مرتے دم تک بڑے پیار سے مجھے منے میاں ہی کہا کرتے تھے اور ہم نے بھی انہیں ہمیشہ دولھا بھائی کہا۔ پھر ہم وہاں سے گھارو کی رہائشی بستی میں اپنی بہن کے گھر پہنچ گئے۔
ہمیں یوں اچانک دیکھ کر بہن اور بچّے بہت خوش ہوئے تھوڑی دیر بعد ہمارے دولھا بھائی بھی گھر تشریف لے آئے کھانا کھانے اور کچھ گپ شپ کرنے کے بعد دولہا بھائی نے کہا کہ میں پیٹرول پمپ جارہاہوں اور وہیں رات گزاروں گا۔ دولھا بھائی کا برما شیل کا ایک پیٹرول پمپ بھی مین شاہراہ پر موجود تھا جو گھارو کی بستی سے چند فرلانگ پر واقع تھا اور ان کے بڑے صاحبزادے افتخار احمد جاوید کے نام سے موسوم تھا اور جاوید برادرس کےنام سے قائم تھا۔ اکثر وہ اس پیٹرول پمپ پر رات بھی گزارتے تھے۔
ابھی ان کو گئے ہوئے ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ رات کے تقریبا ڈھائی بجے ہمیں ان کی شہادت کی اطلاع ملی چند ڈاکوؤں نے ان کو پہلے خنجروں سے مارنے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے بارہ بور کی رائفل سے ان کے سینے پر عین دل کے اوپر پوائنٹ بلینک کے فاصلے سے گولی چلا دی جس کی وجہ سے ان کی فوری شہادت واقع ہوگئی اور قاتلین اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے، اطلاع ملنے پر جب ہم وہاں پہنچے تو ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے ٹھٹہ لے جائ چکی تھی البتہ پولس اور لوگوں کا ہجوم موجود تھا خیر جوں جوں رات ڈھلتی گئی اور دن چڑھتا گیا۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح قرب وجوار کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی پھیل چکی تھی۔
آہستہ آہستہ قتل کے حقائق اور محرکات بھی سامنے آتے گئے۔ اجرتی قاتلون نے اس کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی تھی مگر چونکہ کوئی بھی شے یا رقم لوٹی نہ گئی تھی۔ لہٰذا سب کا یہی خیال تھا کہ یہ براہ راست قتل کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ دولھا بھائی اس علاقے کی انتہائی ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ اور سیاسی طور پر بھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بہت متحرک تھے۔ انھیں ستر کے الیکشن میں ٹھٹھہ کی نشست پر مسلم لیگ کا ٹکٹ ملنے کے قوی امکانات تھے۔ اس سے پہلے وہ سعودآباد کراچی سے بی ڈی ممبر بھی منتخب ہو چکے تھے۔ ہم لوگ بھی ان دنوں سعودآباد میں ہی رہائش پزیر تھے اور دولھا بھائی کا ایک گھر سعودآباد میں بھی ہوتا تھا۔
دولھابھائی علی گڑھ کے فارغ التحصیل تھے اور سن 47 میں ہی پاکستان آگئے تھے جہاں انہوں نے دھابے جی پر قائم ہرجینا سالٹ کمپنی میں بحیثیت مینیجر ملازمت کر لی تھی۔ ساتھ ہی کلیم میں کچھ زمین دوکانیں گھر وغیرہ گھارو اور قرب وجوار میں مل گئی تھیں۔ دولھابھائی نے ملازمت کے ساتھ ساتھ گھارو مسافر خانہ اور گھارو ہوٹل کے علاوہ برماشیل کے پیٹرول پمپ کا کاروبار بھی شروع کردیا وہ نہ صرف قابلیت اور اہلیت رکھتے تھے بلکہ محنتی اور ایماندار بھی تھے۔لہذٰا ان کا کاروبار بھی ترقی کرتاگیا۔
اس کے علاوہ وہ لوگوں میں انتہائی مقبول اور ہر دل عزیز بھی تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیشہ انہوں نے خدمت خلق کو اپنا شعار بنا ئے رکھا تھا۔ بے شمار لوگوں کی مدد اس طرح کرتے تھے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی تھی۔ یہ بات خود ہم گھر والوں پر بھی ان کی شہادت پر کھلی جب بہت سارے گھرانے روتے دھوتے جنازے میں آئے اور ببانگ دھل اس کا اقرار کیا کہ اب ہماری مدد اور داد رسی کون کرے گا۔
یہاں تک کہ ان کی نماز جنازہ کے بعد گھارو اور قرب وجوار کے لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی تدفین گھارو میں ہی کی جائے اور وہ سائیں کا ہر سال عرس کریں گے کیونکہ سندھ میں پیری مریدی اور مزار اور عرس کا رواج عام ہے مگر ہم لوگ اس پر راضی نہ ہوئے اور کافی بحث مباحثے کے بعد طوعاً و کرہاً ان لوگوں نے ہمیں میت کراچی لے جانے کی اجازت دے دی جہاں پاپوش نگر ناظم آباد کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی-
اس کالم کے سلسلے میں ہم نے ان کے سب سے بڑے بیٹے جناب افتخار احمد جاوید صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی اپنی یاداشتوں کو تازہ کرتے ہوئے درج ذیل کہانی سنائی جو ان ہی کی زبانی قارئین کی خدمت میں پیش ہے
جمیل احمد صاحب 14 اگست 1924 کو علی گڑھ میں پیدا ہویے پیدائشی نام عبدا لجمیل تھا ۔أپ کے والد عبد الحکیم ریلوے میں ملازم تھے جب اپکی عمر ڈھائی سال کی تھی تو والد کا انتقال ھوگیالہٰذا آپ کی پرورش آپ کے چچا نے کی اور آپ نے ان کی سرپرستی میں 1939 میں میٹرک پاس کیا اور ریاضی میں 100 فیصد نمبر حاصل کئے اسکے بعد علی گڑھ کالج میں داخلہ لیا مگر معاشی وجوھات کی بناء پر تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور اپنے چچا کے کاروبار میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہاتھ بٹانے لگے اس دوران تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جب قائد اعظم علی گڑھ تشریف لاۓ آپ ریلوے اسٹیشن پر استقبال کرنے سے لیکر قائد کے جلسے تک منتظمین میں شامل رہے۔
قیام پاکستان کے بعد ھجرت کرکے کراچی آگئے کراچی پہنچ کر آپکی طبعیت خراب ہوگئی اور ڈاکٹر نے مشورہ دیا کے کراچی کیونکہ سمندر کے کنارے واقع ھے اسلئے یہاں کی آب وھوا مناسب نہیں ہے لہٰذا آپ کراچی سے گھارو منتقل ہوگئے گھارو1947 سے پہلے ھندو اکثریتی علاقہ تھا ۔تقسیم کے بعد ہندو بڑی تعداد میں اپنے مکان خالی کرکے بھارت منتقل ہوگئے تھے لہذا اکثر مکان خالی پڑے ہوۓ تھے یہاں آپنے ہرجینا سالٹ ورکس میں ملازمت اختیار کی اور اسکے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا
آپ ہر چھٹی والے دن کراچی آکر مہاجر کیمپ جاتے اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرتے نہ صرف یہ بلکہ متعدد خاندانوں کو گھارو میں لاکر آباد بھی کیا ۔1949 میں ضلع ٹھٹہ سے مسلم لیگ کی کونسل کے ممبر نامزد ہوئے واضح رہے کہ اس زمانے میں ضلع ٹھٹھہ سے صرف دو ممبر منتخب ہوتے تھے اسکے بعد آپ گھارو ٹاؤن کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوۓ ۔قابل ذکر پہلو یہ ہے کے گھارو کے نئے مکین تو آپکے سپورٹر تھے ہی بلکہ وھاں کے پرانے رہائشی سندھی حضرات بھی آپکے سپورٹر تھے۔ آپ کو سندھی زبان پر مکمل عبور تھا ایک دفعہ گھارو میں زمین کے تنازع پر لسانی گروپوں میں جھگڑا ھوگیا جسے آپنے اپنی دانشمندی سے ختم کروایا ۔
ایک مرتبہ سکھر میں مسلم لیگ کونسل کا اجلاس سندھ کے وزیر اعلیٰ عبدالستار پیرزاده کی زیر صدارت ہورہا تھا وہاں جمالی قبیلے کے سردار میر جعفر خان جمالی بھی موجود تھے انہوں نے وہاں آپ کو جمالی قبیلے میں شرکت کی دعوت دی جو آپنے قبول کرلی اور پھر آپ جمالی قبیلے کی سرگرمیوں آخری وقت تک شرکت کرتے رہے۔ یوں آپ کے نام کے ساتھ جمالی کا اضافہ ہوگیا جو تا حیات قائم رہا اور بیٹوں کے ناموں میں بھی منتقل ہوا اور اسی نام کے ساتھ شہرت پائی۔
گھارو ٹاؤن کمیٹی کے چیئرمین کی حثیت سے آپ نے کئی ترقیاتی کام کیے اکثر بارشوں میں لوگ نقل مکانی کرکے گھارو آجاتے جہاں انہیں مفت اناج وغیرہ فراہم کیا جاتا ۔1956 میں آپ ملازمت کے سلسلے ہی میں سعود آباد کراچی منتقل ہوگۓ لیکن گھارو کی بستی کو بھی نہیں چھوڑا ۔1958 کے مارشل لاء کے بعد جب ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے انتخابات کرواۓ تو آپ سعودآباد سے ممبر منتخب ہوۓ ۔1962 کے آئین کی منظوری کے بعد ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ قائم کی تو آپ اس میں شامل هونے کے بجائے مخالف دھڑے کونسل مسلم لیگ میں شامل ھوۓ اور آخری وقت تک مسلم لیگ کونسل سے وابستگی رکھی۔ یہان تک کہ کونسل مسلم لیگ کا ڈھاکہ سابقہ مشرقی پاکستان میں جو آخری اجلاس ہوا تھا اس میں بھی شرکت کی۔
اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ لوگوں کی ہمیشہ بے لوث خدمت کی اور کبھی اپنی حثیت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی ۔ ہمیشہ آمریت کے خلاف جدوجہد کی ۔1964 میں دوبارہ گھارو منتقل ہوگئے اور جب ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو اگرچہ آپ بنیادی جمہوریت کے ممبر نہیں تھے لیکن کونسل مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آپ نے محترمہ فاطمہ جناح کی الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اس دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا ۔ ٹھٹھہ کے ڈپٹی کمشنر کو اوپرسے احکامات ملے کہ جمیل احمد جمالی صاحب کو گرفتار کرلیا جائے ۔کیونکہ ایس ایچ او آپ کو اچھی طرح جانتا تھا لہٰذا اس نے خود گھر آکر اطلاح دی کے احتیاط کریں اور اوپر لکھ کر بھیج دیا کے وہ گھر پر نہیں ملے ۔آپ نے ہمیشہ آمریت کے خلاف جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
جب ایوب خان کے خلاف ایئر مارشل اصغر خان نے تحریک شرو ع کی تو آپنے گھارو میں انکا اپنے خرچ پر جلسہ منعقد کروایا اسی طرح جب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے خلاف تحریک چلانے نکلے تو آپنے نہ صرف انکا دهابيجی ریلوے ا سٹیشن پر استقبال کیا بلکہ وہاں انکی تقریر کے لیے انتظامات بھی کیۓ ۔ آپ کا انتقال 29 اگست 1970 کو ہوا۔ یہاں افتخار احمد جاوید صاحب کا بیان ختم ہوا۔
آپ بڑے شریف النفس با اخلاق اور خدمت خلق سے سرشار تھے صدقات اور نیکی کے کام اس طرح کرتے تھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی کتنے ہی خاندان ایسے تھے جن کا ماہانہ خرچ اور راشن کا انتظام خود کرتے تھے جس کا اظہار ان لوگوں نے ان کے انتقال کے موقع پر ہم سے کیا بہت ہی وضعدار شخصیت تھی ہمیشہ شیروانی اور جناح کیپ زیب تن کرتے تھے کبھی بھی اس کے علاوہ کسی اور لباس میں انہیں نہیں دیکھا گیا۔
جن لوگوں نے اور جن قوتوں نے ان کا قتل کرایا تھا بالآخر جلد یا بدیر عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئیں۔ ان کے انتقال کے بعد چونکہ ان کے تمام بچے کم عمر تھے یہاں تک کہ سب سے چھوٹا بیٹا ان کی شہادت کے دس دن کے بعد پیدا ہوا۔
الحمدللہ ان کی تمام اولادیں خوش وخرم ہین۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا عقیل احمد جمالی امریکہ میں رہائش پذیر تھا اور اب سے دو سال پہلے رمضان میں جمعۃ الوداع کو عین روزے کی حالت میں عصر کے وقت ہارٹ اٹیک سےانتقال کر گیا چونکہ وہ بھی خدمت خلق میں پیش پیش تھا اس لیے پاکستانی کمیونٹی شکاگو میں بہت بڑا جنازہ ہوا یہ وہی بچہ ہے جو مرحوم جمالی صاحب کی شہادت کے دس دن کے بعد پیدا ہوا تھا۔
ایک اور صاحب زادے وکیل احمد جمالی شکاگو میں رہائش پذیر ہیں وہ کراچی میں عزیز آباد کے علاقے سے کونسلر اور ایم پی اے منتخب ہوتے رہے اتفاق سے سندھ اسمبلی کے ایک اجلاس کے موقع پر ایک سندھی رکن اسمبلی نے ان کے نام میں جمالی کا لفظ دیکھ کر تعارف حاصل کیا۔ تو پتہ چلا کہ وہ مرحوم جمیل احمد جمالی صاحب کے صاحبزادے ہیں جن سے وہ بہت اچھی طرح سے واقف تھے۔ اور ان کےعقیدت مند تھے۔
ان کے تین صاحبزادگان کراچی ہی میں مقیم ہیں۔ جن میں شکیل احمد جمالی ایک پرائویٹ بنک میں SVP ہیں۔ جبکہ کفیل احمد جمالی ایک سرکاری وفاقی ادارے مین گریڈ 17 کے ملازم ہین۔ایک اور صاحبزادے افتخار احمد جاوید جو کہ ان کی پہلی بیگم سے ہین۔کراچی مین PIA سے جنرل مینیجر فائنانس کی پوزیشن سے ریٹائرڈ ہوکر ایک اچھی زندگی گزار رہے ہین۔
جمالی صاحب کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔ جو کہ کراچی میں ہی مقیم ہیں۔ ان کی دوسری بیگم اور ہماری ہمشیرہ صاحبہ بھی تقریباً بارہ سال پہلے وفات پاچکی ہیں۔ جو کہ کراچی میں ہی مقیم تھیں۔
جمیل احمد جمالی صاحب کے قاتلین بھی مکافات عمل سے نہ بچ سکے اور دنیا میں ہی نشان عبرت بن گئے۔ ایک اور عجیب بات یہ ہوئ کہ ان کی شہادت کی رات سے جو بارش شروع ہوئی تھی وہ مسلسل بغیر کسی وقفے کے دس دن و رات چلتی رہی۔ لگتا تھا کہ آسمان بھی ان کی شہادت پر رو رہا ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ جمالی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو چین سکون عطا کرے۔آمین ثمہ آمین۔