ایک ایسے وقت میں جب بھارت ہمیں نیو انڈیا ڈاکٹرائن کی دھمکی دے رہا ہے، اس وقت تیس مار خان صاحب اپوزیشن کو نیا عمران خان بننے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ کیا عقل ہے کیا عالی دماغ پایا ہے سبحان اللہ۔
یوں تو سیاسی حریفوں کو اداروں کے ذریعے روندنے کا کھیل الیکشن سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا مگر اس کھیل میں نیا موڑ اس وقت آیا جب وزیراعظم نے ٹھوڑی پر ہاتھ پھیر کر حزب اختلاف کو للکارا۔ایسے میں مزار قائد واقعہ ہوا تو غیض و غضب سے بپھری حکومت نے فاش غلطی کردی۔آئی جی سندھ کو ہی اٹھوالیا۔اس ڈھیلی سی گیند پہ سندھ حکومت اور ن لیگ نے چھکا دے مارا۔
اس واقعے کی جب فوٹیج سامنے آئی تو حکومت کے ہاتھ پاؤں مزید پھول گئے فوٹیج نکالنے والے صحافی کو ہی نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا یہ دوسری غلطی تھی!
اگرچہ اس واقعے کے بعد وزراء حکومتی مشیروں اور معاونین نے پریس کانفرنسیں تو کیں مگر یہ سب لڑائی کے بعد یاد آنے والے مکے جیسا تھا۔
اس واقعہ نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیااپوزیشن کا رویہ مزید تلخ کردیا جو “جلسہ سیریز” سے حکومت پر دباؤ بتدریج بڑھا رہی ہے۔سیاسی اورعسکری قیادت سنگین الزامات کی زد پر ہے اگرچہ اپوزیشن کے قائدین یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کی تنقید “کرداروں” پر ہے “اداروں” پر نہیں۔مگر سوال تو یہ بنتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ معلوم تھا تو پھر آرمی چیف کو دوسری بار ایکسٹینشن کے لئے ووٹ کیوں دیا۔
سیاسی بحران مستقبل قریب میں مزید سنگین ہوگا۔اپوزیشن کا مقصد دباؤ کو مطلوبہ حد تک بڑھاناہے تاکہ پھر مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط فریق کی حیثیت سے بیٹھ سکیں۔حزب اختلاف مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن رکوانے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرے گی جو وہ کر سکتی ہے۔حکومت سینیٹ الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کے لئے اپنا پورا زور لگائے گی۔اس لیے کہ سینیٹ الیکشن کی صورت میں ایوان بالا میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہوجائے گی۔
اس ساری صورتحال میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی جو خلیج ہے اس کا پاٹنا تو ممکن نہیں مگر پھر بھی اس بحران سے نکلنے کا راستہ مذاکرات ہیں!
سوال یہ ہے کہ جس مائنس تھری کی بات نواز شریف صاحب کر رہے ہیں کیا وہ ممکن ہوگی؟مذاکرات ہوئے تو کس سے اور کون سی قوت سے ہوں گے ۔کون کسے کیا دینے کی پوزیشن میں ہوگا اور کون کسی سے کیا لینے کی پوزیشن میں ہوگا اس کا فیصلہ وقت حالات اور اعصاب کریں گے۔ویسےان دنوں ریٹائر فوجی جرنیل سپاہ سالار کو مذاکرات کے لئے پہل کرنے کا مشورہ دیتے سنائی دیتے ہیں۔نوبت یہاں تک اس لیے آئی کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو جمہوری طریقے سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔ پچھلے سینیٹ الیکشن اور تحریک عدم اعتماد میں غیبی ہاتھوں کی” مدد” شامل نہ ہوتی تو آج اپوزیشن پارلیمنٹ میں اپنا سیاسی کردار ادا کر رہی ہوتی سڑکوں پر جلسے نہیں ۔اس سیاسی بحران کا ایک حل پارلیمنٹ میں ان ہاؤس تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کچھ ایسا مشکل کام بھی نہیں چند ووٹوں کی عددی اکثریت کی بنیاد پر ہی یہ حکومت کھڑی ہے۔
اگر وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا قوی امکان نظر آیا تو انہیں عام انتخابات ہی مسئلے کا حل نظر آئے گا۔کیونکہ اس میں وزیراعظم کے پاس یہ آپشن تو موجود ہے کہ وہ جذباتی تقریر کریں اور پھر اسمبلی توڑ کر عام انتخابات کا اعلان کردیں ووٹرز کو کہیں کہ مجھے بھاری اکثریت دلاؤ تاکہ میں مضبوطی سے اور جم کر حکومت کر سکوں۔روز بروز کشیدہ تر ہوتی سیاسی صورتحال میں عمران خان عام انتخابات کا عندیہ یہ کہہ کر دے بھی چکے ہیں کہ چاہے ان کی حکومت ختم ہو جائے وہ این آر او نہیں دیں گے۔مگر اس میں قباحت یہ ہے کہ مہنگائی کے سونامی میں شفاف عام انتخابات ہوئے تو یہ بات یقینی ہے کہ عمران خان اور ان کے حواریوں کا وہی حال ہو جو پرویز مشرف اور ان کی ہمنوا قاف لیگ کا ہوا تھا اور ایسی ہی صورتحال میں ہوا تھا تھا۔
گلگت بلتستان کے انتخابات ابھی ہونا ہیں۔انتخابی عمل اور اس کے نتائج کا ملکی سیاسی صورتحال پر ایک حد تک اثر ضرور پڑے گا انتخابات شفاف ہوئے تو تحریک انصاف اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گی اور انتخابات کو سال 2018 کے عام انتخابات سے جوڑنے کی کوشش یہ کہہ کرے گی کہ گزشتہ عام انتخابات بھی شفاف تھے کوئی بکسہ چوری نہیں ہوا ڈبل ٹھپے لگا کر ووٹ مسترد نہیں کیے گئے لہٰذا ہماراحق حکمرانی جمہوری طور پر تسلیم کیا جائے۔یوں بھی
دعویٰ کرنا حکومت کا تسلیم کرنا یا مسترد کرنا اپوزیشن کا حق ہے۔ آج اگر عمران خان صاحب کی حکومت شدید مشکلات کا شکار ہے تو اس کی وجہ کوئی اور نہیں وہ خود ہیں۔مخالفین کی چھچور پن سے مسلسل تضحیک اور تحقیر کانتیجہ ایسے ہی حالات میں ظاہر ہوتا ہے جو اب وقوع پذیر ہورہے ہیں
ہم نے اپنے کسی کالم میں لکھا تھا کہ “سب کی شخصیت میں کوئی نہ کوئی جذبہ غالب ہوتا ہے جو شخصیت کی تشکیل کا بنیادی جزو ہوتا ہے۔جیسے کوئی فیاض ہوتا ہے تو کوئی کنجوس، کوئی غصیلا ہوتا ہے تو کوئی ہنس مکھ، کوئی چارہ ساز اور یار غار ہوتا ہے تو کوئی خود غرض اور حاسد۔ اسی بنا پہ شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے، سماج میں فرد کی ساکھ کا تعین بھی اسی غالب جذبے کی بنیاد پہ ہوتا ہے۔عمران خان صاحب کی شخصیت میں انتقام کا جذبہ شدت سے موجزن نظرآتا ہے جسے وہ اب تک احتساب کا نام دیتے رہے ہیں۔وہ منتقم المزاج ہیں” اس لیے رویہ تعمیری نہیں۔ بقول شاعر ؎
جب بھی تجھے دیکھا کسی بحران میں دیکھا
نسیان میں دیکھا کبھی ہذیان میں دیکھا
یہی وجہ ہے کہ غریب اور بیروزگار عوام کو ایک کے بعد ایک بحران کا تحفہ تبدیلی کی سوغات کی صورت میں مل رہا ہے۔ نجانے قصر اقتدار میں کیسا فسوں تھا کہ بڑے طمطراق سے اس میں داخل ہونے والے تیس مار خان صاحب یہ آفاقی حقیقت بھول گئے کہ جس نے خلق خدا کا خیال نہ رکھا پھر خلق خدا نے اسے کہیں کا نہ رکھا! حبیب جالب کی یہ نظم ہر آنے والے والے اور جانے والے حکمران کے لیے نوشتہ دیوار ہے ؎
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
موجودہ سیاسی بحران کسی کی جیت کسی کی ہار پہ ختم ہوگا یا سب کی ہار یا سب کی جیت پہ آنے والے دنوں میں یہ بات واضح ہوجائے گی۔ایک بات طے ہے کہ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ عوام ہیں جو نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔کاش ادارے سیاسی نظام کو لیباریٹری سمجھ کر تجربے کرنا بند کریں اپنی اپنی آئینی حدود کا خیال رکھیں تو ایسے بحران پیدا ہی نہ ہوں!