محمد عثمان جامعی
…………..
تھے ہم ہارا ہوا لشکر
اندھیرے میں گھرا لشکر
شکستہ حوصلوں کے بوجھ نے کاندھے جھکاٸے تھے
لہو کے ساتھ اپنی آنکھ نے سپنے بہاٸے تھے
عدو کس فاتحانہ شان سے ٹھٹھٹے لگاتا تھا
ارادے دیکھ کر اس کے یہاں دل ڈوبا جاتا تھا
تو ایسے میں کوٸی جینے کا نسخہ لے کے آیا تھا
کرشمہ بن کے آیا وہ
کرشمہ لے کے آیا تھا
عجب سوداٸی تھا
اپنے وطن کو دینے عظمت وہ
سجاٸے دل میں جذبہ
سر میں سودا لے کے آیا تھا
کمال اس نے کیا وہ جو
خیالوں میں نہ آیا تھا
ہوٸے تھے سینے چوڑے
اور ہم نے سر اٹھایا تھا
بچانے کو ہمیں دشمن سے کیا تدبیر کی اس نے
جو ناممکن نظر آتی تھی وہ تعمیر کی اس نے
بقا اس ملک کی ناقابل تسخیر کی اس نے
اسی کی دانش وجرات نے ہم کو دن یہ دکھلایا
ہماری جانب اٹھتی آنکھ میں وہ خوف لہرایا
مٹادینے کا ہم کو خواب جو دیکھا تھا کملایا
وہ ایسا کرگیا کہ ہم پہ کوٸی چھاٸے، ناممکن
کبھی پرچم ہمارا سرنگوں ہوجاٸے، ناممکن
کوٸی یلغار کرنے اس وطن میں آٸے، ناممکن
ہوا رخصت وہ محسن، کیا وفا اس نے نبھاٸی ہے
ہماری سرحدوں پر آہنی دیوار اٹھاٸی ہے
کیا ہے عشق، پھر اس عشق کی قیمت چکاٸی ہے