تاریخ اپنے عمودی رخ پر اپنے ڈھب اور رفتار سے سفر جاری رکھتی. بعض اوقات کئی صدیاں بیت جاتی ہیں اور تاریخ کے بہاؤ میں کوئی فرق نہیں آتا. یہ پرسکون صدیاں تاریخ اپنے حافظے میں محفوظ کرنے کا تکلف بھی نہیں کرتی. پھر کوئی جواں مرد اس وقت کے دریا سے اٹھتا ہے اور اس کی پرسکون موجوں میں تلاطم برپا کردیتا ہے. یہ تلاطم بعض اوقات تو دریا کا رخ ہی موڑ دیتا ہے. اس کے بعد عرصہ دراز تک اس تلاطم کے اثرات محسوس ہوتے رہتے ہیں. تلاطم جتنا شدید ہوگا اس کے اثرات بھی اتنے ہی دیرپا ہوں گے. یہ طوفان تاریخ کو چوکنا کردیتا ہے، تاریخ بہت توجہ سے رونما ہونے والے واقعات کو محفوظ کرنے پر جت جاتی ہے. یہ جواں مرد تاریخی شخصیات کہلاتے ہیں . یہی لوگ آنے والی نسلوں کے ہیرو قرار پاتے ہیں . لوگ ان جیسا بننا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کے نام ان کے ناموں پر رکھتے ہیں.
جہاد زندگانی میں ذہانت، وجاہت، قوت، جرات صلابت.،ذوقِ عمل اور مقصد سے شدید عشق ان جواں مردوں کی شمشیریں ہوا کرتی ہیں. . وہی لوگ کوئی بڑا کام سرانجام دے کر تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ سکتے ہیں جن کے ہاتھوں میں یہ شمشیریں ہوں . یہ لوگ دنیا کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق ڈھالنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں. بیان کردہ خوبیوں کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ان میں مشترک نظر آتی ہیں. تمام تاریخی شخصیات کی سوانح پڑھ کر دیکھ لیں تو معلوم ہوگا کہ انھیں کوئی منصب کسی نے تھالی میں رکھ کر نہیں دیاگیا . وہ سب کے سب مشکل حالات سے گزر کر بلندی پر پہنچے ہیں. ان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے. قدرت ان کے عزم و حوصلے کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے سازگار حالات ترتیب دیتی ہے. تاریخی قوتیں ان کی معاون بن جاتی ہیں. یہ اصول کافر اور مسلم دونوں پہ لاگو ہے . جس میں صلاحیت ہوگی وہ ہاتھ بڑھا کر مینا اٹھا لے گا . اب اسے کچھ بھی کہیں مگر سچ یہی ہے کہ وقت کے دھارے کا رخ موڑنے اور سیاسی تاریخ کا رخ متعین کرنے میں جنگوں کا کردار بہت اہم رہا ہے. تاریخ فاتحین کے ذکر سے بھری پڑی ہے. یہ اگر ایک طرف بادشاہوں کی سوانح عمری ہے تو دوسری طرف فاتحین کا قصیدہ . تاریخ بلا مزاحمت شکست کھانے والوں کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتی . کسے یاد ہے کہ سکندر اعظم کے گھوڑے کے سموں نے کس کس کو روندا.
. یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہیرو کا تعلق چاہے کسی دور سے ہو، وہ کسی خطے، قوم یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو اس میں وہ خوبیاں ضرور ہوتی ہیں جن کا پہلے ذکر کیا گیا ہے. جب وہ کامیابی کی منازل طے کرنا شروع کرتا ہے تو تاریخ کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے. تاریخ اس کے ساتھ اس قدر ہم دردانہ رویہ رکھتی ہے کہ اس کی بشری کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے لرزہ خیز مظالم کے ساتھ بھی رعایت برت جاتی ہے. یہ تاریخ کے لاڈلے بیٹے ہیں اور تاریخ اپنی اس اولاد سے بہت محبت کرتی ہے . سکندر اپنے وطن اور مذہب سے بالاتر ہوکر پوری انسانیت کا ہیرو ہے . وہ اس کے باوجود ہمیں پسند ہے کہ اس نے ہمارے مقامی بادشاہ پورس کو شکست سے دوچار کیا تھا. ہندوستانی ہونے کے باوجود جب ہم اس جنگ کے حالات پڑھتے ہیں تو ہماری ہمدردی پورس کی بجائے سکندر کے ساتھ ہوتی ہے. انسان کی فطرت کمزور کو اپنا آئیڈیل بنا ہی نہیں سکتی. انسانی فطرت کو قوت کا پجاری نہ بھی کہیں تو بھی قوت پسند تو کہنا ہی ہوگا . یہاں یہ عرض کردینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ اہل علم، فلسفی اور صوفیا بھی ہیروز کا درجہ پاجاتے ہیں. تاریخی عمل میں یہ بھی فعال کردار ادا کرتے ہیں مگر تاریخ کے اس جبر کو کیا کہیے کہ زیادہ لوگوں نے بچوں کانام سکندر رکھا ہے. ارسطو رکھنے والے بہت کم ہوں گے.
مجھے یہ تمہید اس لیے باندھنا پڑی کہ آج کل بحث جاری ہے کہ ہمارا ہیرو محمد بن قاسم ہے یا راجہ داہر . ایک گروہ مذہبی عقیدت کی بنیاد پر ابن قاسم کو ہیرو سمجھتا ہے تو دوسرا مٹی کے بیٹے راجہ داہر کو یہ مقام دینے پر اصرار کرتا ہے . ایک لمحے کے لیے مذہب اور وطن کی عصبیت سے بالا تر ہو کر صرف تاریخی اصولوں کی بنیاد پر تجزیہ کریں. ایک حکم ران جو اپنے ملک میں ہے.خاصی بڑی تازہ دم فوج کا مالک ہے. وسائل کی بھی کمی نہیں اور وہ ایک نوجوان سے شکست کھا جاتا ہے جس کے پاس چھے سات ہزار فوج ہے . یہ نوجوان دیبل تک کئی ہزار کوس کا فاصلہ طے کر کے پہنچتا ہے . راستے میں اس نے یقیناً بے شمار مصائب برداشت کیے ہوں گے. آٹھویں صدی عیسوی میں آج کل جیسی سفری سہولیات تو ظاہر ہے نہیں تھیں. اتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد لشکر کی جسمانی صحت بھی بری ہوگی، تھکن کا کیا عالم ہوگا؟ اس کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے. اس نوجوان کے پاس مادی وسائل بھی یقیناً مقامی راجے کے مقابلے میں کم ہوں گے. پھر بھی یہ سترہ برس کا نوجوان اپنے سے بڑی، طاقت ور فوج کو شکست فاش دیتا ہے اور کئی ہزار مربع میل کے رقبے پر قبضہ کرلیتا ہے . اس صورت میں راجہ داہر کیسے ہیرو قرار دیا جائے ؟ . وہ ہیرو کی بنیادی کوالیفیکیشن سے ہی محروم ہے. اس میں وہ صلاحیت ہی نہیں تھی جو ہیرو کے لیے درکار ہے . وہ ہیرو بنتا، اگر عربوں کو ایسی شکست سے دوچار کرتا کہ آئندہ انھیں کبھی ہند سندھ کی طرف رخ کرنے کی جرات نہ ہوتی. شکست دینا تو ایک طرف وہ تو ڈھنگ سے مزاحمت بھی نہ کرسکا. راجہ داہر کی شکست اس کے لیے ہی نہیں اس کے ہم وطنوں کے لیے بھی باعث شرمندگی ہے. تاریخ کبھی اس کا احترام نہیں کرے گی. تاریخ افراد اور قوموں کی شرمندگیاں ریکارڈ کرنے کے لیے نہیں ہے. ہارنے والوں کی تو لوگوں کے دِلوں میں بھی عزت نہیں ہوتی . سپین سے بھاگنے والے امویوں کے ناموں پر لوگ اپنے بچوں کے نام کاہے کو رکھیں گے. تاریخ چنگیز خان کے مظالم کو بھی ہمدردی سے دیکھتی ہے. اس کی اولاد فخر سے اپنے نام کے ساتھ ” چنگیزی” کا لاحقہ لگاتی ہے. جو لوگ چنگیز خان کے ہاتھوں مغلوب ہوئے ممکن ہے وہ بہت رحمدل.،فیاض اور رعایا پرور ہوں مگر وہ اب کہیں تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہیں. تیمور کی سفاکی ایک طرف مگر آج بھی بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کا نام تیمور ہے. لوگوں نے اس کے بنائے کھوپڑیوں کے میناروں کے مقابلے میں اس کی جرات اور قوتِ عمل کو زیادہ اہمیت دی. دوسری طرف ہندوستانی مسلمان ہونے کے باوجود سراج الدولہ ہمارا ہیرو نہیں بن سکا کہ اپنے ” ہوم گراونڈ” میں ایک مختصر سی فوج سے شکست کھا گیا. اس کا ذکر تاریخ میں صرف اس لیے آتا ہے کہ اس کی شکست کے بعد بنگال انگریزوں کے ہاتھ میں چلا گیا. البتہ ٹیپو اپنی بے پایاں مزاحمت اور جہد مسلسل کے سبب بہرحال ایک ہیرو کی کوالیفیکیشن رکھتا ہے اور تاریخ اسے سراہتی بھی ہے. وہ ٹیپو ہی نہیں ہر مزاحمت کار کو پسند کرتی ہے.
اب ہمیں اچھا لگے یا برا، محمد بن قاسم بہرحال ایک تاریخی شخصیت ہے. اس کے ایک حملے نے برصغیر کی تاریخ کا رخ موڑ دیا. اگر وہ نہ آتا تو ہندوستان یقیناً کسی اور شکل میں ہوتا. وہ یہاں مال غنیمت یا کشور کشائی کے لیے آیا یا پھر شوق شہادت میں، تاریخ کو اس سے کوئی غرض نہیں. وہ یہ نہیں دیکھتی کہ وہ کسی لڑکی کی آواز پہ لبیک کہتا ہوا آیا یا سادات کے تعاقب میں . تاریخ تو نتائج دیکھتی ہے. تاریخ سکندر اور چنگیز خان کے حملوں کی وجوہات پر کم بحث کرتی ہے، فتوحات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر زیادہ توجہ کرتی ہے . ابن قاسم یہاں کیوں آیا اور بعد میں امویوں نے اس سے کیا سلوک کیا یہ لاحاصل بحث ہے اصل بات یہ ہے کہ اس نے اپنی صلاحیتوں سے ثابت کیا کہ وہ تاریخ کے صفحات میں جگہ پانے کا حق دار ہے. اس نے یہ جگہ بھیک میں حاصل نہیں کی بلکہ وہ تمام امتحانات پاس کیے جو تاریخ میں جگہ پانے کے لیے ضروری ہیں. صاحبو ، تاریخ کے صفحات پر جگہ بزور شمشیر ہی ملتی ہے. اس کے لیے بہت ریاضت چاہیے . خطرات سے کھیلنے کی عادت ڈالنا پڑتی ہے . ہر وقت جان ہتھیلی پر رکھ کر جینا ہوتا ہے. ٹھنڈے کمروں میں گرم کافی پیتے ہوئے کسی پر اچھے برے، ہونے کے فتوے لگانا ایک بات ہے اور گارگہہ حیات میں زندگی کی قیمت پر کامیابی حاصل کرنا دوسری بات. یہ دنیا خواہشِ تسخیر سے مملو جری لوگوں کے لیے بنی ہے . یہ تاریخ کے وہ لاڈلے بچے ہیں کہ تاریخ جن کے کارنامے مزے لے لے کر سناتی ہے. ان کے علاوہ باقی صرف ہجوم ہے جو شاید دنیا میں اسی لیے آتا ہے کہ یہ عظیم لوگ ان کو فتح کرکے ذوقِ حکمرانی کی تسکین کرسکیں. راجہ داہر بھی ایسے ہی ہجوم کا حصہ تھا. اس کی سب سے بڑی “قابلیت” یہی ہے کہ اس نے ہزاروں میل دور سے آئے سترہ برس کے نوجوان سے شکست کھائی. اگر محمد بن قاسم نہ ہوتا تو اس بیچارے کا نام بھی کوئی نہ جانتا ؟ وہ تو تاریخ کے کوڑے دان میں جانے سے بھی ابن قاسم کی وجہ سے بچ گیا. اب کوئی اسے ہیرو بنانا چاہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے کہ آخر ہم اسے کس خوبی کی بنا پر آئیڈلائز کریں ؟باقی چھوڑیں نیٹشے اور ڈارون کی منطق ہی دیکھ لیں ( آج کی ساری سیاسی وسماجی زندگی کے پیچھے انہی دو اصحاب کے فلسفے کارفرما ہیں ) ان کے بنائے اصول بھی کبھی پورس اور داہر کو ہیرو قرار نہیں دیں گے ؟ . اگر داہر صاحب میں صرف یہی خوبی ہے کہ ان کا تعلق ہندوستان سے تھا تو معاف کیجے گا، تاریخی عمل میں یہ کوئی خوبی نہیں . تاریخ نے کبھی کسی کو محض اس کے خطے یا مذہب کی وجہ سے اپنے دل میں جگہ نہیں دی . یہ نخریلی نار صرف عمل کی قوت سے لبریز انسانوں کے لیے اپنی بانہیں وا کرتی ہے .
بہر حال شخصی آزادی ہے. اس سب کے باوجود کوئی کسی وجہ سے اگر داہر کو اپنا ہیرو بنانا چاہتا ہے تو ہم روکنے والے کون ہوتے ہیں. اگر کوئی اپنے بچوں کا نام داہر رکھنا چاہے تو اسے پورا حق ہے. البتہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ لوگوں کو یہ بھی حق ہے کہ وہ محمد بن قاسم کو ہیرو سمجھیں اور اپنے بچوں کا نام ” محمد بن قاسم ” رکھیں.