مغربی ممالک کے تقریبا سبھی ملک انتہائی خوبصورت اور دلکش ہیں بلکل ویسے ہی جیسے ہم پاکستانی کتابوں اور ناولوں میں پڑھتے اور دل و دماغ میں عکس رکھتے ہیں۔ مغربی ملکوں کا ذکر اس لیے کیا کیوں کہ میرا تعلق یہیں سے ہے اور بہتر ہے کہ ذکر اس کا ہی ہو جس کو خود محسوس کیا اور دیکھا گیا ہو۔ یہاں کی خوبصورت وادیاں، یہاں کے پہاڑ جو کبھی برف کی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو کبھی ہریالی کی خوشبو سے نہاجاتے ہیں ،خوبصورت عمارتیں ،صاف ستھرے راستے ہر جگہ خوشبو اور ہریالی جو انسان کو اپنے حصار میں لے لیں۔
مگر ایسا نہیں کہ یہ سب کچھ پاکستان میں نہ ہو فرق صرف یہ ہے کہ یورپ اور مغربی ملکوں کے لوگ یہاں کی صفائی کا بہت خیال رکھتے ہیں اور اس کی سجاوٹ کو اہمیت دیتے ہیں نہ کہ حکومت کے فرائض میں شامل کردیں اور حکومت بھی ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ہمیشہ گامزن نظر آتی ہے۔ مغربی ملکوں کی ان تمام قدرتی اور انسانی خوبصورتی کے ساتھ کچھ تلخ حقیقتیں بھی وابستہ ہیں ۔یہ حقیقتیں کچھ حقوق سے وابستہ ہیں تو کچھ مذہب سےاور کچھ آزادی سے جو یہاں کے وہ لوگ جن کا تعلق خاص طور پر ایشیا یا اقلیت سے ہے ہر دن محسوس اور برداشت کرتے ہیں۔
سب سے تکلیف دہ حقیقت تو یہ ہے کہ جب آپ اپنےمذہب پر اٹھنے والی انگلی کو روک نا پائیں۔ مگر بہت کم لوگ ہی ہیں جو سرعام کسی کے مذہب پر تنقید کرتے ہیں البتہ موقع کو گھماتے ہوئے یا پھر فریڈم آف سپیچ کے نام پر ضرور اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان مغربی ملکوں میں اسلام کے حق میں بولنے والے کو دہشت گرد اور انتہا پسند سمجھا جاتا ہے۔ اب فریڈم آف سپیچ ہے کیا ؟ فریڈم آف سپیچ کا مطلب ہے کہ آپ کسی بھی چیز یا مسئلہ پر اپنے دل کی بات کھل کر بول سکتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ نسل پرستی کے اصولوں کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ مطلب فریڈم آف سپیچ کے نام پر آپ کسی کے مذہب اور رنگ و نسل پر کوئی بات نہیں کر سکتے مگر افسوس کئی مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے پیارے نبی صلی اللہ وسلم اور قرآن شریف کو لے کر اکثر نازیبا الفاظ اور نازیبا تصاویر بنائی جاتی ہیں اور یہاں کی حکومتیں ان نازیبا چیزوں کی حمایت بھی کرتی ہیں۔
آج کل اس کی مثال فرانس میں ہمیں واضح نظر آتی ہے۔ فرانس میں اس وقت ساٹھ لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں مطلب اقلیت میں مسلمان سب سے زیادہ ہیں اور اسی اقلیت کو دبانے کے لیے وہاں کی حکومت نے حجاب پر پابندی لگائی ہے۔ وہاں کے وزیراعظم بھی فریڈم آف سپیچ کے نام پر بولتے ہوئے تو بہت زیادہ نظر آتے ہیں مگر جب بات مسلمانوں کے حقوق کی ہوتی ہے تو ہمیشہ خاموش نظر آتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہمیں نظر آیا جب فرانس میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنا کر ناصرف مسلمانوں کے دلوں کو دکھایا گیا بلکہ مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی تاکہ مسلمان ان توہین آمیز خاکوں کو دیکھ کر غصے میں آ جائیں اور کوئی غلط قدم اٹھائیں اور پھر ان کو موقع مل جائے اسلام کو دہشت گردی سے ملانے کا اور ایسا ہی کچھ ہمیں دیکھنے کو بھی ملا۔
اب فرانس میں ایک نیا قانون پیش کیا جا رہا ہے جس کے تحت کوئی بھی نیوز رپوٹر پولیس آفیسر کی تصویر لے کر اپنے چینل یا اخبار میں نہیں لگا سکتا اور اگر کسی نے اس کی خلاف ورزی کی تو اس کو ایک سال کی سزا یا پھر بیس ہزار یورو کا جرمانہ لگایا جائے گا۔ اس قانون میں فریڈم آف سپیچ کے مقصد کو ہی ختم کردیا گیا ہے۔ مگر پھر بھی مغربی ممالک اس پر خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح انگلینڈ میں بھی آپ ملکہ اور اس کی نجی زندگی کا مذاق نہیں اڑا سکتے نہ زبانی ناہی خاکہ بنا کر اگر مذاق اڑایا تو آپ کو جرمانہ دینا ہوگا مگر مسلمانوں کے پیارے نبی صلی وسلم کا مذاق اڑا بھی سکتے ہیں اور خاکےبھی بنا کر مسلمانوں کو زخم بھی دے سکتے ہیں کیونکہ فریڈم آف سپیچ ہے اور اگر اس وجہ سے مسلمان غصے میں آتے ہیں تو ان کو موقع مل جاتا ہے اسلام کو دہشت گردی سے ملانے کا۔
جس کی وجہ سے یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کی مشکلات میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ویسے ہی اپنے ملک اور رشتہ داروں سے دور رہنے کا دکھ اور آزمائش اپنی جگہ اب جب گھر سے نکلو تو ہر دوسرا شخص مسلمانوں کو خودکش بمبار سمجھتا ہے۔ مساجد بند کر دی جاتی ہیں یا ان پر بےجا پولیس تعینات کر دی جاتی ہے جو ہر نمازی کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انکی تلاشی بھی لیتے ہیں۔ یہی رویہ شاپنگ سینٹر ٹرین اسٹیشن اور دوسری اہم عمارتوں کے باہر بھی مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ افسوس پوری دنیا اس پر خاموشی رہتی ہے اور آواز اٹھتی بھی ہے تو صرف فریڈم آف سپیچ کی۔
دوسری تلخ حقیقت یہاں کی نسل پرستی ہے۔
اب سے تیس چالیس سال پہلے نسل پرستی عام اسکولوں سے لے کر خاص اسکولوں تک اورآفسز سے لے کے ہر ادارے میں کھلے عام نظر آتی تھی۔اس دور میں مغربی دنیا کے لوگ رنگ و نسل اور مذہب کو بہت سنجیدگی سے لیتے تھے مثلا گورا رنگ اور اعلی نسل اور دولت مندی ہی ان لوگوں کے لیے اہمیت رکھتی تھی باقی سب حقیر سمجھے جاتے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ اس نسل پرستی کا غبارتو ہٹا مگر اب بھی کئی ایسی چیزوں اور جگہوں پر نسل پرستی دیکھی جا سکتی ہے۔ جیسے ان ملکوں کی پارلیمنٹ میں چند ایشین لوگ ہی نظر آئیں گے۔ یہی حال یہاں کی کمپنیوں کا بھی ہے جتنی بڑی اور سینئر پوسٹ ہو آپ کو ایشین خصوصاً مسلمان کم ہی نظر آئیں گے یا پھر نظر ہی نہیں آئیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمان نہ تو شراب پیتے ہیں اور نہ ہی شراب خانے جانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے اکثر داڑھی بھی ہوتی ہے اور نماز بھی پابندی سے پڑھتے ہیں جبکہ ایشین اگر ہندو ہے یا چائنیز ہے تو ان اداروں میں پھر بھی اپنی تھوڑی بہت جگہ بنا لیتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کو شراب پینے اور شراب خانے جانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ ان غیر ملکیوں نے کئی ایسی تحریکیں بھی چلائی ہیں جیسے بلیک لائف میٹر اور ڈائیورسٹی جس کے تحت رنگ مذہب اور نسل کو نظر انداز کرکے لوگوں کی قابلیت کو اہمیت دینے پر زور دیا گیا مگر اب بھی تقریبا ہر کمپنی اور ادارے میں سینئر پوسٹ کے لیے رنگ و نسل کو ہی ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اقلیتوں کو ملازمت کےحصول میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اور قابلیت کو اہمیت نہی دی جاتی۔
یہاں کی عورتوں کی بیجا آزادی اور برابری بھی یہاں کی تلخ حقیقتوں کا ایک حصہ ہے۔ مغربی عورتیں ہر وہ عمل کرتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی ہی عزت اور آبرو قربان کر بیٹھتی ہیں۔جس میں نہ صرف ان کی اپنی بلکہ ایشین خاندانوں کی نسلیں بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ مغربی عورتیں شادی اور ذمہ داریوں سے خود تو کوسوں دور ہیں اب تو یہاں کے مردوں کو بھی شادی کے نام سے چڑ ہو گئی ہے خاص طور پر انگلینڈ کے مردوں کو کیوں کہ یہاں کے قانون نے یہاں کی عورتوں کو بے جا حق دے دیا ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ یہاں کے مردوں کو بآسانی کنگال کر سکتی ہیں۔ کیونکہ شادی کے بعد علیحدگی پر یہاں کی عورتوں کو مرد کی جائیداد سے آدھا حصہ ملتا ہے اور اگر اولاد ہوئی تو اس کا پورا خرچ اسکول سے لے کر 18 سال کی عمر تک مرد کے ہی ذمہ ہوتا ہے جبکہ یہاں کی عورت جو بنا شادی کہ بھی مرد کے ساتھ رہنے کو تیار ہے پارٹنر کی حیثیت سے جس میں قانونی طور پر مرد کا ہی فائدہ ہے اس کو اپنی جائیداد سے کچھ نہیں دینا پڑتا۔ اب سوال یہ ہے کہ مغربی ملکوں کے مرد شادی کیوں کریں اور سوال یہ بھی ہے کہ یہاں کی عورتیں بنا شادی کے ساتھ رہنے کو تیار کیوں ہیں ؟. وجہ ظاہر ہے برابری اور بےجا آزادی کی خواہش جو ان کو ان کی ماں کی نسل سے ملتی ہے اور جو یہ اپنی آنے والی نسلوں کو دینگی۔جس کی وجہ سے ایشین بچیوں کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ اگر بات یہاں کے بچوں کی کروں تو اور بھی برا حال ہے۔ ان بیچاروں کو اٹھارہ سال تک ان کے والدین ایسے پالتے ہیں جیسے کسی غیر کا بچہ ہو۔ جیسے ہی یہ اٹھارہ سال کے ہوتے ہیں ان کو گھر سے نکال کر زمانے کے سپرد کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی خود بنائیں کہنے کو تو والدین کی یہ خواہش اچھی ہے کہ وہ بچہ اپنی زندگی کے فیصلے خود لے مگر بنا کسی تحفظ کے یہ بچے اکثر شراب اور نشے جیسی بری عادت میں پڑ جاتے ہیں اور زندگی کے وہ خوبصورت پہلو جو اپنے والدین کی سرپرستی میں گزار سکتے تھے شراب اور جوئے کی نظر ہو جاتے ہیں کہنے کو تو یہ آزادی ہے اور اب بچہ اور والدین آزادی کی زندگی اپنے لیے گزار سکتے ہیں مگر نہ تو ماں باپ اولاد کی کسی خوشی اور غم میں سہارا بنتے ہیں اور نہ ہی اولاد ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارہ بنتی ہے۔ ان کے اس معاشرے کا اثر ایشین خاندان کے بچوں پر بھی برا پڑتا ہے ایشین خاندان کے بچے اپنے آپ کو قیدی محسوس کرتے ہیں اور جب خاندان اپنے گھر کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہاں کے لوگ ظالم اور جاھل کا خطاب دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر ایشین مسلمان خاندان اپنے بچوں کے جوان ہونے سے پہلے ہی اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں۔
افسوس آخر میں یہی کہوں گی کہ ہم پاکستانیوں کے لیے مغربی ملکوں میں رہنا کچھ ایسا ہے جیسے دور کے ڈھول سہانے یہاں کے اپنے مسائل اور مشکلات ہیں۔ دیکھا جائے تو یہاں کی حکومت ادارے اور پولیس بدعنوانی کا شکار نہیں اور پاکستان سے زیادہ محفوظ جگہ ان مغربی ملکوں میں ہے۔ مگر موت کب کس کو کہا ں مل جائے یہ تو قسمت میں لکھا ہے اور زندگی کا جو مزہ اپنوں کے ساتھ ہے وہ دور جا کر پردیسی بننے میں نہیں۔ جب خوشیوں اور غموں میں آپ کے اپنے گلے لگانے کو نہ ہوں تو زندگی بے معنی ہوجاتی ہے۔
دل کے دکھوں کو برداشت کرنا
ہم پردیسیوں کو آتا ہے غم چھپا لینا
یوں تو ہر جگہ ہی ہے آزمائش نئی نئی
ہم پردیسیوں کو نہیں آتا زخم دکھا دینا