ڈاکٹر محمد کامران کا تعلق بہاول پور سے ہے۔اور آپ ایک عرصے سے لاہور میں مقیم ہیں۔اس وقت آپ اورٓینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں ادارہ زبان وادبیات کے ڈائریکٹر ہیں۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔آپ شاعر بھی ہیں، میرا موضوع بھی آپ کی شاعری ہے۔آپ ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں اکثر اشعار ایسے ہیں کہ بندہ چونک جاتا ہے۔ شعر دیکھیے گیا:
خواب اور درد سے آگے بھی کو ئی دنیا ہے
عمر آئندہ چلو اس میں بسر کرتے ہیں
انسان ہمیشہ امیدوں اور خوابوں کے سہارے زندگی بسر کرتا ہے۔ جبکہ کامران صاحب ان سے الگ سوچتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے ان کی نظر میں خواب اور درد کچھ بھی نہیں ہیں اور اب وہ کسی اور دنیا کے طالب ہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
بعض اوقات تو وہ اپنے محبوب کو یہ کہتے دکھائی دیتے یں کہ وصل کے چند لمحوں میں سالوں کی بات کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔
تم نے دیکھا کہ چند لمحوں میں
کتنے برسوں کی بات ممکن ہے
ڈاکٹر محمد کامران تیز ہوا میں بارش کو چھو کر دیکھنا چاہتے ہیں اور پھر محسوس کرتے ہیں جیسے کسی نےدل کے تاروں کو چھیڑ دیا اور چاروں اور دل کی دنیا میں سُر بکھرےہوئے ہوں۔ ایک شعر دیکھیے گا:
تیز ہوا میں بارش کو چھو کر دیکھا
دل کے سازپہ کو مل سی دھن بجنے لگی
راہ عشق میں انتظار ضروری ہوتا ہے۔ کبھی انسان خوش فہمیاں پال لیتا ہے۔ یقیناً وہ ایک دن ضرور میرا ہو گا۔ یہ انتظارآپ کے کلام میں موجود ہے۔ایک طویل انتظار کے بعد محبوب کا فون آتا ہے، خوش رہیے گا۔شعردیکھیے گا:
اک زمانے کے بعد فون کیا
اور خوش رہنے کی نصیحت کی
آپ اپنے دوستوں سے بڑی محبت کرتے ہیں اور یہ محبت ان کے کلام میں بھی موجود ہے۔
یار دنیا میں “برائی” کی طرح پھیل گئے
پھر بھی خواہش ہے مرے یار مرے ساتھ رہیں
یہ بھی پڑھئے:
تحریک عدم اعتماد: وہ تیرگی جو ‘تیرے’ نامہ سیاہ میں تھی
پی ٹی آئی جلسہ: وہ کیا حربہ تھا، عمران خان جس میں ناکام رہے
باپ گھر کا رکھوالا اور اولاد کا مان ہوتا ہے۔ جب تک والد زندہ رہتا ہے ایک آسمان ہوتا ہے اور اولاد کی ہر پریشانی کو خود سنبھالتا ہے اور جب اس کا سایہ سر سے اُٹھ جاتا ہے تو زمانے سے بڑا ڈر لگتا ہے اس بات کا اظہار وہ کچھ یوں کرتے ہیں:
باپ کے ہوتے ہوئے ڈر نہیں لگتا تھا کبھی
اب مجھے گردش ایام سے ڈر لگتا ہے
ہراستاد کی طرح اآپ کو اپنے شاگردوں سے محبت ہے بلکہ آپ یہاں تک کہ کہ دیتے ہیں کہ میرے شاگرد میری عمر بھر کی کمائی ہیں۔
میری پہچان ہیں مرے شاگرد
عمر بھر کی یہی کمائی ہے
محمد کامران اس بات کی بھی آرزو رکھتے ہیں کہ ہر انسان کو ایک ایسی کھڑکی کی ضرورت ہے جس میں ہر وقت خوشی کی ہوا آئے۔آپ کی نظم کھڑکی دیکھیے گا:
ہر انسان کے جیون میں ایک کھڑکی چاہیے ہوتی ہے
جس سے روشن لمحوں اور جان بخش ہوا کی آمد جاری رہتی ہے
اب وقت ہے
کھل جا سم سم کی آواز یہ کھڑکی کھولیں
ورنہ اس کھڑکی کو دیمک لگ جائے گی
اور کھڑکی سے سر ٹکڑانے والی تتلی
موت سے پہلے مر جائے گی
ہر عاشق وصل کا طالب ہے اور وہ کبھی خوابوں میں اور کبھی خیالات کی دنیا میں وصل کا شوق پورا کرتا ہے تو محمد کامران اس عاشق کی نمائندگی کچھ یوں کرتے ہیں:
رات بھر وصل میسر تھا تمھارا مجھ کو
صبح چڑیوں نے جگایا تو اکیلا تھا میں
ایک اور شعر دیکھیے گا:
رات جنگل میں بسر کہ گھنی زلفوں میں
اپنے پہلو میں ہی دراصل بسر ہوتی ہے
عورت مارچ کے حوالے سے ایک شعر دیکھیے گا:
عورت کو اپنے جسم پہ مرضی تو مل گئ
عورت میں کچھ رہا نہیں عورت نکال کر
ان کے مزید دو شعر دیکھیے گا:
یار جب چوٹ لگے درد بہت ہوتا ہے
یار مردوں کو بھی رونے کی اجازت دی جائے
ووٹ کے ساتھ اب کی بار
ہم انگوٹھے خرید لائے ہیں
کرونائی حوالے سے ایک شعر دیکھیے گا:
کتنے عرصے سے مقید ہوئی ساری دنیا
اب تو دنیا کو رہا کر کہ یہ دن کٹ جائیں
ان کا ایک شعر ہے جس کا اسلوب جون ایلیاسے ملتا جلتا ہے۔
چاند تاروں سے پوچھتی ہو مرا
تم مجھے فون کیوں نہیں کرتی
ڈاکٹر محمد کامران شاعری کی دنیا میں ایک الگ آواز رکھتے ہیں۔ دعا ہے اللہ پاک ان کے قلم میں وسعتیں پیدا کرے۔